مضاربت کی ایک صورت

مضاربت کی ایک صورت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید كے پاس خالى دكان ہے، لیكن اس كے پاس پىسے نہیں ہیں، عمرو نے زید سے کہا کہ میں آپ کو ایک لاکھ روپے دوں گا، آپ اس دکان میں کاروبار کریں، اور نفع دونوں کے درمیان مشترک ہوگا، تو زید نے کہا کہ اگر مجھے پیسے ملے، تو میں آپ کو بچاس ہزار روپے دوں گا، پھر یہ کاروبار ہمارے درمیان مشترک ہوگا، اور جو کاروبار میں چلاتا ہوں، ماہانہ دس ہزار روپے اس عمل کی تنخواہ میں نفع سے کاٹوں گا، لیکن عمرو یہ شرط تسلیم نہیں کرتا، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا زید کا اس طرح شرط لگانا اور عمرو کا یہ شرط تسلیم نہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور زید اور عمرو میں سے کس کا قول صحیح ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ طریقہ مضاربت کا ہے، اور اگر مضاربت میں نفع فیصدی اعتبار سے طے ہے، تو مذکورہ کاروبار کرنا جائز ہے۔ البتہ رقم ملنے پر کاروبار میں شرکت کی شرط لگانا درست نہیں، مضاربت کو ختم کرنے کے بعد دونوں باہمی رضامندی سے شرکت بھی کرسکتے ہیں، کوئی ایک دوسرے کو مجبور نہیں کرسکتا۔
لما في التا تار خانية:
’’الشرط الخامس: أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لاتنقطع به الشركة في الربح، حتى لا يقعا في المنازعة في الثاني‘‘.(كتاب المضاربة، شرائط المضاربة، 395/15:فاروقية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(هي) لغة: فاعلة من الضرب في الأض وهو السير فيها، وشرعا: (عقد شركة في الربح بمال من جانب) رب المال (وعمل من جانب) المضارب..
وفي الدر:
’’كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة‘‘.(كتاب المضاربة، 502/8:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/271