والدین سے الگ رہنے اور خلاف شریعت باتوں میں ان کی اطاعت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم چھ بھائی ہیں، والدین بھی زندہ ہیں ، ہم میں سے پانچ بھائی شادی شدہ ہیں اور سب کی اولاد بھی ہے ،چھٹے بھائی کی بھی شادی ہونے والی ہے، ہمارے بھائیوں کے والد صاحب کے ساتھ ہمیشہ جھگڑے ہوتے رہتے ہیں او راس کی بنیادی چند وجوہات ہیں:
1.. پہلی بات یہ ہے کہ والد صاحب کا ایک باغ ہے او رکچھ مال مویشی ہیں، جن کی تعداد60 ،70 کے درمیان ہے، اس کے علاوہ ہمارا کوئی ذریعہ معاش نہیں، باغ اور مویشی سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ ساری والد صاحب اپنی جیب میں ڈال دیتے ہیں اور اس میں سے ہمیں ایک روپیہ بھی نہیں دیتے، اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ باغ اور مویشی کو تم بھائیوں نے ہی سنبھالنا ہے ،اور اس پر جو خرچ آتا ہے وہ بھی تم نے دینا ہے، اورگھر کا جتنا خرچہ آتا ہے وہ بھی ہم بھائی ادا کرتے ہیں ، والد صاحب گھریلو اخراجات کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں دیتے، اور ہم بھائیوں میں سے جو بھی کمانے کے لیے جاتا ہے، تو والد صاحب اسے کمانے کے لیے نہیں چھوڑتے، اور جب چاہے تو سخت گالیاں دیتا ہے اور بد دعائیں بھی دیتا ہے، اب ہم حیران ہیں کہ اگر والد صاحب کا کہا مانیں تو بیوی بچوں کا نان نفقہ اور خرچ کہاں سے لائیں، او راگر نہیں مانتے تو والد صاحب ناراض ہوتے ہیں اور بد دعائیں دیتیہیں جس کی وجہ سے ہماری زندگی بہت تنگ ہو چکی ہے، والد صاحب کو طرح طرح سے سمجھایا، مگر وہ سمجھتے نہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہم میں سے اگر کوئی بھائی اپنے بچوں کے نان ونفقہ کی خاطر والد صاحب سے الگ ہو کر زندگی گزارے تو کیا شرعاً یہ جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ والد صاحب مالی طور پر ہمارے محتاج نہیں ہیں، او رجسمانی خدمت کے لیے ہم ہر وقت تیار ہیں،اوراگر بد دعا دیں تو بجا ہیں یا نہیں؟
2.. دوسری بات یہ ہے کہ والد صاحب ہماری بیویوں سے بکریوں کے بچے چراتا ہے اور مویشیوں کے لیے چارہ ان عورتوں سے کٹواتا ہے، وہی لاتی بھی ہیں، جب کہ ہمارا باغ ہمارے گھر سے تقریباً دو کلو میٹر دور ہے، اور ہمارے بھائی اس پرفتن دور میں اس کے لیے تیار نہیں ہیں، تو کیا اس صورت میں و الد صاحب کی اطاعت لازم ہے یا نہیں ؟ راہ نمائی فرمائیں۔
3.. تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں لوگ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں، چاہے رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار، اورچاہے گھر کے آدمی گھر میں موجود ہوں یا نہ ہوں، اور وہ بیٹھے رہتے ہیں، عورتیں اسی گھر میں ہوتی ہیں، پردے کی کوئی پرواہ نہیں رکھتے ہیں او رہم بھائیوں نے اپنے گھر میں لوگوں کے اس طرح آنے کو بند کیا ہے، جب کہ والد صاحب ہمارا ساتھ نہیں دیتے ہیں اور ہم پر غصہ ہوتے ہیں کہ لوگوں کو گھر سے بند نہ کریں، تو کیا اس صورت میں اگر ہم بھائی والد صاحب کا کہنا نہ مانیں تو شرعاً کوئی قباحت تو نہیں ہے؟
