عقد مضاربت کے جواز کی کیا شرائط ہیں

عقد مضاربت کے جواز کی  کیا شرائط ہیں

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میرا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ ہے ، کچھ لوگ میرے کاروبار میں سرمایہ لگانا چاہتے ہیں، جس کی صورت یہ ہوگی کہ سرمایہ ان کا ہو گا او رمحنت میری، اس صورت میں شرعاً کن شرائط کے تحت یہ کام صحیح ہو سکتا ہے؟

جواب

وہ کاروبار جس میں سرمایہ ایک جانب سے او رمحنت دوسری جانب سے ہو،اس کو  اصطلاحِ شریعت میں ”مضاربت”کہا جاتا ہے، ایسے عقد کے جائز ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ اصل سرمایہ حلال کا ہو، اگر سرمایہ حرام کا ہو تو یہ کاروبار شرعاً ناجائز ہے او راگر اکثر سرمایہ حلال کا ہو اور بعض حرام کا تو کاروبار جائز ہو گا، لیکن حرام مال کی ملاوٹ کی وجہ سے کراہت سے خالی نہ ہو گا۔

۲۔ کاروبار حلال او رجائز چیز کا کیا جائے، اگر وہ کاروبار کسی حرام چیز کا ہو تو یہ عقد درست نہیں،مثلاً شراب کی خرید وفروخت یا ٹی وی،وی سی آر، ریڈیو کا کاروبار کرنا۔

۳۔ سرمایہ کار نے جس جائز کاروبار کی اجازت دی ہے، اسی نوعیت کا کاروبار کرنا مضارب پر لازم ہو گا، مضارب کو اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا کاروبار کرنا جائز نہیں، اگر سرمایہ کار ہر جائز کاروبار کی اجازت دے دے تو الگ بات ہے۔

۴۔ سرمایہ نقد کی شکل میں ہو، یعنی روپیہ ہو سامان وغیرہ نہ ہو۔

۵۔ سرمایہ کار اصل سرمایہ مضاب کو نقد ادا کرے۔

۶۔ سرمایہ کو مضارب کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ کاروبار شروع کر سکے۔

۷۔ نفع کا ہر جزء  دونوں کے درمیان مشترک ہو، یعنی دونوں فریق میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ نفع میں سے کوئی مخصوص رقم اپنے لیے متعین کرے۔

۸۔ مضارب اور سرمایہ کار میں سے ہر ایک کا فی صدی حصہ معلوم ہو، مثلاً نفع میں سے چالیس فی صد مضارب کا اور ساٹھ فی صد سرمایہ کار  کا  ہو گا۔

۹۔ کاروبار او رمحنت کرنا مضارب کے ذمے ہو گا، رب المال پر کام کرنا لازم نہیں۔

۱۰۔ اگر کاروبار میں نقصان ہو تو سب سے پہلے نفع میں سے نقصان کی تلافی کی جائے، اگر نقصان، نفع سے زیادہ ہو تو اصل سرمائے پر ڈالا جائے۔

(ہي)۔۔۔(عقد شرکۃ في الربح بمال من جانب رب المال وعمل من جانب) المضارب.(تنویرالأبصارمع الدر المختار،کتاب المضاربۃ: ٥/٦٤٥،سعید)

''(وشرطھا) أمور سبعۃ (کون رأس المال من الأثمان)۔۔۔(وکون رأس المال عینا لا دینا)۔۔۔۔(وکونہ مسلماً إلی المضارب۔۔۔(وکون الربح بینھما شائعا)۔۔۔(وکون نصیب کل منھما معلوماً) عند العقد. ومن شروطھا: کون نصیب المضارب من الربح حتی لو شرط لہ من رأس المال أو منہ ومن الربح فسدت۔۔۔ إلخ''. (تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب المضاریۃ: ٦٤٧، ٦٤٨، سعید)

وأما شرائطہا الصحیحۃ فکثیرۃ، کذا في النہایۃ: منہا: أن یکون رأس المال دراہم أو دنانیر۔۔۔۔وفیہا: أن یکون رأس المال معلومًا۔۔''الأصل أن رب المال متی شرط علی المضارب شرطا في المضاربۃ، إن کان شرطا لرب المال فیہ فائدۃ فإنہ یصح ویجب علی المضارب مراعاتہ والوفاء بہ۔۔۔إن خص لہ رب المال التصرف في البلد بعینہ أو في سلعۃ بعینہا تتقید بہ، ولم یجز لہ أن یتجاوز ذلک''.(الھندیۃ، کتاب المضاربۃ، الباب الأول والسادس: ٤/٢٩٣-٢٩٦، ٣٠٦، دار الفکر،بیروت).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی