مبیع پر قبضہ کی تفصیل
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بندے نے دکان دار سے چالیس من چینی خرید لی اور پیسے بھی دے دیے، دکا ن دار نے کہا کہ آپ جب چاہیں لے جائیں، لیکن وہ کسی وجہ سے دکان سے چینی منتقل نہ کر سکا، بلکہ دکان دار کے پاس ہی رکھی رہی، اب یہ بندہ موجودہ ریٹ کے حساب سے(جو کہ پہلے کی بنسبت بڑھ چکا ہے) اسی دکان دار پر یا کسی اور شخص پر یہ چینی بیچ سکتا ہے؟
کیا یہ تخلیہ اور دکان دار کار کاوٹ نہ بننا قبضہ شمار ہو گا یا یہ بیع قبل القبض ہو کر نا جائز ہے؟
نیز آج کل کے حساب سے شرعاً قبضہ کس چیز کا نام ہے؟ مثلاً :پلاٹ او رگھر میں کیا چیز قبضہ شمار ہو گی؟ اگر باپ اپنے کسی بیٹے کو گھر ہبہ کرنا چاہے، جب کہ وہ خود بھی بمع سامان اور دوسرے بیٹوں کے اسی میں رہائش پذیر ہے او ربعد میں بھی اسی گھر میں رہیں گے، موھوب لہ کی خوشی اوررضا مندی سے، تو آج کل کے حساب سے قبضہ کے لیے وہ کیا طریقہ اختیار کر لیں جس سے ہبہ تام ہو، صرف گھر کے کاغذات وغیرہ اس کو مالک بنانے کی نیت سے اس کے نام کرنے سے قبضہ شمار ہو گا؟
اسی طرح منقولی اشیاء( کھانے پینے کی چیزیں یا گاڑی وغیرہ) میں کیا چیز قبضہ شمار ہو گی؟ راہ نمائی فرمائیں۔
جواب… واضح رہے کہ قبضہ مبیع او رمشتری کے درمیان ایسے طور پر تخلیہ کر دینے کو کہتے ہیں کہ مشتری کو قبضہ کرنے کی قدرت حاصل ہو جائے، جس میں بائع کی طرف سے کوئی مانع او رحائل باقی نہ رہے، قبضہ حسی کبھی چیز کو ہاتھ میں لینے سے حاصل ہوجاتا ہے او رکبھی کسی اور طریقے سے، مختلف چیزوں کا قبضہ ان چیزوں کے اعتبار سے الگ الگ طریقے سے ہوتا ہے، مثلا: مکیلی یا موزونی چیزوں میں کیل اور وزن کرکے مشتری کے حوالہ کر دینا قبضہ کہلاتا ہے، اور جو چیزیں اندازے سے بیچی جاتی ہیں ان کو منتقل کر دینا قبضہ کہلاتا ہے ،اور روپیہ پیسہ ہاتھ میں دے دینا قبضہ کہلاتا ہے، احناف رحمہم الله کے نزدیک زمین او رگھر کا تخلیہ کر دینا کافی ہے، اسی طرح گاڑی وغیرہ میں قبضہ کا طریقہ یہ ہے کہ گاڑی کی چابی او رکاغذات وغیرہ مشتری کے حوالے کرکے گاڑی اس کے اختیار میں دے دینا، اس طور پر کہ گاڑی مشتری کے سامنے ہو او رمشتری کے لیے گاڑی لے کر جانے میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں دکان دار کا فقط یہ کہہ دینا کہ آپ جب چاہیں، لے جائیں، اور اس طرح تخلیہ کر دینا قبضہ شمار نہیں ہو گا اور یہ معاملہ بیع قبل القبض ہو کرنا جائز ہو گا، اس کے لیے ضرور ی ہے کہ وہ چالیس من چینی کو وزن کرکے الگ کرکے مشتری کے حوالے کر دے۔
واضح رہے کہ ہبہ تام ہونے کے لیے قبضہ کا ہونا ضرور ی ہے، فقط ہبہ کے الفاظ کہہ دینے سے ہبہ تام نہیں ہوتا، جب تک واہب کلی طور پر وہ چیز موہوب لہ کے سپرد نہ کر دے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر باپ اپنے کسی بیٹے کو گھر ہبہ کرنا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنا سامان وغیرہ اس گھر سے نکال کرکسی او رجگہ منتقل کرکے، پھر اس کے بعد چاہے تو اس کے گھر میں رہائش اختیار کرسکتا ہے۔
البتہ فقہاء رحمہم الله نے اس مشکل سے بچنے کے لیے ایک حیلہ بتایا ہے کہ پہلے والد اپنا سارا سامان جو اس گھر میں موجود ہے، اس کو اپنے بیٹے کے پاس بطور ودیعت کے رکھ دے، او رپھر وہ گھر اس بیٹے کے حوالے کر دے، تو اس سے وہ ہبہ تام ہو جائے گا اور وہ سامان نکالنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔(112-113/180)
