قرآن کریم میں موجود انبیا کے قصص
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بہت سے موضوعات کے ساتھ ساتھ انبیا کے قصوں کو بھی ذکر فرمایا ہے اور قرآن کی زبان میں اس مضمون کا مقصد عبرت قرار دیا ہے:﴿لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِہِمْ عِبْرَةٌ لِّأُولِی الْأَلْبَابِ﴾․ (سورہ یوسف، آیت:111)
ترجمہ:یقینا انبیاء کے قصوں میں عقل مندوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔ لہٰذا قرآنی قصے قصہ برائے قصہ نہیں، بلکہ قصہ برائے عبرت کے اصول سے مذکور ہیں، تاکہ ہم انسان ماضی کے ان قصوں کو سمجھ کر سبق سیکھیں، اپنے حال کا تجزیہ کریں اوراپنے مستقل کے لیے حکمت عملی طے کرسکیں۔
ان قصوں میں چند معروف انبیا کے قصے بالخصوص مذکور ہیں، جن میں حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم ، حضرت یوسف علیہم السلام کے قصے ہیں۔ ان قصوں میں غور کیا جائے تو انبیا کی دعوت کے کئی پہلو واضح نظر آتے ہیں، جس سے ان کی دعوت ، حکمت اور طریقہ کار کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، انبیا کی اس دعوت میں ایک جملہ بار بار پڑھنے کو ملتا ہے:﴿وَمَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَیٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾․ (سورہ شعراء، آیت:109)
ترجمہ:میں تم سے اس دعوت کے بدلے کوئی معاوضہ نہیں مانگ رہا ،اس کا معاوضہ تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔
یہ آیت غور و فکر کرنے سے اپنے اندر کئی معانی اور دقیق امور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
داعی کی پوزیشن
اس آیت سے ایک اہم نکتہ یہ سمجھنے کو ملتا ہے کہ داعی صرف رٹے رٹائے جملہ نہیں دہراتا، بلکہ اسے اس بات کی بھی فکر ہوتی ہے کہ مخاطب کے ذہن میں میری شخصیت اور کردار کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہوجائے۔ تبھی وہ اپنی شخصی حیثیت بھی واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں، تاکہ کوئی خلش کارِ دعوت میں رکاوٹ کا سبب نہ بنے، لہٰذا اکثر انبیا علیہم السلام کی دعوت میں اس طرح کے جملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انبیا داعی اپنے مدعو کے ذہنی سانچے کو سمجھتے ہوئے اپنی Actual Position ”واقعی حیثیت“واضح کرنا چاہتے ہیں،کہیں ایسا نہ ہوکہ مدعو یہ سمجھنے لگے کہ شاید اس کا کوئی ذاتی مفاد اس کام سے وابستہ ہے ۔
دعوت اور حکمت عملی کا فقدان
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ داعی کو بھرپور حکمت سے کام لینا چاہیے، موجودہ دور میں کارِ دعوت میں مصروف حضرات اس نکتے کو نہ سمجھ کر مشکلات پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں، مثلاً داعی اگر اجنبی ہے تو دعوت کا سارا زور اجنبیت کی نذر ہوجاتا ہے اور مدعو اپنی ساری صلاحیت اس کی دعوت سے زیادہ اس کی شخصیت کے سمجھنے میں لگاتا ہے اور یہ مرحلہ اسے بہت سی بدگمانیوں میں بھی مبتلا کرسکتا ہے، مثلا کہیں یہ جاسوسی کرنے تو نہیں آیا وغیرہ۔ اس لیے ضروری ہے کہ داعی سب سے پہلے اپنا چھوٹا موٹا تعارف کرائے کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ مصروفیت کیا ہے؟ ملاقات کس سلسلے میں ہورہی ہے؟ اس طرح اپنے مدعو کو اعتماد میں لے کر بھرپور دعوت دے سکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم دور مکی میں اپنی دعوتی تحریک سے قبل ہی صادق وامین کے لقب سے معروف رہے اور پھر:﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِہِ﴾ (سورہ یونس، آیت:16) ترجمہ:میں اس دعوتی تحریک سے قبل تمہارے بیچ ایک عمر گزار چکا ہوں۔ جیسے جملے استعمال فرمائے ، تاکہ سب کے ذہن میں یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ شخص جو مشن لے کر چلا ہے اس کا مقصد خالص ہم دردی اور خلوص پر مبنی ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی بھی مقصد نہیں۔