اس کے علاوہ والد صاحب کیکچھ اور کام بھیغیر شرعی ہیں، مثلاً: ایک مرتبہ گھر کی عورتوں میں کچھ تلخ کلامی ہوئی تھی ، اسی دوران والد صاحب آئے تھے، پوچھنیکے بعد ایک عورت قصور وار نکلی تھی ، تو والد صاحب نے اس کو مارا تھا، اس عورت نے اپنے گھر جاکر شکایت کی تھی، عورت کے گھر والوں نے عورت کو شوہر کے گھر لا کر والد صاحب کو سمجھایا تھا کہ آئندہ ایسا نہ کریں، اس عورت کاشوہر کہیں سفر پر گیا ہوا تھا، جب سفر سے واپس آیا تو والد صاحب نے اس سے کہا کہ اپنی بیوی کو طلاق دو، وہ اس کے لیے تیار نہیں تھا ،والد صاحب بار بار اصرار کر رہے تھے، تو ہم بھائیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ طلاق کا کوئی شرعی عذر نہیں ہے، لہٰذا طلاق نہیں دینا چاہیے، آخر ایسا ہوا کہ ایک دن والد صاحب نے اس بیٹے کو بہت سخت بد دعائیں دیں، تو اس نے ڈر کے مارے بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، اب طلاق کے بعد والد صاحب کہتے ہیں کہ میں عورت کے گھر والوں سے 60 لاکھ روپے خلع لیتا ہوں۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات ہیں جس کو میں طوالت کی وجہ سے ذکر نہیں کرسکتا، ایسی صورت میں ہم بھائی کیا کریں؟ شریعت کی روشنی میں ہماری راہ نمائی فرمائیں۔
جواب…1.. واضح رہے کہ بالغ سمجھ دار اولاد اگر والدین سے الگ رہنا چاہے، تو والدین ان کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبو رنہیں کرسکتے، لیکن ملحوظ رہے کہ علیحدہ رہائش رکھنے کی صورت میں بھی لڑکے کے ذمے والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک واجب ہو گا، خصوصاً جب کہ والدین خدمت یا نفقے کے محتاج ہوں، تو بیٹے کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ کچھ وقت نکال کر والدین کی خدمت کے امور سرانجام دے او ران کے نفقہ کا انتظام کرے۔
لہٰذا آپ لوگوں کے لیے والدین کی مالی او رجانی خدمت کو مدنظر رکھتے ہوئے الگ زندگی گزارنا شرعاً جائز ہے اور والد صاحب کا بد دعا دینا بجا نہیں ہے۔
2.. صورت مذکورہ میں اگر بے پردگی او رگناہ کا اندیشہ ہو، تو اس صورت میں و الد کی اطاعت لازم نہیں۔
3.. بالغ عورتوں کے لیے نامحرم سے شرعی پردہ کرنا ضروری ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر والد صاحب کا کہا نہ مانیں، تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔( 11-13/180)
بیماری کی حالت میں قضا ء کی ہوئی نمازیں
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری والدہ صاحبہ نے کبھی فرض نماز اور تہجد، چاشت، اشراک کی نمازیں اور صبح شام قرآن پاک کی تلاوت نہیں چھوڑی تھی، مگر طبیعت خراب ہونے کے بعد سے انہوں نے بمشکل چند دن یا مہینہ ہی نماز پڑھی، وہ بھی اگر کوئی پڑھواتا تو پڑھتی، ورنہ نہیں ، ان کو پاکی اور ناپاکی کا معلوم نہ تھا، اور مسلسل خاموش رہتی تھیں، کہتی تھیں کہ نہیں پڑھنی، اور کبھی کہتی تھیں کہ پڑھنی ہے۔
چار سال بستر پر رہیں، بعد کے دو سال کھانا بھی کرسی میں کھلانا پڑا تھا، بہت کم صحیح پہچان پارہی تھیں سب کو، پچھلے8 ماہ سے حالت بے حد خراب تھی، زیادہ تر اس عرصہ میں باتیں سر کے اشارہ سے کرتی تھیں،اب ان کا انتقا ل ہو گیا ہے، ڈاکٹر نے8 سے10 سال پہلے کہا تھا کہ ان کی یادداشت بہت کم زور ہو چکی ہے اور بڑی بات ہے کہ یہ سب کو پہچانتی ہیں۔
جواب… صورت مسئولہ میں آپ کی والدہ جو نماز بیماری کے دنوں میں اشارہ سے پڑھ سکتی تھیں او رانہوں نے نہیں پڑھی، تو ایسی نماروں کے بارے میں اگر وصیت کی تھی، تو مال ِ وراثت کے تہائی مال میں سے فدیہ ادا کرنا لازم ہے۔اگر وصیت نہیں کی تھی، تو ورثاء پر لازم نہیں، مگر پھر بھی ورثاء اگر تبرعافدیہ ادا کریں، تو ان کے ساتھ حسن سلوک ہے او رامید ہے کہ قضاء نمازوں کا کفارہ بن جائے گا۔اور بیماری کی وہ شدت جس میں موت تک ایسی حالت ہو کہ نماز اشارہ سے بھی نہیں پڑھی جاسکتی تھی، تو ایسی نمازوں کی قضاء وفدیہ کچھ بھی لازم نہیں۔(62/180)
