سُسر کی طرف سے شادی کے موقع پر بہو کو دیے گئے زیور کی ملکیت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ میری عمر88 سال ہے، میرے دو بیٹے او رایک بیٹی ہیں، بڑا بیٹا کرائے کے گھر میں رہتا ہے اور چھوٹا بیٹا اور اس کی بیوی بچے میرے گھر میں رہتے ہیں، میں نے آج سے 14 سال پہلے اپنی ساری جمع پونجی لگائی اورساتھ جو بہو گھر میں رہتی ہے، اس کا5 تولے سونا( جو کہ میں نے خود بنوایا تھا اس کی شادی کے لیے ) لے کر ایک گھر بنوالیا تھا، اس میں میری بیوی اور وہی بہو اور اس کے بچے رہ رہے ہیں۔
اب میری وہ بہو کہتی ہے کہ آپ میرا زیور واپس کرو اور آج کی قیمت میں واپس کرو، کیوں کہ آپ نے میری اجازت کے بغیر وہ زیور لیا تھا، میں نے اسے کہا کہ وہ زیور میں نے اپنی کمائی سے بنوایا تھا اور پھر گھر میں بھی تو آپ ہی رہ رہی ہیں، باقی تو کرائے پر ہی رہ رہے ہیں، جو ہر مہینے کرایہ دیتے ہیں، وہ نہ مانی، سو میں نے اسے کہا کہ تو بھی نکل جا اس گھر سے، اور میں یہ گھر بیچ کر تجھے تیرے پیسے دے دیتا ہوں، کیوں کہ میری اب اور کوئی آمدنی تو نہیں آرہی، تو وہ نکلنے کو بھی تیار نہیں، او رکہتی ہے کہ میں قیامت والے دن آپ سے اپنا زیور لوں گی۔
اب وہ ہم دونوں بوڑھوں کے ساتھ بولتی بھی نہیں او رنہ کوئی کام کرتی ہے، بلکہ میری 80 سالہ بیوی سے گھر کا سارا کام کرواتی ہے او ربُرا سلوک کرتی ہے اور بچے بھی بہت تنگ کرتے ہیں ماں کی شہ پر۔
جب وہ میاں بیوی ناراض ہو کر گھر سے جانے لگے، تو بہو نے کہا کہ میرے زیورات دو، تو اس کے شوہر( یعنی کہ میرے بیٹے) نے کہا کہ چھوڑو ان کے زیور کو، میں زندہ رہا، تو تجھے اور بنوا دوں گا۔
برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟ بڑا بیٹا بھی تنگ کرتا ہے کہ اس بیٹے کو گھر میں رکھا ہوا ہے اور میں ہر مہینے کرایہ دیتا ہوں، میں بہت پریشان ہوں۔
جواب…اگر آپ نے اپنی بہو کو زیور تحفہ کے طور پر تملیک کر دیا تھا اور بہو نے اس پر قبضہ کر لیا تھا، تو یہ زیور اس کی ملکیت میں جاچکا تھا اوراس صورت میں آپ کے لیے شرعاً بہو کی اجازت کے بغیر اسے استعمال کرنا جائز نہیں تھا اور جس دن آپ نے زیور بغیر اجازت اٹھایا تھا اسی دن کی قیمت آپ پر شرعاً لازم ہے۔
اور اگر آپ نے زیور دیتے وقت کوئی صراحت نہیں کی تھی تملیک کی، تو پھر خاندان کے عرف ورواج کو دیکھا جائے گا، اگر شادی کے موقع پر سسر کی طرف سے دیا ہوا زیور بطور تملیک ہوتا ہے، تو اس صورت میں وہی اوپر والا حکم ہو گا او راگر کچھ دنوں کے استعمال کے لیے ہوتا ہے، تملیک کے طور پر نہیں ہوتا، تو آپ پر لازم نہیں کہ زیور یا اس کی قیمت ادا کریں۔
اور جو بہو کی رہائش کا معاملہ ہے، تو اس میں کوئی معاملہ طے ہوئے بغیر، زیور کی قیمت گھر کے کرایہ کا عوض نہیں بن سکتا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ رہائش شوہر کے ذمہ ہوتی ہے، نہ کہ بیوی کے ذمہ۔
اور سب بیٹوں پر لازم ہے کہ اپنے والدین کی بے اکرامی نہ کریں ، والدین کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں احادیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے۔
بہو کو بھی چاہیے کہ اپنے ساس،سُسر کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے، رشتہ داری اور بڑھاپے کی لاج رکھے، قرضے کے بارے میں نرمی کا معاملہ کرے۔
آپ بھی اپنے بیٹوں اور بہو کے لیے دعا خیر کریں اور زیادہ سے زیادہ ذکر، تلاوت، دعا اور نوافل میں اپنا وقت خرچ کریں۔
خدمت خلق کے جذبے سے فرداً فرداً لوگوں سے چند ہ کرنا اورصفوں کے درمیان چندے کے لیے گھومنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:کسی نیک کام (مثلاً: مسجد بنانا، مدرسہ بنانا، یتیم اورمسکین کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ) کے سلسلے میں فرداً فرداً مسلمانوں کے پاس جاکر چندہ مانگنا کیسا ہے؟