داعی کا معاشرے سے کٹ کر رہنا
ایک اہم مسئلہ داعی کی معاشرت کا انداز ہے، اگر داعی اپنی معاشرت سے کٹ کر رہتا ہے اور اپنی چھوٹی دنیا بناکر اپنے ہم ذہن ، ہم آہنگ اور ایک ہی طرح کی مجالس میں نشست برخاست رکھتا ہے اور اس کی کل مصروفیت عام علاقائی لوگوں سے ہٹ کر رہتی ہے تو یہ رویہ بھی اس کی دعوت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور لوگوں کا یہ ذہن بنتا ہے کہ اس کا ہم سے کوئی خاص واسطہ نہیں، بس رسمی طور پر مخصوص مواقع یا دنوں میں دعوت دینے آتا ہے تو وہ ایسے شخص کو غیر سنجیدہ، خود غرض سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ داعی اپنے آس پاس کے تمام لوگوں سے گھل مل جائے، ان کی خوشی ، غمی ، انتظامی مصروفیات میں پیش پیش رہے، وہ اس انتظار میں نہ رہے کہ لوگ میرے حلقہ درس میں، دارالافتاء میں یا مسجد میں آکر دین سیکھیں گے ، بلکہ وہ خود مختلف مواقع کو دعوت کا ذریعہ بنائے، مثلاً نکاح ولیمے کی تقاریب ، عیادت، تجہیز، تدفین، تعزیت کے مواقع، ایسے مواقع میں فقط جنازہ پڑھانے یا نکاح پڑھانے نہ جائے، ورنہ لوگوں کا یہ ذہن بنے گا کہ یہ بلانے پر جنازہ پڑھانے آتے ہیں اور ڈیوٹی پوری کرکے چلے جاتے ہیں،نکاح کی اجرت ملتی ہے تو پڑھانے آجاتے ہیں، ورنہ شرکت ہی نہیں کرتے۔ لہٰذا عیادت سے لے کر تعزیت تک، نکاح سے ولیمے تک، ہر تقریب میں پیش پیش رہے اور یہ تاثر دے کہ وہ ان کے غم خوشی میں برابر کا شریک ہے اور ان کے مالی جانی کسی بھی طرح کام آسکتا ہے (اپنی حیثیت کے مطابق) ۔
داعی منگتا نہیں دیالو بنے
ہر موقع پہ داعی سے لوگوں کو فائدہ پہنچے یہ اپنا فائدہ لوگوں میں تلاش نہ کرے، مثلا ایسا نہ ہو کہ غسل میت کی خدمت کو بدعتی تحفوں کی نذر کردے ، جنازہ پڑھانے کی خدمت کو مخصوص عقیدے کا رعب جمانے کا ذریعہ بنائے۔
اسی طرح ضروری ہے کہ نکاح ولیمے کی تقاریب میں شرکت کرے اور تحفہ ضرور کر لے جائے، تاکہ یہ وبائی تاثر ذہن سے نکلے کہ یہ صرف لینے والے ہیں دینے والے نہیں، کبھی چندہ، کبھی صدقہ، کبھی زکوٰة، کبھی عطیات، کبھی قربانی کی کھال اورکبھی قرضہ وغیرہ، اس مانگنے کے تسلسل نے کار دعوت کو عموماً اور اس کے حاملین کو خصوصا ً معاشرے کو”منگتے“کا تصور دیا ہے اور یہ عام نفسیاتی عمل ہے کہ جب ہم کسی سے مسلسل لیتے ہیں تو وہ ہمیں بہرحال کسی نہ کسی درجے میں حقیر ضرور سمجھتا ہے اور جب حقیر دعوت دیتا ہے تو اس کی ہلکان شخصیت دعوتی اثرات کو محدود کرلیتی ہے۔ لہٰذا داعی ایسے مواقع میں بھرپور تحفہ تحائف کی ادائیگی والے رویے سے کام لے۔
معاشرے کی انتظامی ضروریات اور داعی کا ممکنہ کردار
