طلبہ کی غیر حاضری پر مالی جرمانہ کا حکم

طلبہ کی غیر حاضری پر مالی جرمانہ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ طلبہ کی غیر حاضری پر ایک درخواست جو مدرسے نے تیار کررکھی ہے، جس پر پچاس روپیہ، سو روپے لکھا ہوتا ہے ،جو طالبہ غیر حاضری کرتی ہے، اس سے درخواست معافی لکھوائی جاتی ہے اور اوپر لکھی گئی رقم جو ہے وہ و صول کی جاتی ہے ،کیا ایسا کرنا درست ہے؟

وضاحت:واضح رہے کہ وہ رقم مدرسے میں طالبات پر ہی استعمال کی جاتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ غیر حاضری پر جو رقم لی جاتی ہے، فقہائے کرام رحمہم اللہ کی اصطلاح میں اس کو تعزیر بالمال کہا جاتا ہے، احناف (کثر اللہ سوادہم) کے نزدیک تعزیر بالمال جائز نہیں، لہذا صورت مسئولہ میں طلبہ سے رقم لینا جائز نہیں، اگرچہ وہ رقم طلبہ پر ہی خرچ ہو۔
لما في رد المحتار:
’’وأفاد في البزازیۃ أن معنی التعزیر بأخذ المال علی القول بہ إمساک شيء من مالہ عنہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم إلیہ، لا أن یأخذہ الحاکم لنفسہ أو لبیت المال کما یتوھمہ الظلمۃ؛ إذ لا یجوز لأحد من السبیلین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي‘‘.(کتاب الحدود، مطلب في التعزیر بأخذ المال: ٦/ ٩٨: رشیدیۃ)
وفي النھر الفائق:
’’وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ‘‘.(کتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزیر: ٣/ ١٦٥: رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق:
’’والحاصل: أن المذھب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘.(کتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزیر: ٥/ ٦٨: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175/268