ہمارے علاقے میں نماز کے بعد مسجد انتظامیہ کا صفوں میں بیٹھے نمازیوں کے سامنے چندہ کے حصول کے لیے تھیلا یا ٹوپی لے کر گزرنے کا رواج ہے، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟
مزید یہ کہ اگر کسی کے پاس اس وقت چندہ دینے کے لیے پیسے نہ ہوں تو کیا یہ عمل اس کے لیے تکلیف کا باعث نہیں ہو گا؟
جواب… نیک کاموں کے لیے بوقت ضرورت لوگوں سے انفرادی طور پر مل کر بھی تعاون او رچندہ کی اپیل کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے زمانہ میں چندہ کے لیے لوگوں سے اجتماعی وانفرادی طور پر تعاون کی اپیل کی جاتی تھی، اسی طرح اسلامی حکومتوں میں اموال ظاہرہ کی زکوٰة حکومت کے نمائندے مختلف علاقوں میں لوگوں کے پاس جاکر وصول کیا کرتے تھے، اب جبکہ اسلامی طرز حکومت بھی نہیں، تو دینی ضروریات کے لیے چندہ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ خوش دلی سے بقدر ضرورت چندہ کرنا چاہیے، جو خوشی سے دے اس سے لے لیا جائے، جبرواکراہ سے چندہ لینا ناجائز اور گناہ ہے۔
مسجد کے لیے چندہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ مسجد سے باہر چندہ کی اپیل لکھ کر آویزاں کر دی جائے، یا صندوق رکھ دیا جائے، یا اسی طرح لوگوں کو عام ترغیب دی جائے ۔تاہم صفوں کے درمیان چندے کے لیے گھومنا مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
نمازی کے سامنے سے نہ گزرا جائے کسی کی گردن کو نہ پھلانگا جائے شوروشغب نہ کیا جائے نمازیوں کو ایذا نہ ہو صفوں کو نہ چیرا جائے خطبہ کے دوران نہ ہو۔
ان شرائط کی رعایت کے بعد اگر کسی نمازی کے پاس پیسے ہوں اور وہ خوش دلی سے چندہ دینا چاہے تو دے دے، ورنہ نہ دے، اس میں تکلیف دینے والی کوئی بات نہیں ہے۔
نفع کی شرط پر قرض دینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں ایک مینو فیکچرنگ کمپنی کو بزنس میں اضافے کے لیے فائنانس(سرمایہ) کی ضرورت ہے،اسی کمپنی سے خریداری کرنے والے (کسٹمرز) نے آفر کی ہے کہ ہم آپ کے پاس انویسٹمنٹ کرتے ہیں، اس شرط پر کہ جو مال بیس (20)روپے میں دے رہے تھے، وہ مال اٹھارہ(18) روپے میں دیں گے، جب تک مال لیتے رہیں گے تو پیسے کمپنی کے پاس رہیں گے، جب مال لینا بند کر دیں گے تو کمپنی ان کو پیسے واپس کر دے گی، کسٹمرز جو سامان لیں گے تو موقع پر ہی قیمت ادا کرتے ہیں، اس سامان کی قیمت موقع پر ادا کرنا کمپنی کی اشد ضرورت ہے، اس فائنانسنگ کی جائز صورتیں کیا کیا ہو سکتی ہیں؟
جواب… واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ صورت قرض کی ہے، اور قرض دینے والے کا اپنے لیے نفع کی شرط لگانا حرام ہے۔
البتہ جواز کی مندرجہ ذیل دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں: (الف) قرض کی وجہ سے خریدے جانے والے مال کی قیمت میں کمی کی شرط نہ لگائی جائے۔
(ب) سرمایہ لگانے والا کمپنی والوں کو جن اشیاء کی ضرورت ہے، وہ اشیاء خرید کر مناسب نفع کے ساتھ کمپنی والوں پر فروخت کرے، اور رقم کی ادائیگی کمپنی والے بعد میں کریں اور رقم کی ادائیگی کی مدت طے کر لیں۔
ایک جانور کے عوض دوسرے جانور کی قربانی کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید او رخالد نے قربانی کے لیے الگ الگ دو جانور خریدے، لیکن دو دانت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کی او راگلے سال کی قربانی کے لیے رکھ لیا، حال یہ ہے کہ جانور خریدتے وقت زید صاحب نصاب تھا، لیکن خالد پر قربانی واجب نہ تھی، اب اگلے سال انہی جانوروں کی قربانی لازم ہے،یا ان کی جگہ کسی اور جانور کی بھی قربانی کرسکتے ہیں؟
