کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

idara letterhead universal2c

کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

گناہوں اور حرام خوری کا کفارہ

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے کہ ایک پچاس سالہ آدمی جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا ہے، اس کی ایک نماز بھی خشوع وخضوع سے ادا نہیں، ہر قسم کے گناہ کبیرہ وصغیرہ اس سے سر زد ہوئے، حرام اتنا کھایا کہ معلوم نہیں کس کس سے کھایا او رالله تعالیٰ کے احکامات توڑتے توڑتے تھک گیا، اب وہ اپنے گناہوں سے صدق دل سے توبہ کرچکا ہے۔

اس کو سکون قلب کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ او رنماز، حرام خوری الغرض ہر قسم کے گناہ کبیرہ وصغیرہ او راس میں ایسے گناہ بھی شامل ہیں جو اس کو یاد بھی نہیں، ان سب کا کفارہ اور حکم کیا ہے؟

جواب…واضح رہے کہ الله تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم سے فرماتے ہیں کہ :” اے میر ے محبوب ! میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے ( گناہ کرکے) اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، الله تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہوں، بے شک الله تعالیٰ تمام (چھوٹے بڑے) گناہوں کو معاف فرماتے ہیں، بے شک وہی بہت معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے “ حضرت عبدالله بن عمررضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ : یہ آیت گناہ گاروں کے لیے قرآن کی سب آیتوں سے زیادہ امید افزا ہے۔ (معارف القرآن)

لہٰذا جتنا حرام مال اس شخص کے پاس موجو دہے، اگر اس کا مالک معلوم ہے تو کسی طرح اس کو پہنچا دے، اگر مالک ممعلوم نہیں تو اس حرام مال کو ثواب کی نیت کیے بغیر، فقیروں میں صدقہ کرے اور فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرے کثرت سے درود شریف پڑھنے کا اہتمام کرے اور توبہ واستغفار کرتا رہے۔(12/183)

عورت کس کس سے پردہ کرے؟ نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے زوجین کے حقوق ہیں یا نہیں؟

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: عورت پر شوہر کے خاندان میں سے کس کس سے پردہ لازم ہے؟ نیز عورت پر شوہر کے چچا، ماموں، بھانجے، اور بھتیجے سے بھی پردہ کرنا لازم ہے؟

نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے ان پر حقوق زوجین میں سے کچھ حقوق لازم ہوتے ہیں یا کوئی بھی حق نہیں ہوتا؟ نیز نکاح کے بعداور رخصتی سے پہلے ان دونوں کا آپس میں میل جول باتیں کرنا جائز ہے؟

جواب… عورت کے نامحرم رشتہ دار( یعنی وہ رشتہ دار جن سے پردہ فرض ہے) وہ درج ذیل ہیں:
خالہ زاد، ماموں زاد، چچازاد، پھوپھی زاد،، دیور، جیٹھ، بہنوئی، نندوئی، خالو، پھوپھا، شوہر کا چچا، شوہر کا ماموں،، شوہر کا خالو، شوہر کا پھوپھا، شوہر کا بھتیجا، شوہر کا بھانجا۔

نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے میاں بیوی کا ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنا، ایک دوسرے کو دیکھنا، ملنا ،بات چیت کرنا شرعا ًدرست ہے، اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

البتہ رخصتی سے پہلے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کو عرف ومعاشرے میں معبوب سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اگر بیوی کو حمل ٹھہر جائے، تو بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں، بسا اوقات یہ چیزیں بڑے فتنے کا باعث بن جاتی ہیں، لہٰذا رخصتی سے پہلے چوری، چپکے ازدواجی تعلقات قا ئم کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (58-59/183)