طلاق کی صورت میں مہر اور دیگر تحائف کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مولانا صاحب کا نکاح ایک مطلقہ خاتون سے بعوض مہر ایک لاکھ روپے ہوا(50 ہزار معجل اور 50 ہزار مؤجل تھا)، فی الحال کچھ بھی ادا نہیں کیا گیا، البتہ آنجناب کی اولاد نے ولیمہ کے موقع پر قیمتی تحائف سے نوازا اور شوہر کی طرف سے بری وغیرہ بھی دی گئی تھی، اب دلہن کچھ عرصہ بعد طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ مہر ادا کیا جائے گا یا نہیں؟ اور وہ تحائف واپس لیے جائیں گے یا نہیں؟ جو شوہر کی اولاد نے اپنے والد کی وجہ سے دلہن کو دیے تھے، (تحائف میں زیورات بھی دیئے تھے) اور آیا شوہر بری واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟
بری عرف میں اس سامان وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو رخصتی سے پہلے شوہر کی طرف سے تحفہ کے طور پر دلہن کے لیے اس کے گھر بھیجا جاتا ہے۔
جواب… صورت مسئولہ میں نکاح کے موقع پر جو مہر مقرر ہوا تھا، وہ مقررہ مہر بیوی کو دینا واجب ہے، البتہ اگر بیوی اپنی رضا مندی سے اپنا حق مہر کسی وجہ سے چھوڑنا چاہے تو چھوڑ سکتی ہے۔
نیز اولاد نے جو شادی کے موقع پر تحائف وغیرہ دیے، یا شوہر کی جانب سے جو سامان وغیرہ بری کے طور پر دیا گیا، وہ سب بطور تحفہ اور ہدیہ کے دیا گیا تھا اور بیوی اس پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی مالک بن گئی تھی، لہٰذا بیوی سے وہ تحائف اوربری کا سامان وغیرہ واپس لینا درست نہیں۔(180/179)
شوہر کے نفسیاتی مریض ہونے کی صورت میں بیوی کے لیے چھٹکارے کا طریقہ
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ رخصتی کے کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں معاملات بگڑنا شروع ہو گئے ، شوہر ذہنی مریض ہے جب کہ بیوی حاملہ بھی ہے، شوہر کا ذہنی توازن خراب ہونے کی وجہ سے وہ بیوی کو دہنی اذیت دیتا رہتا ہے، مثلاً :وہ اس حالت میں کبھی ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیتا ہے، او ر اپنے والدین سے نہ ملنے دیتا ہے او ربات چیت بھی نہیں کرنے دیتا، موبائل فون بھی اپنے قبضے میں کر لیتا ہے، مستقل گالم گلوچ کرتا ہے، گھر والوں کو گالیاں دیتا ہے اور نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور بیوی کو کہتا ہے کہ تم نیچ ماں باپ کی اولاد ہو، جب کہ بیوی کا تعلق سید گھرانے سے ہے، اس کی اس کیفیت کے دوران نہ صرف بیوی کو مارنے کی دھمکیاں دیتا ہے ،بلکہ وہ اپنے آپ کو بھی اذیت دیتا ہے ،اور اس دوران وہ رات بھر مستقل بولتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ بیٹھ کر میری سنتی رہو، اس کے علاوہ وہ مجھے بار بار طلاق کی دھمکیاں دیتا ہے او رکہتا ہے کہ اپنے گھر والوں سے کہو کہ اپنا سامان لے جائیں او رتم کو بھی لے جائیں ،اس طرح یہ مجھے تین دفعہ بھیج چکا ہے ،مگر اب یہ کہتا ہے کہ حق مہر واپس کروا اور اپنا سامان لے جا، لیکن پھر ایک دودنوں کے بعد کہتا ہے کہ چھوڑ و،جانے دو، جو کچھ ہوا غصے میں ہوا، اس پوری صورت حال سے میں اور میرے والدین بہت پریشان ہیں اورمیں اب اس کے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتی، کیوں کہ اگر میں مزید اس کے ساتھ رہی تو میں خود پاگل نفسیاتی مریضہ بن جاؤں گی۔
برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں کہ شرعی نقطہ نظر میں کس طرح اس سے چھٹکارا پاسکتی ہوں ؟اور جو بچہ پیدا ہو گا اس کی پرورش کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟
