اہل محلہ کی زمین پر عمارت بناکر آمدنی حاصل کرنا

اہل محلہ کی زمین پر عمارت بناکر آمدنی حاصل کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں ایک جگہ خالی ہے جس میں کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں، پھر ایک صاحب نے وہ ساری جگہ صاف کی اوراس جگہ چار دیواری پھیر کر آرا مشین بنالی، اب اس جگہ میں وہ صاحب لکڑی کا کاروبار کر رہے ہیں، کم از کم پانچ سال ہوچکے ہیں کہ کسی نے بھی دعوی نہیں کیا کہ یہ جگہ میری ہے، اب کیا ایسی جگہ کی آمدنی کا استعمال حلال ہے یا حرام؟ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
وضاحت: زمین نہ سرکاری ہے اور نہ کسی مملوکہ ہے، اور نہ ہی کسی نے ملکیت کا دعوی کیا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں بیان کردہ صورت حال کے مطابق یہ زمین چوں کہ اہل محلہ کی ہے، لہذا اس پر عمارت بنانا جائز نہیں ہے، البتہ اس سے آمدنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر وہ حلال ذریعہ سے حاصل کی جاتی ہے تو حلال ہے۔
لما في بدائع الصنائع:
’’ولو أراد رجل أن یشرع إلی الطریق جناحا أو میزابا فنقول ھذا في الأصل لا یخلو من أحد وجھین: إما إن کانت السکۃ نافذۃ وإما إن کانت السکۃ غیر نافذۃ، فإن کانت نافذۃ فإنہ ینظر إن کان ذلک مما یضر بالمارین فلا یحل لہ أن یفعل ذلک في دینہ، لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:’’لا ضرر ولا ضرار في الإسلام‘‘،  ولو فعل ذلک فلکل واحدۃ أن یقلع علیہ ذلک، وإن کان ذلک مما لا یضر بالمارین حل لہ الانتفاع بہ ما لم یتقدم إلیہ أحد بالرفع والنقض فإذا تقدم إلیہ واحد من عرض الناس لا یحل لہ الانتفاع قبل التقدم وبعدہ، وکذلک ھذا الحکم في غرس الأشجار وبناء الدکاکین‘‘.(کتاب الدعوی، فصل في حکم الملک والحق الثابت في المحل: 514/8: رشیدیۃ)
وفي الصحیح لمسلم:
’’وحدثني زھیر بن حرب، حدثنا جریر عن سھیل، عن أبیہ، عن أبي ھریرۃ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: (لا یأخذ أحد شبرا من الأرض بغیر حقہ، إلا طوقہ اللہ إلی سبع أرضین یوم القیامۃ)‘‘.(کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم وغصب الأرض وغیرھا، ص: 704: دار السلام للنشر والتوزیع).
وفي الدر المختار:
’’ومن بنی أو غرس في أرض غیرہ بغیر إذنہ أمر بالقلع والرد‘‘.(کتاب الغصب، مطلب اشتری دارا وسکنھا فظھرت لوقف إلخ:326/9: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/157