جواب… واضح رہے کہ خالد چوں کہ صاحب نصاب نہیں ہے، اس لیے اس پر قربانی واجب نہیں تھی، لیکن اس نے پھر بھی جو جانور قربانی کی نیت سے خریدا ہے، اس جانور کو اب ذبح کرنا ضروری ہے، لہٰذا خالد نے قربانی کے دنوں میں اس جانور کو ذبح نہیں کیا، تو قربانی کے ایام کے بعد بھی اس جانور کو ذبح کرکے ذمہ سے فارغ ہو جائے، اگلے سال اس جانور کو قربانی میں ذبح کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی صاحب نصاب نہ ہونے کی وجہ سے نئے جانور لینے کی ضرورت ہے، البتہ زید چوں کہ صاحب نصاب ہے، اس نے قربانی کے لیے ،لیے ہوئے جانور کو قربانی کے دنوں میں ذبح نہیں کیا، تو اس کو اسی جانور کے عوض میں ایک بکری کی قیمت صدقہ کرکے اسی جانور کو اگلے سال کی قربانی کے لیے رکھنے کا اختیار ہے۔
جاوا آئی ایپ میں کام کرنے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں ایک نئی ایپ آئی ہے، جس کو بڑے پیمانے پر لوگ استعمال کر رہے ہیں، جس کا نام ”جاوا آئی“ ہے، جس کا طریقہ کار مندرجہ ذیل ہے: سب سے پہلے آپ کو اس ایپ میں کم ازکم پاکستانی تیرہ ہزار روپے جمع کرنے ہوتے ہیں، پھر اس تیرہ ہزار کے بدلے آپ کو ڈالر دیے جاتے ہیں، پھر ڈالر کے ذریعے آپ کو فلمیں، کارٹون او رگیم خریدنے ہوتے ہیں ایک ٹکٹ کے ذریعے، ایک ٹکٹ آپ کو دس ڈالر میں ملتا ہے، پھر تقریباً پانچ یا چھ گھنٹے بعد آپ کے دس ڈالر منافع سمیت واپس آپ کے اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں، وہ فلم وغیرہ خود بخود فروخت ہوتی ہے آن لائن کے ذریعے، شرعاً اس طرح کا کاروبار جائز ہے یا نہیں؟
وضاحت… اس ایپ میں ٹکٹوں کے ذریعے فلمیں وغیرہ خریدتے ہیں، پھر بعد میں مذکورہ ایپ والوں کی طرف سے وہ فلم وغیرہ خود فروخت ہو جاتی ہے۔
جواب… واضح رہے کہ مذکورہ ایپ (جاوا آئی) کا ممبر بننے میں شرعی اعتبار سے چند مفاسد ہیں: مثلاً:
سب سے پہلے آپ کو اس میں کم ازکم پاکستانی تیرہ ہزار(13000) روپے جمع کرنے ہوتے ہیں، اس کی حیثیت قرض کی ہے، چوں کہ مذکورہ ایپ قرض کے بدلے نفع دیتی ہے، اس لیے یہ لین دین شرعاً حرام ہے۔
اس ایپ میں کام کرنے کو مشروط کیا گیا ہے ابتدا میں رقم کی ادائیگی پر، جو کہ عقد اجارہ کے خلاف ہے۔
ابتدا میں رقم کی ادائیگی کا معاملہ قرض کا ہے، پھر اس ایپ میں کام کرنا، یہ اجارہ کا معاملہ ہے، اس ایپ میں ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ میں داخل کیا جاتا ہے اور یہ شرعاً جائز نہیں۔
اور اس ایپ میں فلمیں، کارٹون اور گیم وغیرہ خریدنی ہوتی ہیں، جبکہ فلم تو بے شمار گناہوں کا مجموعہ ہے، اس کے علاوہ کارٹون اور گیم لا یعنی چیزیں ہیں، جن کی وجہ سے عبادات میں خلل آتا ہے۔
لہٰذا مذکورہ مفاسد کی وجہ سے اس ایپ میں کام کرنا جائز نہیں۔
مذاق میں طلاق دینا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنے شوہر سے مذاق میں بولا کہ مجھے آزاد کر دو، اس نے بولا کہ کیسے آزاد کروں، میں نے اس کو مذاق میں کہا کہ طلاق طلاق طلاق، کیا یہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
شوہر نے بھی جواب میں طلاق طلاق طلاق کہہ دیا۔
جواب… واضح رہے کہ طلاق ہر حال میں واقع ہو جاتی ہے، چاہے مذاق ہو یا سنجیدگی سے، صورت ِ مسئولہ میں بیان کردہ صورت حال اگر حقیقت پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو چوں کہ آپ کے خاوند نے آپ کو تین طلاقیں دی ہیں ( اگرچہ مذاق میں دی ہیں ) لہٰذا تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں او رحرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر نہ رجوع ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح۔