عمومی طور پر پندرہ سے پچیس سال کی عمر کے افراد کو نوجوان کہا جاتا ہے ( اور پاکستان میں تقریباً ساٹھ فی صد آبادی انہی نوجوانوں پر مشتمل ہے) دوسرے لفظوں میں اُمنگوں، صلاحیتوں، جفا کشی، بلند حوصلگی اوربہترین عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی انقلاب ،وہ چاہے مذہبی سطح کا ہو، سیاسی ہو، معاشرتی یا اقتصادی ہو، سماجی یا سائنسی ہو، انہی نوجوانوں کے رہین منت ہے۔ اسی طرح ایک مسلم نوجوان کو بہت سارے پہلوؤں سے خود کو بچانا بھی پڑتا ہے، جو کہ بلاشبہ کسی جہاد سے کم نہیں۔ دنیا کی کشش او راس کی چکا چوند بسا اوقات اسے مقصدیت سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اسلام کی پیش کردہ حفاظتی تدابیر اختیار کرکے اپنی حفاظت کرتا ہے۔
یہ فطرتی بات ہے کہ نوجوان اپنے اردگرد موجود ماحول میں تبدیلی کا بہترین وکیل ہوتا ہے او راگر اس کی تربیت ڈھنگ سے کی گئی ہو تو وہ ایک مثبت او ربہترین تبدیلی کا استعارہ بن کر نمودار ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان سماجی، ثقافتی، معاشی او رمعاشرتی اصلاحات کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی اسلام ایک صحت مند او رتوانا نوجوان کو پسند کرتا ہے او راس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ ایک صحت مند اور توانا نوجوان ایک صحت مند او رتوانا دماغ کا مالک او رایک صحت او رتوانا دماغ ایک صحت منداو رتوانا معاشرے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
نوجوانوں کے فرائض پر تو بہت زیادہ گفت گو کی جاتی ہے، جیسے بحیثیت ایک انسان کے اس پر کیا کیا لازم ہے؟ بحیثیت ایک خاندان کے فرد کے، بحیثیت ایک برادری کے فرد کے، بحیثیت ایک معاشرے کے فرد کے ، بحیثیت ایک ملک کے شہری کے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان سب کے ذمہ اس نوجوان کے کیا کیا حقوق ہیں؟ اس پر بہت کم گفت گو کی جاتی ہے او رآج ہم اسی موضوع پر جامع ومانع انداز میں بات کریں گے۔
نوجوانوں کے حقوق
بہتر پرورش اور نشوو نما، بہتر تعلیم تک رسائی، بہتر روز گار تک رسائی، جان ومال کا تحفظ، ان کی معاشرتی، سماجی ومعاشی خدمت میں بہتر معاونت، خاندانی، معاشرتی، ملکی وسیاسی معاملات میں برابر کی رسائی، ان کے مسائل کو سننا او ران کا بہتر حل پیش کرنا، بروقت شادی، ان کے رحجانات اور خدادا دصلاحیتوں کی پرکھ اور درستگی، ان کے اچھے کاموں کی پذیرائی وغیرہ شامل ہیں۔
نوجوانوں کے متعلق ریاست او رمعاشرے کی ذمہ داری
جب تک ہم اپنے نو جوانوں پر محنت نہیں کریں گے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھیں گے، انہیں بہتر ماحول فراہم نہیں کریں گے تو اس وقت تک ان سے سو فی صد نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ یہ جو آج جنریشن کا گیپ ہمیں تباہ کرتا جارہا ہے، اس کا یہ ہی سبب ہے کہ ہم نے اپنی نوجوان نسل کے لیے ٹارگٹ غلط چن لیے ہیں، ہم انہیں سکھا کچھ اور رہے ہیں اورنتائج کچھ اور ہی چاہتے ہیں، یعنی گھاس بو کر گندم کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں جو کہ کبھی نہیں ہوسکتی، ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بحیثیت ریاست اور بحیثیت ایک معاشرے کے کیا ماحول فراہم کرنا چاہیے…، کچھ چیزوں کو تربیت وار ذکر کرتے ہیں۔
کار آمد تعلیم تک رسائی
ریاست او رمعاشرے کی ذمہ داری ہے کہ باشعور او رکار آمد نوجوان بنانے کے لیے ان کی معیاری تعلیم کا فری یا قابل ِ حصول بندوبست کیا جائے او را س میں سماجی، معاشرتی یا طبقاتی تفریق کا کوئی شائبہ تک نہ ہو، ہمارے ہاں بد قسمتی سے کبھی بھی تعمیری تعلیم ترجیحات میں شامل نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہمارے پورے پاکستان میں کوئی بھی سرکاری یا پرائیویٹ تعلیمی ادارہ نہیں جو دنیا کے پہلے 100 اداروں میں شامل ہو ( دینی مدارس کو نکال کر، کیوں کہ بے شمار کم زوریوں کے باوجود لوگوں کے چندوں سے چلنے والے یہ ادارے دنیا کے پہلے دس بہترین دینی اداروں میں شامل ہوتے ہیں )۔