جواب… اسلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ ومعاہدہ عمر بھر کے لیے ہو، اس کے ٹوٹنے او رختم ہونے کی کبھی نوبت ہی نہ آئے، کیوں کہ جدائی کا اثر فریقین ہی پر نہیں پڑتا، بلکہ اس کی وجہ سے نسل واولاد کی تباہی وبربادی ہوتی ہے ،او ربعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت آجاتی ہے، کبھی کبھار فریقین میں سے کسی کو طبعی طور پر ایک دوسرے کی جانب سے کچھ ناگواری ہو جائے، تو خود کو سمجھا بجھا کر در گزر کر دینا چاہیے، نباہنا ضروری امر ہے، مردوں کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے کئی طرح سے سمجھا یا ہے اور نباہنے کا حکم دیا ہے۔
چناں چہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ :”کوئی مر د کسی عورت سے بغض نہ رکھے، کیوں کہ اگر اس کی کوئی خصلت ناگوار ہو گی ، تو دوسری خصلت پسند آجائے گی۔“
اور عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ طلاق کا سوال نہ اٹھائیں، نباہنے کی کوشش کریں، جب دو آدمی ایک ساتھ رہتے ہیں، تو کبھی کچھ نہ کچھ ناگواری کی صورت سامنے آہی جاتی ہے اور اس پر صبر کرنا چاہیے۔
لیکن بعض اوقات اس تعلق کو ختم کر دینا ہی طرفین کے لیے راحت وسلامتی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے شریعت نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے، تو عورت کو اس حق سے محروم نہیں رکھا کہ وہ شوہر کا ظلم وستم سہنے پر مجبور ہی رہے، بلکہ اس کو بھی حق دیا ہے کہ اگر شوہر سے نباہ ممکن نہ ہو، تو اس سے خلع لے لے، خلع بھی نکاح او ردیگر شرعی معاملات کی طرح ایک عقد (معاملہ) ہے، جس میں ایجاب وقبول میں میاں بیوی کی باہمی رضا مندی ضروری ہے۔
لہٰذا اگر آپ کا اپنے شوہر سے نباہ ممکن نہ ہو، تو آپ خلع لے سکتی ہیں، لیکن خلع میں جانبین ( میاں، بیوی) کی رضا مندی ضرور ی ہے، یک طرفہ خلع کا اعتبار نہیں ہوتا۔جب تک بچہ سات سال کا نہ ہو جائے اور بچی نو سال کی نہ ہو جائے، اس وقت تک اولاد کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہے۔(180/180)
قرض پر نفع حاصل کرنے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے عمرو کو کہا کہ میں آپ کو بطورِ مضاربت رقم دیتا ہوں، آپ اس رقم سے اپنے لیے ویزہ بنوا کر دوبئی چلے جائیں، وہاں آپ کی تنخواہ مثلاً دو ہزار ریال ہو گی، اس میں سے مجھے ہر مہینے دو سو ریال دیا کریں، یا زید نے دوبئی کا ویزہ خود بنوا کر ویزہ عمرو کو دیا اور مذکورہ بالا طریقے پر مضاربت کا معاملہ کیا، یا مثلاً زید، بکر مل کر برابر برابر رقم لگا کر، عمرو کے نام ویزہ بنوالیں، کہ عمرو اپنی کمائی میں سے مخصوص رقم اپنے دونوں شریکوں زید اوربکر کو ہر ماہ دے گا۔
کیا مذکورہ بالا معاملہ شرعا شرکت ومضاربت کے طور پر درست ہے ؟ مدلل راہ نمائی فرمائیں، اگر یہ معاملہ ہو چکا ہو او رعمرو نے اپنی کمائی میں سے ادائیگی بھی کر لی ہوتو اس کا کیا کیا جائے؟ عدم جواز کی صورت میں جائز متبادل بھی بتا دیں، کیوں کہ عمرو دوبئی جانا چاہتا ہے، لیکن اس کے پاس ویزہ بنوانے کے لیے رقم نہیں ہے۔
جواب… صورت مسئولہ میں ذکر کردہ معاملہ شرعاً مضاربت ہے، نہ شرکت ، بلکہ یہ قرض کا معاملہ ہے، اور قرض میں قرض دینے والے کا ایسی شرط لگانا جس میں اس کا فائدہ ہو، سود میں داخل ہے، جو کہ حرام ہے، لہٰذا زید اور بکر پر لازم ہے کہ لی ہوئی رقم عمرو کو واپس کریں، مذکورہ معاملہ کے جواز کی یہ صورت ممکن ہے کہ زید اور بکر، عمرو پر احسان کرکے اس کو یہ رقم بطور قرض دیں۔(180/310)
