بارڈر پر جانے کے لیے ملنے والے ٹوکن کو فروخت کرنا

بارڈر پر جانے کے لیے ملنے والے ٹوکن کو فروخت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میرا تعلق گوادر سے ہے ،یہاں بلکہ پورے مکران میں حکومت نے ایران کے بارڈر کے ساتھ مختلف پوائنٹس کھول دیے ہیں تاکہ غریب عوام تیل کا کاروبار کرسکے۔
حکومت نے سب لوگوں کی گاڑیاں اپنے پاس رجسٹرڈ کی ہیں ،باری باری سب لوگوں کو ایران جانے کے لیے ٹوکن دیاجاتا ہے،  تاکہ لوگ ایران سے تیل لاسکیں، لیکن یہاں کے کچھ لوگ ٹوکن لے کر اس کو دوسری گاڑی والوں کو پچاس، ساٹھ ہزار میں بیچ دیتے ہیں اور اپنا اصل شناختی کارڈ بھی اسی گاڑی والے کو دیتے ہیں، تاکہ وہ ایران جاسکے کیوں کہ جو گاڑی جس کے نام پر حکومت کے پاس رجسٹرڈ  ہے اور جب اس کو ٹوکن ملتا ہے، تو ایران جانے کے لیے حکومتی اہلکار بارڈر پر اس کا اصل شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں، اسی وجہ سے جب وہ ٹوکن کو دوسری گاڑی والوں کو بیچتے ہیں، تو اس کو اپنا اصل شناختی کارڈ بھی دیتے ہیں،  تاکہ وہ آسانی سے ایران جاسکے، ہر مہینے ہر گاڑی والے کو دو یا تین ٹوکن ملتے ہیں۔
۱…اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس ٹوکن کو دوسرے کار مالکان کو بیچنا اور منافع کمانا جائز ہے یا نہیں؟
۲… بہت سے گاڑی مالکان نے اپنی گاڑی سرکار کے پاس رجسٹرڈ کی ہیں، لیکن بعد میں اسی گاڑی کو جو سرکار کے پاس رجسٹرڈ ہیں، اس کو بیچ دیتے ہیں لیکن پھر بھی اسی گاڑی کے نام سے سرکار سے ٹوکن لیتے ہیں اور دوسری گاڑی والوں کے پاس پچاس ہزار یا اس سے زیادہ میں بیچ دیتے ہیں، کیا یہ رقم حلال ہے یا حرام؟

جواب

واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے بارڈر پر جانے کے لیے جو ٹوکن یا اجازت نامہ ملتا ہے، یہ سرکار کی طرف سے صرف متعلقہ گاڑی والے کے لیے بارڈر پر جانے کا ایک حق ہے، اس کی کوئی مالی حیثیت نہیں ہے، لہذا اس کو فروخت کرکے پیسے کمانا شرعا جائز نہیں ہے۔
لما في رد المحتار:
’’(لا یجوز الاعتیاض عن الحقوق المجردۃ علی الملک) قال في البدائع: الحقوق المفردۃ لا تحتمل التمیلک ولا یجوز الصلح عنھا‘‘.(کتاب البیوع،330/4: رشیدیۃ)
وفي البدائع:
’’ومنھا أن یکون مالا؛ لأن البیع مبادلۃ المال بالمال‘‘.(کتاب البیوع:330/4: رشیدیۃ). فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/231