ہمارے ہاں معیار ی تعلیم نہ ہونے کی چند ایک وجوہات میں تعلیمی اداروں میں تعلیمی نصاب کا قومی زبان میں نہ ہونا اور ساتھ ساتھ تعمیری اور اخلاقی مواد کا نہ ہونا بھی شامل ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ایک جمود کی کیفیت طاری ہے او راس میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قابل ، ذہین اور حب الوطنی کے جذبات سے موج زن اساتذہ کی بے توقیری او ران کا مجبوراً ملک سے نقل مکانی کرنا بھی ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے ایک ماہر ِ تعلیم سے پوچھا کہ :”آپ اس ملت کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟“ تو انہوں نے کہا کہ :”مجھے ان کا نظامِ تعلیم دکھا دو، میں ان کا مستقبل بتا دوں گا۔“
غربت اور بے روز گاری سے نجات
ریاست او رمعاشرے کی اولین ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو غربت کی دلدل سے نکالے او رانہیں بے روز گاری کی لعنت سے بچانے کے لیے مستقل سکیمیں، چھوٹے بڑے کاروبار میں سپورٹ، مختلف پروجیکٹس اور معقول نوکریاں مہیا کی جائیں۔ اگر ہمارے نوجوان کا تازہ اور زر خیز دماغ مختلف تفکرات اور پریشانیوں میں گھرا ہوا گا تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے کام کی مکمل انجام دہی نہیں کر پائے گا، جس کا لامحالہ نقصان معاشرے اور ملک کو ہو گا اور وہ جمود کا شکار ہو کر ترقی کرنے کی بجائے تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نوجوانوں کو کوئی بھی ایسی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے ملک کا بے شمار کار آمد ذہن ملک سے باہر جاچکا ہے۔
نوجوانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا
کسی بھی ریاست او رمعاشرے کی ذمہ داری ہے کہ اپنے مستقبل یعنی نوجوانوں کو کسی بھی قسم کے علاقائی، لسانی، مذہبی، سیاسی اور ریاستی تشدد (جسمانی وذہنی) سے حفاظت کرے، اس کے ساتھ ساتھ انہیں ان کے مقاصد سے ہٹانے والی ہر قسم کی اخلاقی، معاشرتی او رمعاشی رکاوٹوں کو دور کرنا، تمام اخلاق باختہ مواد بشمول کسی بھی قسم کی نشہ آور چیزوں سے ان کی حفاظت کرنا اور بہر طور اس کو روکنا بھی ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
سیاست او رملکی معاملات میں بھرپور شرکت
ریاست او رمعاشرے کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو سیاست اور ملکی معاملات میں بھرپور شرکت کا موقع فراہم کیا جائے، تاکہ یہ نوجوان تیار ہو کر ملک وقوم کی بہتر خدمت کرسکیں، نوجوانوں کی ملکی معاملات میں ذمہ داریوں اور ان کے حقوق پر مسلسل حکومتی اور پرائیویٹ سطح پر ورکشاپس اور سیمینارز کا قیام ہونا چاہیے۔
آزادیِ اظہارِ رائے کا حق
ریاست او رمعاشرے کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو اپنی بات رکھنے او رکرنے کا بھرپور موقع فراہم کریں او ران کی زبان بندی کے تمام ہتھکنڈوں کی سختی سے بیخ کنی کی جائے، اس وقت پاکستانی نوجوان بے شمار سماجی او رنفسیاتی مسائل کا شکار ہے، اس کو سننا چاہیے۔ اسی سلسلہ میں ایک واقعہ دورِ نبوی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک نوجوان بارگاہ ِ رسالت صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوا او رکہا کہ یا رسول الله! مجھے زنا کی اجازت دیجیے، صحابہ کرام رضی الله عنہم اس نوجوان کی اس بیہودہ فرمائش پر سیخ پا ہوئے، مگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بالکل منفرد انداز میں اس نوجوان کی اصلاح فرمائی، اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ : کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا: میری جان آپ پر قربان! بالکل پسند نہیں کرتا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی بہن، پھوپھی اورخالہ کے متعلق یہی استفسار فرمایا اور وہ ہر بار یہی کہتا: میری جان آپ پر قربان ہو ، خدا کی قسم ! میں ہر گز یہ پسند نہیں کرتا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو اپنے قریب بلایا او راس کے لیے الله تعالیٰ سے دعا فرمائی، جس کے بعد وہ کبھی بھی اس بے ہودہ کام کی طرف مائل نہیں ہوا۔ سو نوجوانوں کی بات سنیں، وہ صحیح یا غلط جو بھی ہو، پھر اس کی بہتر انداز میں راہ نمائی کریں، اس کا رخ ٹھیک کریں، اس سلسلہ میں اس کی معاونت کرنا ایک ریاست اورمعاشرے کا بنیادی فرض ہے۔
یہ پانچ بنیادی حقوق جو ایک ریاست او رمعاشرے کی ذمہ داری ہے کو ذکر کیاگیا، وگرنہ او ربھی بے شمار حقوق ہیں او راس موضوع پر مزید بہتر اورزیادہ لکھنے کی ضرورت ہے اور میری دست بستہ اپیل ہے لکھنے اور بولنے والوں سے ہے کہ اس موضوع پر جتنا بہتر لکھ سکتے ہیں لکھیں۔ اب آخر میں چند گزارشات اپنے نوجوان بھائیوں سے بھی ہیں جنہیں اگر مد ِ نظر رکھا جائے تو وہ اپنا معاشرتی اور قومی فریضہ احسن انداز میں ادا کرسکیں گے۔
نوجوانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ نوجوان اور کیرئیر ازم
دین اسلام انسان کی دنیا وآخرت دونوں کی ناصرف فکر کرتا ہے، بلکہ دونوں کو سنوار نے او ربہتر بنانے کی جدوجہد کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے، جتنا اسلام نے اس کی جزئیات میں راہ نمائی فرمائی ہے، اتنی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اسلام کہتا ہے: تعلیم حاصل کر و اور خوب محنت سے حاصل کرو، لیکن حصولِ تعلیم کا مقصد محض ِ حصول ِ دولت یا کسی بھی عہدے کا لالچ نہ ہو، بلکہ تعمیر ِ انسانیت، ملک وملت کی خدمت کا جذبہ موج زن ہو، یعنی تعلیم آپ کو ایک اچھا او ربہتر انسان بننے میں معاون ہو۔
تعلیمات ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم سے دوری
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہر نوجوان کے لیے بہت ضروری ہے، تاکہ پتا چلے قرآن پاک پر کیسے عمل کیا جاتا ہے؟! اور قرآن پاک کو کیسے سمجھا جاتا ہے؟! اور الله پاک کی رضا کیسے حاصل کی جاتی ہے؟! او ران لوگوں نے دنیا کو اتنا اچھا اوربہترین معاشرہ کیسے دیا، جس کی دنیا آج تک نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے؟!!
اخلاق باختگی اور دیگر عصری مسائل
مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة الله علیہ نے بہت زبردست بات فرمائی:
”وقت کا تجدیدی کام یہ ہے کہ امت کے نوجوان او رتعلیم یافتہ طبقہ میں اسلام کی اساسیات اور اس کے نظام وحقائق اور رسالت ِ محمدی صلی الله علیہ وسلم کا وہ اعتماد واپس لایا جائے، جس کا رشتہ اس طبقہ کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔ آج کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ اس فکری اضطراب او رنفسیاتی الجھنوں کا علاج بہم پہنچایا جائے جس میں آج کا تعلیم یافتہ نوجوان بری طرح گرفتار ہے او راس کی عقلیت اور علمی ذہن کو اسلام پر پوری طرح مطمئن کر دیا جائے۔ (نیا طوفان اور اس کا مقابلہ)
آج کا نوجوان جدید عصری مسائل کا شکار ہے، جن میں اخلاق باختہ ویڈیوز، مارننگ شوز، ڈرامے، فلمیں اور لٹریچر سر فہرست ہیں، جس طرح ایک معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کی اخلاقیات اوران کے عصری مسائل پر توجہ دے، اسی طرح نوجوانوں پر بھی ضرور ی ہے کہ وہ کام جو انہیں ان کی مقصدیت سے ہٹاتا ہو یا کام یابی کے عمل کو سست روی کا شکار کرتا ہو اس سے دور رہیں۔ عمومی طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ چیزیں ان نوجوانوں کو زیادہ پریشان کرتی ہیں جن کی زندگی کسی بڑے مقصد سے خالی ہوتی ہے، جو لوگ کچھ بڑا کرنے کی جد وجہد میں شریک ہوتے ہیں وہ لہو ولعب میں وقت ضائع نہیں کرتے۔
