شریک کی اجازت کے بغیر اس کے حصہ میں تصرف کرنے کا حکم

شریک کی اجازت کے بغیر اس کے حصہ میں تصرف کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے آج سے تقریبا آٹھ سال پہلے اپنے دوست کے ساتھ مل کر چار لاکھ کا پلاٹ خریدا تھا اور میری نیت یہ تھی کہ میں اس سے نفع حاصل کروں گا اور میں اس پلاٹ پر زکوۃ بھی دیتا رہا، اب مجھے پیسے کی ضرورت پڑی تو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ پلاٹ فروخت کر کے اس کے پیسے مجھے دے، ضرورت ہے جس پر میرے دوست نے کہا کہ یہ پلاٹ میں نے خریدنے کے ایک مہینے کے اندر فروخت کردیا تھا، مجھے پیسوں کی ضرورت تھی کاروبار کے لیے تو میرے دوست نے کہا پلاٹ کی قیمت اس وقت چار لاکھ تھی (دو لاکھ میرے اور دو لاکھ میرے دوست کے) تو وہ مجھے دو لاکھ دینے لگا میں نے کہا کہ میں نے نفع کے لیے خریدا تھا اور آج کل اس کی قیمت مارکیٹ میں زیادہ ہے، لہذا مجھے مارکیٹ کے لحاظ سے دو (جس کی قیمت آج کل 7,000,00 ہے) تو وہ انکار کرنے لگا کہ میں نے 8 سال پہلے جتنے کا خریدا تھا وہی پیسے واپس کروں گا ،جب کہ ابھی پلاٹ کی واپسی نا ممکن ہے اور میں پلاٹ واپس لینے پر رضا مند بھی نہیں ہوں۔
لہذا مہربانی فرما کر قرآن حدیث اور دلائل کی روشنی میں وضاحت فرمائیں اور میری رہنمائی فرمائیں کہ میرا کتنا حصہ ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ کو دو باتوں کا اختیار ہے:اپنے شریک کے پلاٹ فروخت کرنے کو نافذ قرار دیں ،تو اس صورت میں آدھی رقم (دو لاکھ) کے حقدار ہوں گے اور اگر آپ اپنے حصے کے فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیتے، تو اپنے حق کی وصولی کے لیے قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں۔
لما في الھدایۃ:
’’ومن باع ملک غیرہ بغیر أمرہ فالمالک بالخیار إن شاء أجاز البیع وإن شاء فسخ‘‘.(کتاب البیوع، فصل في بیع الفضولي: 90/3، امیر حمزہ کتب خانہ)
وفي مجمع الأنھر:
’’ولمن باع فضولي ملکہ إن یفسخہ ولہ أن یجیزہ‘‘.(کتاب البیوع، فصل في بیع الفضولي: 134/3، غفاریۃ)
وفي فقہ البیوع:
’’وإن لم یجز من لہ الإجازۃ البیع، فالبیع باطل‘‘.(الباب الثامن تقسیم البیع، المبحث الخامس: في البیع الموقوف: 945/2، معارف القرآن).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/123