انسانی زندگی تین اہم ادوار پر مشتمل ہوتی ہے۔ بچپن، جوانی اوربڑھاپا۔ یہ تینوں ادوار ہی منفرد اور خوب صورت اوصاف کے حامل ہوتے ہیں۔ بچپن میں انسان اپنے معاشرے سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اگر اسے اچھا ماحول میسر آجائے تو وہ نیک او رپار سا ہو جاتا ہے۔ گویا انسان کے بننے اور بگڑنے کا زیادہ تر انحصار اچھے یا برے ماحول پر ہے۔ جوانی کا دور زندگی کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ جس میں طاقت اور توانائی سے بھرپور انسان کا اپنے مقصد کے حصول کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ بقول شیخ سعدی شیرازی #
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم مہ شد پرہیز گار
جب کہ بڑھاپے میں اعضائے جسمانی کم زور ہونے لگتے ہیں اور انسان میدان عمل میں بھرپور حصہ لینے سے قاصر او رعاجز ہو جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمان باری تعالیٰ ہے:” اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤگے؟“
الله تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس جہان فانی میں ہمیں جتنی بھی چیزیں نظر آتی ہیں وہ تمام اس اشرف المخلوقات انسانی خدمت کے لیے تخلیق کی گئی ہیں اور انسان کو الله تعالیٰ نے اپنی اطاعت وبندگی کے لیے تخلیق فرمایا ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال یوں نشان دہی کرتے نظرآتے ہیں #
کھول آنکھ! زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
لیکن قارئین کرام! ترقی وعروج کی منازل سر کرتے کرتے انسان اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں ”آئینہ ایام میں اپنی ادا دیکھ“ کر اک جانب اپنی ترقی پر فخر سے سر اٹھاتا ہے تو دوسری جانب یہی سائنسی ترقی #
لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے
فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے
کے مصداق نوع بشر کا سر شر مندگی اور پچھتاوے سے جھکا رہتا ہے۔ اک جانب تو جدید سائنسی ترقی نے حیات انسانی میں آسائش کے ایسے ایسے باب کھول دیے ہیں کہ جن کا تصور بھی کرنا مشکل تھا۔ لیکن جدید سائنسی آلات اور طور طریقوں کو اپناتے ہوئے ہم اس جہان فانی میں اپنے وجود پانے کے بنیادی مقصد سے دورہٹتے چلے جارہے ہیں اور وہ بنیادی مقصد رب تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
”جن وانس کو میں نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔“
فرشتے جو کہ انسانی خواہشات اور بشری تقاضوں سے مبرا ہوتے ہیں اور اس بے نیازی میں ملائکہ ہمہ تن یاد الہٰی میں مصروف رہتے ہیں۔ انسان کے ساتھ چوں کہ بشری تقاضوں اور نفسانی خواہشات کی مجبوریاں ہیں، جو ہر لحظہ نفس اَمّارہ کو ابھار کر اسے گم راہ کرنے پر کمر بستہ رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی عبادت ملائکہ کی عبادت سے کہیں زیادہ مجاہدے او رمحنت والی ہے۔
دور حاضر میں سانس لینے والا انسان اس مذکورہ بالا محنت ومشکل کا سامنا کچھ زیادہ ہی کر رہا ہے۔ کیوں کہ عصر حاضر میں موجود سوشل میڈیا کی یلغار نے ہر کس وناکس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ تیر رفتار ذرائع ابلاغ نے بلاشبہ دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن نوجوان نسل سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے تو فائدہ کی بجائے نقصان کا سامنا کرنے لگتی ہے۔ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہیں او رکم عمری اور ناتجربہ کار ی کے باعث یہ تمیز کرنا کہ تفریح کا کون سا ذریعہ ان کے لیے مفید ہے او رمعلومات کی کون سی حد ان کے لیے ضرور ی ہے، مشکل ہو جاتا ہے۔ اور مفکر پاکستان کے بتائے ہوئے ”ستاروں پہ کمند“ ڈالتے ہوئے بھٹک کر سوشل میڈیا کے ان غیر معیاری او رمسترد شدہ ”ستاروں“ کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں جو ابھی خود اخلاقیات او راقدار کی بہترین صورتوں سے دور ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان خدائی احکامات سے رو گردانی کرکے او راپنی خواہشات کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے لگتا ہے تو پھر ہر طرف فساد برپا ہونے لگتا ہے۔ جہاں اس کی اپنی زندگی میں بے سکونی اوربے چینی واضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔ وہاں پورا معاشرہ بھی بے اعتدالیوں اور دیگر خرابیوں کا حامل ہو جاتا ہے۔
مسلم معاشرے کی وہ عمدہ صفات جو ایثار، قربانی، ادب واحترام، انصاف، حقوق کی منصفانہ تقسیم او رصلہ رحمی پر مشتمل ہوا کرتی تھیں او رہمارے معاشرہ کی ثقافت اور رہن سہن کی بنیاد تھی وہ آج سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی نظر ہوتی جارہی ہیں۔ یہ وہ اثرات ہیں جنہوں نے بزرگوں سے مہذب رویے اور شفقت جیسی خوب صورت صفات چھین لی ہیں اور نوجوانوں سے جذبہ تعمیر وعمل او ربرداشت کے رویوں کو ختم کر دیا ہے۔ مسلم معاشرہ ہو یا کوئی اور گروہ، دین ہر جگہ کچھ اصول وضوابط لا گو کرتا ہے اور سوشل میڈیا، یعنی یوٹیوب چینل، فیس بک، ٹویٹر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اب ایسے افراد حاوی ہوتے جارہے ہیں جن کو اخلاقیات، شائستگی اور ذمہ دارانہ رویوں کی کوئی آگاہی نہیں۔ اس کے برعکس ماضی میں ذرائع ابلاغ پر کڑینظر رکھی جاتی تھی اور ہر معاشرہ اپنے مہذب اور ثقافتی رحجانات کے اعتبار سے ذرائع ابلاغ کو فروغ دیتا تھا۔