اسی طرح ہمارے نوجوان کو گلابلائزیشن کے مضر اثرات کا بھی سامنا ہے، جب سے دنیا نے عالمی منڈی کی شکل اختیار کی ہے تو سیکولرازم اور الحادی نظریات نے موجودہ نوجوان نسل کو اُلجھا کر رکھ دیا ہے، جسے ہمارے کچھ اہل ِ قلم حضرات تہذیبی جنگ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اس سے زیادہ تر وہ نوجوان طبقہ متاثر ہو رہا ہے جو اپنی تہذیب وتمدن کی افادیت اور اپنیتاریخ سے ناواقف ہے۔
اسلامی تاریخ سے ناواقفیت
چوتھی گزارش نوجوانوں سے یہ ہے کہ اپنی اسلامی تاریخ سے واقفیت پیدا کریں، اپنی تہذیب، اپنے تمدن ، اپنے علمی ورثہ سے جڑے رہنا بہت ضرور ی ہے، جو قومیں اپنے عہدِ رفتہ کے نقوش پر نہیں چلتیں یا انہیں فراموش کر دیتی ہیں، ناکامی ونامرادی ان کا مقدر کر دی جاتی ہے۔
ہمیں علم ہونا چاہیے کہ آج یورپ کی تمام تر ترقی او رچکا چوند ہماری قرطبہ اور غرناطہ کی مسلم درس گاہوں کی رہین ِ منت ہے۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ جب اندلس فتح کیا گیا تو چند ہزار مسلمان تھے او رجب سقوطِ اندلس ہوا تو صرف اس کے ایک شہر میں 10 لاکھ مسلمان تھے۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ 15 سو سال میں زیادہ وقت ہم نے دنیا کی حکم رانی کی ہے، ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی، محمود غزنوی، خیر الدین بیبرس، غزالی، فارابی، ابن تیمیہ وغیرہ کون تھے؟! ہمیں علم ہونا چاہیے کہ نبوی دورِ حکومت کیسا تھا؟! صحابہ واہل بیت نے کیسے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے وفا کی؟! کیسے خلفائے راشدین رضی الله عنہم نے پوری دنیا کو نبوی پرچم کے آگے سرنگوں کیا؟! سائنس ، صحت، تعلیم، امن، رفاہ ِ عامہ، حکومت سمیت بے شمار شعبوں کی ابتدا اور بے شمار شعبوں کو اوج ِ ثریا پر مسلم سائنس دانوں نے کیسے پہنچایا؟ یعنی پوری تاریخ سے ہمیں واقفیت ہونی چاہیے۔ یہ واقفیت آپ کی مقصدیت میں ایک بہترین معاون ثابت ہو گی۔
نوجوان او رمعاشی مسائل
اسلامی نقطہٴ نظر میں مالی منصوبہ بندی او رانتظام کو کسی بھی شخص کی زندگی کا اہم پہلو سمجھا جاتا ہے، اسی لیے نوجوان کو بے روز گاری سے بچانے کے لیے ریاست اور معاشرے پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کچھ احتیاطی تدابیر ہمارے نوجوانوں کوبھی اختیار کرنی چاہییں:
اِسراف سے گریز کریں: صرف ضرورت کی چیزوں پر بقدرِ ضرورت ہی خرچ کریں، نام ونمود، فیشن اور شوخی کے چکروں سے خود کو باز رکھیں اور سادگی کو اپنائیں۔
قرض سے اجتناب: قرض سے جس حد تک ممکن ہو بچا جائے، ضروریات کی حد تک اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے قرض کو خود پر نہایت ممنوع خیال کریں۔
بچت: جائز اور ممکنہ حد تک بچت کی کوشش کریں، یعنی قناعت کریں، تاکہ معاشی استحکام حاصل ہو۔
صدقہ دیں: اپنے کام کاروبار میں مخلوق ِ خدا کا حصہ ضرور رکھیں، صدقہ دینے سے ایک تو بلائیں ٹلتی ہیں او رمال محفوظ ہوتا ہے، الله تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے او را س کے ساتھ ساتھ مال میں برکت اور بڑھوتری کا سبب بھی ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے، جتنی ہمار ی ہمت ہے۔ حدیث نبی صلی الله علیہ وسلم میں آیا ہے، جس کا مفہوم ہے کہ :”اگر شوربہ بناؤ تو اس کو زیادہ کر لو، تاکہ ہمسائے کو بھجواسکو۔“ اورایک جگہ فرمایا کہ :”اگر تم او رتمہارے بچے پیٹ بھر کر سوئیں اور تمہارے پڑوسی کے بچے بھوکے سوئیں تو ساری رات فرشتے تم پر لعنت کرتے ہیں۔“
اسلام نے ہر مسلمان کو اس کی جگہ پر ایک مکمل ویلفیئرٹرسٹ بنایا ہے، جس کا کام اپنی بساط کے مطابق اپنے ارد گرد لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھنا ہے او راس کام کرنے والے کو دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں کام یابی اور کام رانی کی بشارت بھی دی گئی ہے۔