جوس فیکٹری میں نفع کے حصول کے لیے رقم جمع کرانا

جوس فیکٹری میں نفع کے حصول کے لیے رقم جمع کرانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی جوس فیکٹری میں رقم بطور مضاربت انویسٹ کرتا ہے، فیکٹری والے تمام تر اخراجات نکال کر منافع کا 50فیصد خود رکھتے ہیں اور50 فیصد رقم لگانے والے کو دیتے ہیں، یعنی اس سے قطع نظر کہ سرمایہ کتنا لگا ہے، منافع میں 50 فیصد ملتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح مضاربت کے طور پر رقم لگانا اور اس سے نفع حاصل کرنا شرعاًجائز ہے یا نہیں؟ یہ بات ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ساری رقم جوس فیکٹری میں انویسٹ ہوگی۔ نیز منافع کے علاوہ جوس فیکٹری کے کاروبار میں اور کیا کیا امور طے ہونے چاہئیں؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ صورت شرکت عنان کی ہے، اور شرکت عنان میں ضروری ہے کہ سرمایہ دونوں جانب سے پیسوں کی صورت میں ہو، چونکہ مذکورہ صورت میں دونوں جانب سے سرمایہ نقدی کی صورت میں نہیں ہے، لہٰذا یہ شرکت ناجائز ہے۔
اس معاملہ کی جواز کی صورت یہ بن سکتی ہے کہ سرمایہ لگانے ولا کمپنی سے آدھی رقم کی مصنوعات خرید لے اور اس پر دونوں شخص قبضہ کرلیں ،اس کے بعد دونوں شخص اپنی رقم اور شیاء کو ملادیں، پھر ان پیسوں اور اشیاء پر شرکت کا معاملہ کریں۔
مذکورہ صورت شرکت عنان کی ہے اور شرکت عنان میں چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
۱…دونوں شریک وکیل بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
۲…نفع کی مقدار معلوم ومتعین ہو۔
۳…نفع کی تحدید فیصد(نصف، ثلث،ربع وغیرہ) کے اعتبار سے ہو
۴…شرکت نقد مال میں ہو۔
۵…رأس المال (سرمایہ) نقد کی صورت میں ہو۔
۶…رأس المال خریدوفروخت کے وقت موجود ہو۔
جوس فیکٹری کے کاروبار میں ان شرائط کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔
لما في التاتارخانیۃ:
’’ثم الشرکۃ إذا کانت بالمال لاتجوز عنانا کانت أو مفاوضۃ، إلا أن کان رأس مالھا من الأثمان التی.......لاتتعین في عقود المبادلات الدراھم والدنانیر فأما ما یتعین في عقود المبالات نحو الأرض فلاتصح الشرکۃ بھا سواء  کان ذلک رأس مالھما أو رأس مال أحدھما‘‘. (کتاب الشرکۃ: فصل أنواع الشرکات وشرائطھا: 458/7، فاروقیۃ)
وفي الھندیۃ:
’’الشرکۃ إذا کانت بالمال لاتجوز، عنانا کانت أو مفاوضۃ، إلا إذا کان رأس مالھما من الأثمان التی لاتتعین في عقود المبادلات نحو الدراھم والدنانیر......إلخ‘‘. (کتاب الشرکۃ :الفصل الثالث فیما یصلح أن یکون رأس المال ومالایصلح:515/2،دارالفکر بیروت).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:234/ 177