قرآن کریم کی بے حرمتی کرنے والوں سے بائیکاٹ کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ گزشتہ روز عیدالاضحی کے دن سوئیڈن کے اندر قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی اور اسے شہید بھی کیا گیا، جس کے ذریعے سے پوری امت مسلمہ کے جذبات کو مجروح کیا گیا، اب سوال یہ ہے کہ سوئیڈن کی ایک کمپنی ہے جو کہ اوری فلم(Oriflame) کے نام سے مشہور ہے، یہ کمپنی اپنے پروڈکٹس سیل کروا کے لاکھوں افراد کو روز گار فراہم کرتی ہے، اب سوئیڈن کے واقعہ کے بعد سوئیڈن کی مذکورہ کمپنی کا بائیکاٹ کیا جائے یا نہیں؟ جب کہ ہم دیگر حضرات کو بائیکاٹ کا کہتے ہیں، تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ بے حرمتی کرنے والا ایران کا تھا، سوئیڈن کا تھا ہی نہیں، او رکسی ایک شخص کے گناہ کا ذمہ دار پورا ملک نہیں ہوتا، حالاں کہ ہم نے دیکھا کہ یہ بے حرمتی ریاست کے محافظوں کی موجودگی میں ہوئی، اس بارے میں مدلل جواب سے روشناس فرمائیں۔
جواب… صورت مسئولہ میں مذکورہ شنیع فعل کے مرتکب ملک کی کمپنیوں او رہر قسم کی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ ایمانی غیرت اور دینی حمیت کا تقاضا ہے، لہٰذا جہاں تک ممکن ہو اس ملک کی مصنوعات وغیرہ کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔(156/180)
اپنے بھائی کو ماں کی گالی دینا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو ان الفاظ میں گالی دی کہ ( تڑی ماں رکھاں) ان الفاظ کا مطلب ہے کہ تیری ماں سے بد کاری کروں، تو ایسے شخص کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے اس گناہ کے کفارے کی کیا صورت ہو گی؟ کیا کوئی مالی جرمانہ یا کفارہ لازم ہو گا؟
جواب… والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا شرعاً ضروری ہے ، ان کی نافرمانی او رایذاء رسانی سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے، قرآن کریم او راحادیث نبویہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک او ران کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے اور والدین کی نافرمانی او ران کے ساتھ بد کلامی کرنے اور ان کو ستانے پر بہت وعیدیں آئی ہیں۔
چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾․
ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم دیا کہ بجز اس کے کسی کے عبادت نہ کرو او رتم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔
اور حدیث پاک میں ہے کہ:”وعن أبي بکرة رضي الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”کل الذنوب یغفر اللہ منھا ما شاء إلا عقوق الوالدین فإنہ یعجل لصاحبہ في الحیاة قبل الممات․“
ترجمہ:” حضرت ابوبکرة رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ الله تعالیٰ اس میں جس قدر چاہتا ہے بخشدیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشا، بلکہ الله تعالیٰ والدین کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں ہی جلدسزا دے دیتا ہے۔(شب الإیمان للبیھقي، الخامس والخمسون من شعب الإیمان: وھو باب في بر الوالدین:6/197، دارالکتب العلمیة)
کسی مسلمان کو گالی دینا جس سے اس کو تکلیف پہنچے اسلام میں ناجائز ہے، احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، گالی دینا فحش گوئی ہے اور مذاق میں بھی فحش گوئی سے احادیث میں سخت ممانعت وارد ہوئی ہے:”عن عبدالله بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول:… وإیاکم والفحش فإن الله لا یحب الفحش ولا التفحش الخ․“( مسند احمد: مسند عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ:2/159، مؤسسة قرطبة)
ترجمہ:حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم فحاشی اور فحش گوئی سے بچو، کیوں کہ الله تعالیٰ فحاشی اور فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے۔
یہ تو عام مسلمان کو گالی دینے سے متعلق ہے، چہ جائے کہ اپنے ہی بھائی کو ماں کی گالی دی جائے، یہ تو اپنی ہی ماں کو گالی دی جارہی ہے، یہ انتہائی بدبختی اور شقاوت ہے۔
چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ:حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ! کوئی اپنے والدین کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کسی کے والد کو گالی دیتا ہے، تو وہ اس کے والد کو گالی دیتا ہے اور یہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے، تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب لایسب الرجل والدیہ، ص:1046، دارالسلام)
ملاحظہ کیجیے کہ دوسرے کے والدین کو گالی دینا جو سبب بن رہا ہے اپنے والدین کو گالی دینے کا، اس کو گناہ کبیرہ قرار دیا جارہا ہے، تو براہ راست اپنے والدین کو گالی دینا کتنا بڑا گناہ ہو گا! اسی وجہ سے صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین نے حیرت سے سوال کیا۔
لہٰذا مذکورہ شخص کو چاہیے کہ فوراً توبہ کرے اور والدہ او ربھائی سے بھی معافی مانگ لے، ورنہ کہیں آخرت میں ، بلکہ آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی کہیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے جائے، البتہ کوئی مالی جرمانہ او رکفارہ اس پر لازم نہیں۔(119/180)
اپنے جائز حق کی وصولی کے لیے رشوت دینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری سوسائٹی کے نقشوں کی منظوری کینٹ بورڈ سے کروائی جاتی ہے، جب کہ کورٹ نے سوسائٹی کے حق میں فیصلہ دیا جو بعد میں اپیل کے باوجود فیصلہ ہمارے حق میں آیا، کئی سال گزرنے کے باوجود کینٹ بورڈ نے کورٹ آرڈر پر عمل نہیں کیا او رمختلف بہانوں سے کام کو مؤخر کرتے رہے، اب کچھ بھتہ دینے کے بعد ہمارے حق میں آئے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر کینٹ بورڈ عمل درآمد پر راضی ہوا ہے۔
ہمارے لیے اس جائز حق کے حصول کے لیے انتہائی مجبوری میں ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کروانے کے لیے اس بھتہ کی ادائیگی کے بارے میں شرعی حکم/ رعایت کیا ہو گی؟
جواب… رشوت کا دینا اور لینا حرام ہے، البتہ اپناجائز حق وصول کرنے کے لیے بحالت مجبوری رشوت دینے کی گنجائش ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کے لیے بھتہ دینے کی گنجائش ہے، لیکن رشوت لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔(133/180)
کال کانفرنسنگ میں گواہوں کی موجود میں طلاق کا شرعی حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شوہر نے پہلے بیوی سے چھپ کر دوسری شادی کی ، پہلی بیوی کو معلوم ہونے پر اختلافات بڑھ گئے، معاملات کو سلجھانے کے لیے خاندان کے بڑوں میں بات گئی، تو شوہرنے غصے میں کانفرنس کال کرکے بیوی کو کہا کہ گواہوں کو بلاؤ ،میں آج اس قصہ کو ہی ختم کرتا ہوں اورلوگوں کی موجودگی میں طلاق دوں گا، ساتھ میں لوگوں کے نام بھی بتائے، ان کی موجودگی میں شوہر نے کہا کہ تومیں ان کو طلا ق دیتا ہوں، میں ان کو طلاق دے رہا ہوں، آپ لوگوں کی موجودگی ایک ماہ بعد شوہر نے رجوع کر لیا، چار ماہ بعد پھر معاملات خراب ہونے پر شوہر نے بیوی کو کہا کہ”میں تم کو طلا ق دیتا ہوں“، اب غور طلب بات یہ ہے کہ شوہر پچھلی دو طلاقوں کو مان نہیں رہے اور کہہ رہے ہیں کہ میں نے طلاق نہیں دی، میں نے صرف ڈرانے اوردھمکانے کے لیے ایساکہا تھا، کہ میں آپ کو طلا ق دے رہا ہوں، معلوم یہ کرنا ہے کہ تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں یا نہیں؟ کیا ایسی صورت حال میں رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں؟