لیکن عصر حاضر کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ”ٹک ٹاک اسٹار“ کے طور پر راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے ایسے نوجوان خواتین وحضرات ہیں کہ جو غیر اخلاقی حرکتوں کے کرنے اور غیر معیاری معلومات ومواد کو پھیلانے میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل فراست کا دل آزردہ، جگر فگار ہے اور وہ یہ دیکھنے او ربرداشت کرنے پر مجبو رہیں کہ دن رات محنت کرکے علمی کام یابیاں سمیٹنے والوں کی کوئی ترویج واشاعت نہیں کرتا اور دوسری جانب کسی شادی پر بے ہو دہ ڈانس کرنے والی او رتعلیمات اسلامیہ کو فراموش کر دینے والی قوم کی بیٹیاں ہر ٹی وی چینل پر مدعو کی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا کسی خطرناک ہتھیار کی مانند سارے معاشرے سے اخلاقِ فاضلہ کا خاتمہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو تمام ذارئع ابلاغ سے تیز تر ذریعہ معاشرتی وسماجی بہتری او رنکھار کا ذریعہ یہی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب ”بندر کے ہاتھ میں چھری“ ہو تو اس کا نفع بخش استعمال نہیں ہوتا۔ آج کل سوشل میڈیا پر شہرت پانے والے خواتین وحضرات میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے کہ جن کا مقصد صرف دولت کمانا ہے۔ خواہ ہماری بہترین ثقافت واقدار کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ چوں کہ سوشل میڈیا کی بھرپور رسائی تقریبا ہر گھر تک ہے اوراسمارٹ فون کی صورت میں بچہ بچہ اور ہر چھوٹا بڑارنگار رنگ شخصیات سے متعارف ہوتا رہتا ہے او رہمارے معاشرے کے بہت سے سادہ لوح افراد غیر معیاری مواد ومعلومات پر اندھا یقین کر بیٹھتے ہیں او راپنی ذات میں موجود خوبیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
نپولین نے کیا خوب صورت مثال دے کر سمجھایا تھا کہ:
”اگر ہرنوں کے غول کی قیادت شیر کر رہا ہو تو ہرن بھی جنگ کرنا یا لڑنا سیکھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر شیروں کے گروہ کا لیڈر ہرن ہو تو شیر اپنا دفاع تک بھول کر ہرنوں کی طرح دوڑنے لگتے ہیں۔“
گویا بہترین معاشرتی ترقی کے لیے یہ احتساب ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر کون لوگ افرادِ معاشرہ کو متاثر کر رہے ہیں۔ بطور ذمہ دار شہر ی ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہو گا کہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی ذریعہ ہمار ی بہترین معاشرتی اقدار کو اور عمدہ ثقافت کو نقصان نہ پہنچانے پائے۔
ہر گھر کے سربراہ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی کہ اس کی زیرپرورش نسل نو بگڑنے نہ پائے۔ اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی لپیٹ میں صرف نوجوان ہی نہیں آرہے ہیں بلکہ ان منفی اثرات نے بچوں سے بھی ان کی معصومیت چھین لی ہے۔ ادھیڑ عمر مرد وحضرات اپنی بڑھتی عمر کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنے میں اتنے مشغول ہو گئے ہیں کہ اس پختہ عمری کارعب اور سیانا پن ان سے کوسوں دور چلا گیا ہے۔ پیسہ کمانے کی دوڑنے معاشرے سے اخلاص اور ہم دردی کا جذبہ ختم کر دیا ہے۔ بقول خالد شریف #
دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیر دوست
اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا
وہ جو بات بات پر کہتا تھا مجھ کو جان
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا
آج کل سوشل میڈیا نے تو معصوم بچوں کو توتلی زبان بولتے وہ چالاکی سکھا دی ہے کہ اب یہ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ بچے فرشتے ہوتے ہیں۔ محض تین یا چار سال کی عمر میں معصوم بچوں کو بڑی بڑی باتیں سکھا کر محض پیسہ کمانے کے لیے یوٹیوب چینل چلائے جارہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ کم سن لڑکے لڑکیوں میں یہ دوڑ چل رہی ہے کہ کون زیادہ بدتمیزی کرکے راتوں رات سوشل میڈیا اسٹاربن سکتا ہے۔ ہر وقت ان بے کار حرکتوں کو کرنے اور دیکھنے میں مصروف نوجوان نسل تعمیری سرگرمیوں سے دور ہوتی جارہی ہے۔ حضرت اقبال نے کیا خوب کہا تھا #
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا کو زیادہ وقت دینے کے سبب ہم روز مرہ کاموں اور عبادت کو بہتر انداز میں نہیں کر رہے او رایک عجیب غفلت ہے جس کی لپیٹ میں آرہے ہیں، آخر میں بس یہی توجہ دلانا چاہوں گی #
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تونے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سردارا