کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے بہت عرصہ پہلے کچھ اس طرح سے دو مکان خریدے ہیں، ابتداء میں انعامی بانڈز جو کہ معروف ہے خریدا اپنے پیسوں سے، پھر اس کو منافع میں بیچا،پھر خریدا پھر بیچا اس طرح سے میرے پاس کچھ مقدار میں پیسے جمع ہوگئے اور میں نے مزید پیسے ملا کر دوکان خریدی ہے۔ آج سے بارہ سال پہلے کسی نے مجھے خبردار کیا کہ بانڈز کا لین دین ناجائز ہے۔ تو میں نے اس دن سے بانڈز کا لین دین چھوڑ دیا ہے، لیکن مجھے بے چینی ہے کہ ان دونوں مکان سے جو کرایہ ملتا ہے آیا وہ میرے لیے جائز ہوگا یا نہیں؟ اگر جواب جائز کی صورت میں ہے تو کتنی مقدار میں میرے لیے جائز ہوگا؟
واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی بانڈز کی بنیاد سود پر ہوتی ہے، اس لیے اس میں حصہ لینا جائز نہیں،اور مذکورہ دونوں مکان میں اپنی رقم اور انعامی بانڈز سے حاصل ہونے والی آمدنی سے خریدے گئے ہیں،لہٰذا اس کے تناسب سے حساب لگا کر کرایہ کا حکم معلوم ہوگا۔لما في التنزیل العزیز:
یاأیھا الذین آمنوا اتقواللہ وذروا ما بقي من الربا إن کنتم مؤمنین (سورۃ البقرۃ:278)
وفیہ أیضاً:
إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ.....(سورۃ المائدۃ:90)
وفي روح المعاني:
’’عن ابن عباس رضي اللہ عنہما ’’المیسر‘‘ وھو القمار‘‘.(15/7،دار إحیاء التراث العربي)
وفي إعلاء السنن:
’’عن علي رضي اللہ عنہ مرفوعا، قال: کل قرض جر منفعۃ فھو ربا، وکل قرض شرط فیہ الزیادۃ فھو حرام‘‘. (کتاب الحوالۃ، باب کل قرض جر منفعۃ فھو ربا: 499/9، إدارۃ القرآن).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/175