موبائل اور موٹر سائیکل کمیٹی کی ایک صورت کا حکم

موبائل اور موٹر سائیکل کمیٹی کی ایک صورت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں موٹر سائیکل اور موبائل کی قرعہ اندازی اسکیم شروع ہوئی ہے، اس بارے میں ان کے ممبران کا کہنا ہے، کہ یہ اسکیم سود سے پاک اور جائز ہے، کیا یہ واقعتاً سود سے پاک اور جائز ہے یا نہیں؟ اگر اس میں شرعا کوئی خرابی ہے، تو اس کی نشاندہی فرمائیں۔ اور اگر کوئی جائز صورت اس کا متبادل ہو، تو اس کی طرف ضرور رہنمائی فرمائی ۔
کمیٹی کی تفصیل ذیل میں مذکور ہے:
1۔ ہر ماہ ایک خوش نصیب بذریعہ قرعہ اندازی موٹر سائیکل حاصل کرےگا۔
2۔ کمیٹی اسلامی اصولوں کے عین مطابق اور سود سے پاک ہوگی۔
3۔ ممبر اپنی پسند کا موبائل ،موٹر سائیکل کے بدلے کوئی بھی اشیاء لے سکتاہے۔
4۔ ممبرCD-70کی جگہ کوئی بھی موٹر سائیکل لے سکتا ہے۔
5۔ دوران کمیٹی اگر کوئی ممبر قسط جمع نہیں کرائے گا،اس کی بقایا رقم واپس نہیں کی جائےگی۔
6۔ قرعہ اندازی سے پہلے ہر ممبر قسط جمع کرانے کا پابند ہوگا، وگر نہ اس ممبر کا نام قرعہ اندازی میں شامل نہیں کیا جائےگا۔
7۔کمیٹی کی اختتام پر بقایا ممبر ان کو موٹر سائیکل یکمشت دیےجائیں گے۔
8۔  CD-70کی جگہ کوئی بھی ممبر اپنی پسند کا موٹر سائیکل (پرائیڈر، ہنڈا  125 یا CD-Dream) لے سکتا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ موٹر سائیکل اور مو بائل کمیٹی چند مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، مفاسد کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
1۔ کمیٹی والے جو قسط وار پیسے جمع کرتے ہیں یہ بیع بالتقسیط ہے، اور اس بیع کو فقہاء کرام رحمہم اللہ نے اس صورت میں جائز قرار دیا ہے کہ پہلے خریدار کو مبیع(چیز) حوالہ کرے، پھر پیسے قسط وار وصول کرے، اس حال میں کہ اقساط بھی متعین ہوں اور مدت بھی متعین ہو، جب کہ صورت مسئولہ میں مبیع خریدار کو پہلے حوالہ نہیں کی جاتی، اس وجہ سے یہ معاملہ جائز نہیں۔
2۔ اگر خریدو فروخت کا یہ معاملہ مطلق بیع ہی شمار کیا جائے، تو اس صورت میں بھی جائز نہیں، اس وجہ سے کہ مذکورہ کمیٹی میں مبیع (موٹر سائیکل اور موبائل) متعین نہیں، حالاں کہ مبیع کا متعین کرنا ضروری ہے، اس لئے کہ کمیٹی میں جتنے شرکاء ہوتے ہیں اتنی موٹر سائیکلیں وغیرہ ہوتی ہیں، اور ہر ایک کو واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ قرعہ اندازی کے بعد کون سا موبائل یا موٹر سائیکل ملے گی۔
3۔ اسی طرح یہ بھی معلوم نہیں ہوتا، کہ اس کا نام کون سے نمبر پر نکلے گا،  اس کو کتنی قسطیں جمع کرنے کے بعد موبائل یا موٹر سائیکل ملے گی، اس وجہ سے ثمن بھی مجہول ہے۔
4۔ اور شق نمبر 5،6بھی جائز نہیں، اس لئے کہ قسطوار جمع کرائی گئی رقم کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض خواہ کو حق ہے کہ کسی بھی وقت قرض واپس لے، اگر چہ اس کے لئے ایک وقت مقرر ہو۔
5۔ اگر اس معاملے کو بیع سلم قرار دے دیا جائے، تو بھی جائز نہیں، اس لئے کہ بیع سلم کی شرائط اس میں نہیں پائی جارہی ہیں۔
لہذا ان تمام شرعی مفاسد کی وجہ سے یہ کمیٹی چلانا اور اس میں شامل ہونا جائز نہیں۔
البتہ اگر اقساط کا معاملہ کرنا ہے، تو قسطوں پر اس طرح خریدوفروخت کرے، کہ اس میں یہ شرائط ہوں:
1۔ ادائیگی کی مدت اور قسطوں کی مقدار اور ادائیگی کے اوقات متعین ہوں۔
2۔ عقد کے وقت پہلے مبیع (موبائل ، موٹر سائیکل) حوالہ کیا جائے۔
3۔ قسط میں تاخیر کی وجہ سے نہ اضافی رقم وصول کی جائے، اور نہ اس مبیع کو روکا جائے، تب جاکر یہ معاملہ درست اور جائز ہوتا ہے۔
لما في بحوث قضايا فقهية معاصرة:
’’اولا:حقيقة البيع بالتقسيط: البيع بالتقسيط بيع بثمن مؤجل يدفع إلى البائع في أقساط متفق عليها، فيدفع البائع البضاعة المبيعة إلى المشتري حالة، ويدفع المشتري الثمن في أقساط مؤجلة.....
وإن إمساك المبيع بيد البائع في هذه الصورة يمكن أن يتصور بطريقتين: الأول: أن يكون على أساس حبس المبيع؛ لاستيفاء الثمن. والثاني: أن يكون بطريق الرهن.
أما الطريق الأول: وهو حبس البائع المبيع لاستيفاء الثمن؛ فإنه لا يجوز في البيع بالتقسيط؛ لأن البيع بالتقسيط بيع مؤجل، وإن حق البائع في حبس المبيع لاستيفاء الثمن إنما يثبت في البيوع الحالة، وليس له ذلك في البيوع المؤجلة‘‘.(بحوث في قضايا فقهية، احكام البيع بالتقسيط:16/1:معارف القرآن)
وفي فقه البيوع:
’’كما يجوز ضرب الأجل لأداء الثمن دفعة واحدة، كذلك يجوز أن يكون أداء الثمن بالأقساط، بشرط أن تكون آجال الأقساط ومبالغها معينة عند العقد، وقد يسمى”البيع بالتقسيط“وهو نوع من البيع المؤجل، والأقساط قد تسمى[نجوما]‘‘.(البيع بالتقسيط، التأجيل حق للمشتري في البيع المؤجل:1/ 540،539:معارف القرآن)
لما في التنوير مع شرحه:
”بقي من الشروط (قبض رأس المال).... ولو عينا (قبل الافتراق) بأبدانهما، وإن ناما أو سارا فرسخا أو أكثر، ولو دخل ليخرج الدراهم إن توارى عن المسلم إليه بطل، ومن بحيث يراه لا.....
(وهو شرط بقائه على الصحة لا شرط انقعاده بوصفها) فينعقد صحيا ثم يبطل بالافتراق بلا قبض(ولو أبى المسلم إليه قبض رأس المال أجبر عليه) خلاصة“.(كتاب البيوع، باب السلم: 7/ 490،489:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/19