مضاربت کی تعریف مع شرائط

مضاربت کی تعریف مع شرائط

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مضاربت کیا ہوتی ہے؟اور اس کی شرائط کیا ہیں؟

جواب

ایک آدمی کی طرف سے مال ہو، اور دوسرے کی طرف سے عمل، شرعا ایسے کاروبار کو مضاربت کہتے ہیں، فقہائے کرام نے مضاربت کے صحیح ہونے کے لیے چند شرائط بیان کی ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:
١۔ سرمایہ نقدی یعنی کرنسی کی صورت میں ہو۔
٢۔ سرمایہ عین ہو، دین (ادھار، قرض) نہ ہو۔
٣۔ مال مکمل طور پر مضارب (کام کرنے والے) کے حوالے کیا جائے۔
٤۔ مضارب کا حصہ نفع میں سے ہو۔
٥۔ نفع دونوں کے درمیان مشترک ہو۔
٦۔ دونوں کا حصہ فیصدی اعتبار سے متعین ہو۔
٧۔ کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے، جس سے نفع میں جہالت لازم آئے، یا وہ شرط مقتضائے عقد (مضاربت) کے خلاف ہو۔
٨۔ وہ کاروبار شرعا درست ہو۔
٩۔ نقصان مال مضاربت سے پورا کیا جائے گا۔
١٠۔ مضارب پر رب المال (پیسے والے) کی شرائط کی مکمل پاسداری کرنا لازم ہے۔
لما فی البحر الرائق:
’’ھي شرکۃ في الربح بمال من جانب وعمل من جانب‘‘. (کتاب المضاربۃ: 448/7، رشیدیۃ)
وفي بدائع الصنائع:
’’ وأما الذي یرجع إلی رأس المال فأنواع:منھا:أن یکون رأس المال من الدراھم أو الدنانیر عند عامۃ العلماء، فلا تجوز المضاربۃ بالعروض.
ومنھا:أن یکون معلومًا، فإن کان مجھولا، لا تصح المضاربۃ.
ومنھا:أن یکون رأس المال عینًا ولا دینًا.
ومنھا:تسلیم رأس المال إلی المضارب.
ومنھا:أعلام مقدار الربح لأن المعقود علیہ ھو الربح.
ومنھا:أن یکون المشروط لکل واحد منھا من المضارب ورب المال من الربح جزءً شائعًا، نصفا أو ثلثا أو ربعا‘‘.(کتاب المضاربۃ، فصل في شرائط الزکاۃ:8 /10-24، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/142