اپنے ماحول میں انتظامی امور پر توجہ دینا یہ بھی دعوتی میدان کو وسیع کرنے کا مفید ہتھیار ہے، جیسا کہ ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی پنچائت ، ویلفیئر یا انجمن وغیرہ علاقے کے نزاعی ، اختلافی ، سیاسی ، پانی بجلی گیس، گلی سڑک کی تعمیر اور سیوریج کے انتظامی نوعیت کے بے شمار مسائل کو اپنا موضوع بناتی ہے تو داعی ان امور کو اپنی توجہ کا مرکز بناسکتا ہے، اپنا مطمح نظر نہ سہی، لیکن ایک دعوتی وسیلے کا ذریعہ تو بناسکتا ہے ۔خدمت خلق کی نیت سے ان امور کی شنوائی یا متعلقہ انتظامیہ تک ان امور کی رسائی جتنا کام تو ضرور کرسکتا ہے اس طرح وہ اپنے لوگوں کے بیچ ایک صاحب فکر ونظر ،خدمت خلق کے جذبات سے معمور اور ایک ہم درد فرد کے طور پر ابھرسکتا ہے اور چوں کہ داعی یہ سارے کام بے غرض انجام دے رہا ہوگا جس کا مقصد کسی سیاسی پارٹی کا ووٹ بینک بنانا یا سرکاری نوکری کا حصول نہیں ہوگا تو یہ ساری خدمات خود بخود اس کے دعوتی مشن کو تقویت دینے کا ذریعہ ثابت ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔
معاشرے کی فکر اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا دعوتی اسلوب
مذکورہ طریقہ کار کا بھرپور مظاہرہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سیرت اور دعوتی تحریک میں دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم وجبر سے بچانے کی کوشش میں مگن نظر آتے ہیں اور جیسے ہی اس بربریت سے ان کو چھٹکارا دلا کر انصاف دلاتے ہیں تو قوم خود کہتی ہے کہ اب ہم اللہ کے احکام کی باقاعدہ پابندی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جس کے بعد توریت کا نزول ہوتا ہے۔ مقصد یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم کو انصاف دلاکر ان کی خدمت کرنا خود بخود ان کی دعوت دین کی تقویت کا ذریعہ بن گیا۔
لہٰذا داعی اپنے معاشرے میں موجود بہت سے مسائل کی طرف متوجہ ہوکر ان کو ایک وسیلے کے طور پر استعمال کرسکتا ہے، جس کا نتیجہ تحریک کی کام یابی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
نتیجہ سے بے فکری
اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوتی امور منجانب اللہ نتیجہ دکھاتے ہیں اور داعی کو نتیجہ کی فکر کیے بغیر اپنے کام میں لگا رہنا چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات نتیجہ ہماری اپنی غلط منصوبہ بندی یا منصوبہ بندی ہی نہ ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتا۔
اسی طرح دعوت میں خلوص نیت کا اثر ستون کی مانند ہے، اگر نیت میں کسی بھی طرح کے مفاد کا کھوٹ پیدا ہوا، مثلا عہدہ، منصب، کاروبار ، ملازمت، شہرت، سیاست چمکانا وغیرہ تو بظاہر یہ مادّی فوائد شاید حاصل ہوبھی جائیں، لیکن ایسی دعوت پھر دعوت الی اللہ نہیں، بلکہ دعوت الی الاشیاء ثابت ہوگی اور روز محشر ہمارے گلے کا طوق بن کر سامنے آئے گی ۔
یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام اس جملے کو بار بار دہراتے ہیں کہ ہم تم سے کچھ بھی مانگنے نہیں آئے اور اس سے آگے جو جملہ ہے :﴿إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَیٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ﴾
یہ پہلے جملے میں موجود دعوے کی دلیل ہے کہ میری اجرت معاوضہ وہ دے گا جو اپنی ذات میں فقط اللہ نہیں، بلکہ رب العالمین کی عالی صفت سے بھی موصوف ہے، جواس عالم میں تنکے سے لے کر کہکشاں تک سب کو پالتا ہے ،وہی مجھے بھی پال رہا ہے۔
کچھ منتشر گزارشات فقط اس ارادہ سے پیش خدمت ہیں کہ ہماری نیت ، ارادے، طریقہ کار اگر درست ہو تو ہماری دعوت ان موجودہ حالات میں بھی رنگ لاسکتی ہے اور ہم اپنی ذمہ داریوں میں پورا اتر سکیں گے ان شاء اللہ۔