مستقبل کے الفاظ سے طلاق دینا

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے درمیان لڑائی ہوئی، میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ” میں تمہیں فارغ کر دوں گا“، پہلے بھی ایک مرتبہ ہمارے درمیان لڑائی ہوئی تھی، جیساکہ میں نے دارالعلوم سے فتوی نکالا، اس میں ہماری ایک طلاق ہوئی تھی، جس پر ہم نے دوبارہ سے نکاح کیا او رہم ساتھ دو ہفتے رہے، نکاح کے بعد میری ساس میری بیوی کو اپنے ساتھ پنجاب لے گئی، اس کے چھ مہینے بعد میری ساس نے خلع کا کیس کیا، جس پر میں پنجاب گیا اور وکیل کیا اور چار مہینے اس کیس میں وہاں رہا، نہ خلع کے پیپر پر میری بیوی نے دستخط کیے اور نہ ہی میں نے کیے اور اس کے چھ سال کے بعد میری بیوی نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اب میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، میری دس سال کی ایک بیٹی ماں کے ساتھ ہے اور گیارہ سال کا بیٹا میرے ساتھ ہے، ان چھ سالوں میں میں نے اپنے آپ سے باتیں کہیں کہ میں اس کو چھوڑ دوں گا یا فارغ کر دوں گا، یہ باتیں میرے اور الله کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اب شریعت اس مسئلہ میں ہم میاں بیوی کو کیا حکم دیتی ہے؟

جواب… صورت مسئولہ میں بیان کردہ صورت حال اگر حقیقت پر مبنی ہے او راس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو آپ کے ان الفاظ ” میں تمہیں چھوڑ دوں گا، میں اس کو چھوڑ دوں گا یا فارغ کر دوں گا“ یہ تمام جملے مستقبل کے ہیں او رمستقبل کے جملوں سے طلاق واقع نہیں ہوتی، لہٰذا پہلی طلاق ہونے کے بعد جو نکاح کیا، اگر اس کے بعد کوئی طلاق نہ ہوئی ہو، تو آپ کا نکاح بر قرار ہے، بغیر تجدید نکاح کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔(115/183)

مال حرام کو واپس کرنے کا حکم اور اس کی صورت

سوال… کیا فرماتے مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا موٹر سائیکل کا ورکشاپ تھا، بے تحاشا کسٹمر تھے، اکثر کام میں ہیرا پھیری کر جاتا تھا، دس کی چیز پچاس میں، سو کی پانچ سو میں لگا دی، کبھی نیا سامان لگایا، کبھی پرانا اورکبھی چوری کی، کبھی سچ بولا ،کبھی جھوٹ کس کے ساتھ کتنا ناجائز کیا ،اب یاد نہیں، نو سال پہلے ورکشاپ ختم کر دیا تھا، تمام کسٹمر اب لاپتا ہیں، مطلب معافی تلافی کی امید نہیں، ستتر لوگوں کے نام یاد ہیں، باقی کے بھول گیا ہوں، ایک ایک کسٹمر کا نام لے کر کیا میں صدقہ جاریہ میں کچھ پیسے لگا سکتا ہوں؟ بس یہ کہ حشر کے میدان میں میری نیکیوں کا تبادلہ نہ ہو جائے، یا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہو تو راہ نمائی فرما دیجیے۔
جواب… واضح رہے کہ حرام طریقے سیکمایا ہوا مال اس وقت تک معاف نہ ہو گا، جب تک جس کا حق ہے اس کو واپس نہ کیا جائے یا اس سے معاف نہ کرایا جائے، واپس کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ مال ان کے مالکوں کو لوٹایا جائے، اگر مالک نہ ہوں تو ان کے ورثاء کو دیا جائے اور اگر اس مال کے مالک معلوم نہ ہوں، یا ان تک پہنچانے کی کوئی صورت نہ ہو، تو اس مال کوان کی طرف سے صدقہ کیا جائے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کو جتنے افراد کے نام معلوم ہیں، ان کا جتنا مال آپ نے لیا ہے، یا تو ان سے معاف کروائیں، یا وہ مال ان کے حوالہ کر دیں، اگر وہ نہ ہوں تو ان کے ورثاء کو دیا جائے او رباقی جن افراد کے نام آپ کو معلوم نہیں ہیں، تو ان کی طرف سے وہ مال صدقہ کر دیں، اس نیت سے کہ ثواب ان لوگوں کو مل جائے، امید ہے کہ اس عمل کے بعد آخرت میں اس کی وجہ سے مؤاخذہ نہ ہوگا، اور توبہ واستغفار بھی کرتے رہیں۔(159/183)