شاملات یا ملکیتی زمینوں میں موجود معدنیات کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں دریائے سندھ کے بہتے ہوئے پانی کے قریب دریا، دیگر بہاؤ والی جگہوں، دریا کے ندی، نالوں اور ڈھلوانوں پر سونے کے ذخائر ملے ہیں جو کہ گاؤں کے شاملاتی زمینیں ہیں، البتہ جن لوگوں کی ملکیتی زمین جس شاملات سے متصل ہے، وہی لوگ ان ذخائر سے فائدہ اٹھارہے ہیں ،اور ان کا دعوی ہے کہ یہ شاملات ہماری زمین کے متصل ہے ،اس لیے ان ذخائر پر صرف ہمارا حق ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کا شاملات کی زمین سے اس قسم کا فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں، اگر جائز ہے تو ٹھیک ہے، اور اگر ناجائز ہے تو پھر یہ لوگ کس طرح اپنے آپ کو آخرت کے بڑے نقصان سے بچاسکتے ہیں؟
سونے کے کچھ ذخائر ملکیتی زمینوں پر بھی ہیں اور یہ زمینیں وراثتی زمینیں ہیں، جو کسی ایک وارث کے نام نہیں، بلکہ دادا پرد ادا کے تمام ورثاء کے نام اس میں شامل ہیں، البتہ چندورثاء کا ان پر قبضہ ہے، کیا ایسی صورت حال میں دادا کے تمام ورثاء اس منافع کے حق دار ہوں گے یا کہ چند ورثاء حق دار ہیں جن کا جائیداد پر پہلے سے قبضہ ہے؟
مندرجہ بالا صورت حال سے تیسرا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مذکورہ معدنیات میں زکوٰة کس طرح اداکی جائے او رکتنی ادا کی جائے ؟سوال یہ بھی ہے کہ جب دوسرے ورثاء زمین کے اپنے جائز حصے سے محروم ہوں تو کسی ایک وارث کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ دیگر ورثا ء کو حق دیے بغیر اپنا مال سمجھ کر زکوٰة صدقہ او رخیرات ادا کرتا رہے؟ کیا اس طرح کا صدقہ وخیرات اور زکوٰة کی ادائیگی درست ہو گی کہ نہیں؟
جواب… واضح رہے کہ شاملاتی زمین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ زمین پورے گاؤں والوں کے لیے مباح ہوتی ہے، گاؤں والوں میں سے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اس زمین سے فائدہ اٹھائے، کوئی شخص دوسرے کو منع نہیں کرسکتا، فائدہ اٹھانے میں سب برابر ہیں۔
لہٰذا مذکورہ زمین اگر مندرجہ بالا نوعیت کی ہے تو اس سے ملنے والا سونا جس کو ملے، وہی اس کا مالک ہو گا، جس شخص کی زمین شاملاتی زمین سے متصل ہے، اسے یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کو شاملاتی زمین سے فائدہ اٹھانے سے منع کرے۔
وراثتی زمینوں میں چوں کہ سب ورثاء کا حق ہے، لہٰذا مذکورہ زمینوں میں سونے کے ذخائر جس کو بھی ملیں، وہ شخص اکیلا اس کا مالک نہیں ہو گا، بلکہ تمام ورثاء اس کے مالک ہوں گے، مذکورہ ذخائر کو تمام ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔
مذکورہ ذخائر میں زکوٰة ادا کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلی صورت میں ایک خمس (پانچواں حصہ) نکال کر فقراء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور باقی چار حصے جس کو سونے کی ذخائر ملے ہیں، اسی کاحق ہے اوردوسری صورت میں بھی ایک خمس (پانچواں حصہ) فقراء کے درمیان تقسیم ہو گا اور باقی چار حصے تمام ورثاء کے درمیان تقسیم کیے جائیں گے۔