جواب… سوال میں ذکر کردہ صورت حال اگر حقیقت پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو جب شوہر نے پہلی مرتبہ اپنی بیوی کو کہا کہ” میں ان کو طلاق دیتا ہوں، میں ان کو طلا ق دے رہا ہوں“ تو اس سے دو طلاقیں رجعی واقع ہو گئیں( اگرچہ شوہر کی نیت ڈرانے اور دھمکانے کی ہی کیوں نہ ہو، اس سے مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا) اور شوہر کے پاس ایک طلاق کا اختیار باقی رہ گیا، اس کے بعد عدت کے اندر شوہر نے رجوع کیا اور پھر رجوع کے بعد جب تیسری مرتبہ شوہر نے بیوی کو کہا کہ ” میں تم کو طلا ق دیتا ہوں“ تو اس سے تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی، لہٰذا اب بیوی شوہر پرحرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی، اب نہ رجوع ممکن ہے، نہ ہی حلالہ شرعیہ کے بغیر تجدید نکاح درست ہوگا۔
لہٰذا تین طلاقیں دینے کے بعد اپنے فائدے اور نفسانی خواہش کی خاطر شوہر کا یہ کہنا کہ ” میں نے پہلے دو طلاقیں نہیں دیں، صرف ڈرانے اور دھمکانے کے لیے ایسا کہا تھا کہ میں آپ کو طلاق دے رہا ہوں، شرعاً غیر معتبر ہے، میاں بیوی پر لازم ہے کہ فوراً علیحدگی اختیار کریں، ورنہ دونوں عمر بھر بد کاری کے گناہ میں مبتلا رہیں گے۔(155/180)
امتحان میں نقل کے ذریعے حاصل کردہ ڈگری اور نوکری کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پہلی صورت میں نوکری نقل، جھوٹ اور جعل سازی وغیرہ کرکے حاصل کی کہ اگر نقل، جھوٹ او رجعل سازی وغیرہ نہ کرتا تو اس کو دنیاوی تعلیم کے اگلے درجہ میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے لازمی پاسنگ، یا حصول رزق حلال کے کام حاصل کرنے کے لیے لازمی پاسنگ، تعلیمی، میڈیکل او رمطلوبہ نوکری حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔
مسئلے کی دوسری صورت میں لازمی پاسنگ، تعلیمی، میڈیکل اور مطلوبہ درجہ کے حصول میں تھوڑی نقل، جھوٹ وغیرہ بھی شامل ہے کہ اگر یہ تھوڑی نقل، جھوٹ وغیرہ نہیں کیا جاتا، تب بھی اس کے اگلے درجوں میں داخلوں او رمختلف کاموں وغیرہ کے مطلوبہ لازمی میرٹ، اہلیت اور صلاحیت وغیرہ پر کوئی بھی فرق یا کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
تو پہلی صورت میں لازمی پاسنگ، تعلیمی، میڈیکل اور مطلوبہ نوکری وغیرہ کی بنیاد پر حصول رزقِ حلال والے کاموں سے حاصل اجرت وغیرہ، شرعی احکام وحدود میں حلال ہو گی کہ حرام؟ اور اس صورت سے حاصل کیے ہوئے سر ٹیفکیٹ وغیرہ کی کیا حیثیت رہے گی؟ اور اسی طرح دوسری صورت بھی شرعی احکام وحدود میں کیا حکم ہو گا؟
نیز دونوں صورتوں میں کی ہوئی نقل، جھوٹ او رجعل سازی سے سچی توبہ واصلاح کی شرعی احکام وحدود میں شرائط وطریقہ کیا ہو گا؟
جواب… امتحان میں نقل کرنا خیانت او رگناہ ہے اور نقل کرنے سے حاصل ہونے والی ڈگری(سند) کے ذریعے سے کوئی ایسا کام یا عہدہ حاصل کرنا، جو اس ڈگری کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ہو، اس میں خیانت کے ساتھ ساتھ دوسرے کی حق تلفی بھی ہے، جو کہ شرعاً ممنوع ہے، البتہ اگر اس سند یافتہ شخص میں اس کام کو سرانجام دینے کی اہلیت موجود ہو اور وہ مفوضہ ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھائے، تو اس کی تنخواہ کو حرام نہیں کہا جائے گا، تاہم نقل کرنے والے پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کرے ، کیے ہوئے پردل سے نادم ہو اور آئندہ خیانت سے مکمل اجتناب کرے۔(43-44/180)