بالغ لڑکی کا سکوت اس کی رضا مندی ہے

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عبدالله نے اپنے بیٹے کا نکاح عثمان کی بیٹی سے کیا اور وہ بالغ تھے اوران کو ایک ہفتے بعد معلوم ہوا کہ ہمارا نکاح ہوا ہے، اس وقت صراحتاً رضا مندی کا اظہار نہیں کیا، لیکن کچھ مدت بعد دونوں نے کال پر باتیں شروع کی، باتوں میں کچھ آگے بڑھے، تو لڑکے نے طلاق دے دی، معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا یہ مذکورہ نکاح ہوا ہے یا نہیں؟ اور کیا یہ طلاق معتبر ہوگی؟

جواب… واضح رہے کہ جب بالغ لڑکی کا نکاح اس کا والد کرا دے جس پر وہ سکوت اختیار کر لے، تو اس کا سکوت رضا مندی شمار ہو گا اور یہ نکاح منعقد ہو جائے گا، لہٰذا صورت مسئولہ میں عبدالله کے بیٹے اور عثمان کی بیٹی کو جب نکاح کی خبر پہنچی، تو کسی نے بھی انکار نہیں کیا، بلکہ سکوت اختیار کیا او رکچھ مدت بعد دونوں نے کال پر باتیں شروع کیں، تو یہ بھی ان کی رضا مندی کی علامت ہے، لہٰذا یہ نکاح منعقد ہو چکا ہے او راس دوران دی گئی طلاق کا بھی اعتبار ہو گا۔(261/183)

مدرسہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر مدرسہ کے متعلق چند مسائل مالی جرمانہ وغیرہ کا حکم

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ ہمارے مدرسہ میں بڑے موبائل، کیمرے والے موبائل اوراسی طرح میموری کارڈ وغیرہ پر قانوناً پابندی ہے، سال میں ایک یا دو مرتبہ تلاشی بھی لی جاتی ہے، تلاشی اکثر عشاء کی نماز کے بعد لی جاتی ہے، تلاشی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ نماز عشاء کے بعد فورا اعلان کیا جاتا ہے کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹے، پھر اساتذہ وہیں صفوں میں سب طلباء کی جیبوں کی تلاشی لیتے ہیں، پھر اس کے بعد ایک ایک کمرے کے طلباء کو بلا کر صندوق اور بیگوں کی تلاشی لیتے ہیں اور جیبوں کی تلاشی دوبارہ لیتے ہیں، تلاشی کے بعد کسی سے بڑا موبائل اور کسی سے میموری کارڈ وغیرہ ممنوع اشیاء برآمد ہوتی ہیں، یہ ممنوع چیزیں سالوں سال مدرسہ کے پاس ویسے فضول اور بیکار پڑی رہتی ہیں، کبھی کبھار مدرسے والے موبائلوں کو فروخت کرکے پیسے مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرتے ہیں، جب کہ اکثر موبائل ابھی بھی مدرسہ کے پاس فضول اور بیکار پڑے ہیں، ایسا بھی ہوا کہ مدرسہ کے ذمہ دار شخص نے موبائلوں کو توڑا بھی ہے۔

نیزہمارے مدرسہ میں غیر حاضری پر ( مثلاً کلاس میں غیر حاضری اور شب ہفتہ کو نہ آنے کی صورت میں ) مالی جرمانہ لیا جاتا ہے۔

اب چند سوالات درج ذیل ہیں:
سوال میں ذکر کردہ طریقہ ( طلباء کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر) پر شریعت میں تلاشی لینے کی اجازت ہے یا نہیں؟
طلباء سے پکڑی ہوئی ممنوع اشیاء ( موبائل اور میموری کارڈ وغیرہ) کو فروخت کرنا او رپھر ان ہی پیسوں کو مدرسہ کے فنڈ میں خرچ او رجمع کرنے کی بھی شرعاً اجازت ہے یا نہیں؟

طلباء سے پکڑے ہوئے موبائلوں کو توڑنا شرعاً جائز ہے؟

اسی طرح ضبط شدہ موبائلوں کو مدرسہ کا استاد یا کوئی دوسرا ذمہ داری آدمی خود استعمال کر سکتا ہے؟