اور یہاں یہ بات بھی واضح ہو کہ جو وراثتی زمینیں ہیں، ان میں تمام ورثاء کا حصہ ہے، کسی ایک وارث یا چند ورثاء کو یہ حق نہیں کہ وہ خود ان زمینوں پر قبضہ کرکے دیگر ورثاء کو ان زمینوں سے محروم رکھیں، لہٰذا مذکورہ وراثتی زمینوں کو تمام ورثاء کے درمیان حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔ (180/205-207)
محض ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے معاشرے میں صرف سلام کا رواج بنتا جارہا ہے، یعنی آج کل صرف ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا اور لفظ” السلام “کے بجائے خالی سلام کا لفظ کہا جاتا ہے، سلام کا کیا جواب دیا جائے؟ براہ کرم راہ نمائی فرمائیں۔
جواب… افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والا اس طرح سلام کرے”السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ“
او رجواب دینے والا ”وعلیکم السلام ورحمةالله وبرکاتہ“
کہے۔
ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا یا اس کا جواب دینا اس وقت جائز ہے جب کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلاً جس شخص کو سلام کیا جارہا ہو وہ دور ہو، یا وہ شخص بہرہ ہو، تو اس صورت میں ہاتھ کے اشارے کے ساتھ لفظ سلام کی ادائیگی زبان سے بھی کرنی چاہیے ،کسی شرعی عذر کے بغیر صرف ہاتھ سے سلام کرنے سے مسنون سلام ادا نہیں ہو گا، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔ (180/197)
گندم، آٹا، چینی، گھی وغیرہ ادھار لینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم لوگ دیہاتوں کے رہنے والے ہیں، ایک دوماہ کا راشن ایک مرتبہ لاتے ہیں ، بسا اوقات گھر میں آٹا، چینی، گھی وغیرہ ختم ہو جاتا ہے، تو ہم پڑوسیوں سے ادھار لیتے ہیں، پھر جب ایک دو دن بعد بازار جاتے ہیں، تو اپنے گھر کی اشیاء لا کر اُدھار پر لی ہوئی چیز واپس کر دیتے ہیں، یہ طریقہ مذکورہ عام اکثر لوگ اس طرح کرتے ہیں، اس پر کسی نے کہا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، یہ سود ہے، جنس کو جنس کے بدلے ادھار لینا جائز نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ایسے ہی ہم پورے سال کا گندم رکھتے ہیں، لیکن جب سال کے آخر میں ختم ہوتا ہے، تو ان لوگوں سے گندم ادھار لیتے ہیں، جن کی گندم جلدی پک کر تیار ہوتی ہے، پھر جب ہمار ی گندم تیار ہوتی ہے، تو انہیں واپس کر دیتے ہیں، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ اگر ایسا نہ کریں تو حرج عظیم لازم آتا ہے، آپ حضرات سے گزارش ہے کہ شریعت کی رو سے ہماری مکمل راہ نمائی فرمائیں۔ جزاکم الله خیرا․
جواب… واضح رہے کہ آٹا ، چینی ، گھی او راس طرح کی دیگر اشیاء جن کا لین دین ناپ کر یا تول کر ہوتا ہے، جن کو اشیاء ربویہ بھی کہاجاتا ہے، ان کی خرید وفروخت میں اس بات کا خیال رکھنا ضرور ی ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور ادھار نہ ہو، ورنہ سود لازم آئے گا، او راگر دونوں طرف سے جنس ایک ہو، تو برابری کا ہونا بھی لازم ہے، البتہ قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے، تو اس میں ادھار جائز ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں ایک گھر والے ضرورت پڑنے پر دوسرے گھر والوں سے آٹا ، چینی گھی وغیرہ بطور قرض لیتے ہوں، تو چوں کہ یہ قرض کا معاملہ ہے، اس لیے اس میں ادھار جائزہے، یہ خرید وفروخت کا معاملہ نہیں ہے، چناں چہ جس طرح رقوم بطور قرض لے کر کچھ عرصہ بعد واپس کرنا درست ہے، اسی طرح ان اشیاء کو بطور قرض لے کر کچھ مدت بعد لوٹا نا درست ہے۔(130/180)