جو موبائل مدرسہ والوں نے توڑے ہیں، کیا ان کا واپس کرنا مدرسہ والوں پر ضروری ہے؟ جب کہ اس میں ایسے موبائل بھی ہیں کہ ان کے مالک مدرسہ سے چلے گئے ہیں، کیا ان کو تلاش کرنااور پھر ان کو اسی طرح کا موبائل یا رقم کا واپس کرنا ضرور ی ہے؟

اگر مہتمم مدرسہ کے ناظم یا کسی دوسرے استاد کو موبائل توڑنے کا کہے، تو ناظم کو مہتمم کا حکم ماننا ضروری ہے یا نہیں؟

مالی جرمانہ لینا کیسا ہے؟ خاص کر ہمارے زمانے میں کہ اکثر طلباء دیگر سزاؤں کی صورت میں اپنے جرائم سے باز نہیں آتے۔

اگر مہتمم صاحب مالی جرمانہ لینے کے لیے یہ دلیل پیش کریں کہ میں طلباء کو مفت تعلیم دے رہا ہوں، اس کے بدلے میں جرمانہ لے رہا ہوں، کیا ان کی یہ دلیل دلیل جواز بن سکتی ہے؟

جن طلباء سے مالی جرمانہ لیا گیا ہے، اس کا واپس کرنا ضروری ہے یا کیا حکم ہے؟

از راہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں، شکریہ۔

جواب… واضح رہے کہ مدارس کے جو قوانین ہوتے ہیں، وہ طلباء کے مفاد کے لیے ہوتے ہیں، چناں چہ طلباء پر ان قوانین کی پاس داری کرنا لازم ہے، کیوں کہ وہ داخلہ فارم میں ان قوانین کی پاس داری کرنے پر دستخط کرتے ہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں طلباء کی تلاشی لینا جائز ہے، البتہ جیب میں ہاتھ ڈال کر تلاشی لینا مناسب نہیں ہے، بلکہ طالب علم سے کہہ دیا جائے کہ جیب کا سامان باہر نکالے۔

طلباء سے پکڑی ہوئی ممنوع اشیاء ( موبائل اور میموری کارڈ وغیرہ) کو ان کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا او ران ہی پیسوں کو مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔

طلباء سے پکڑے موبائل کو توڑنا جائز نہیں ہے، لہٰذا توڑنے کی صورت میں توڑنے والے پر ضمان آئے گا۔

ضبط شدہ موبائل وغیرہ کو مدرسے کا استاد یا کوئی دوسرا آدمی طلباء کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا۔

جو موبائل کو مدرسے والوں نے توڑے ہیں، ان کی قیمت مالک کو واپس کرنا ضروری ہے، مدرسہ والے مالک کو تلاش کرکے موبائل کی قیمت مالک کو واپس کریں، اگر مالک کا علم نہیں ہے تو موبائل کی قیمت کو مالک کی طرف سے صدقہ کر دیں۔

اگر مہتمم مدرسہ کے ناظم یا کسی استاد کو موبائل توڑنے کا کہے، تو ان کو مہتمم کا حکم ماننا جائز نہیں۔

مالی جرمانہ حضرات احناف کے ہاں جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ کوئی او رشرعی سزا مقرر کی جائے۔

مہتمم کا یہ دلیل ( کہ میں طلباء کو مفت تعلیم دے رہا ہوں) پیش کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ مہتمم صاحب عام مسلمانوں سے صدقات اور زکوٰة طلباء کو مفت تعلیم دینے کے لیے وصول کرتا ہے او رعام مسلمان صدقات اور زکوٰة طلباء ہی کی وجہ سے دیتے ہیں او رمہتمم صاحب ان پر قبضہ کرنے اور طلباء پر خرچ کرنے کا وکیل ہوتا ہے، لہٰذا مذکورہ دلیل پیش کرنا درست نہیں۔

جن طلباء سے مالی جرمانہ لیا گیا ہے، اس کا واپس کرنا ضروری ہے۔(285-293/183)