بیماری کے دنوں کی تنخواہ کا حکم

بیماری کے دنوں کی تنخواہ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے مدرسے میں ایک مدرس ہیں جو کہ عرصہ دراز تقریبا26 سال سے اس مدرسے میں حفظ کی تدریس میں مصروف ہیں، گزشتہ سال سے ان کی طبیعت کافی ناساز ہے، ان کی آنکھوں کی بینائی بھی کافی کمزور ہوگئی، جس کی وجہ سے تدریس کا کام بہت متأثر ہوگیا، اب موصوف کی نوعیت یہ ہے کہ گزشتہ پانچ ماہ سے مدرسے میں بالکل حاضری نہیں دے رہے، اب ایسے استاد کو ادارہ مستقل تنخواہ دے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

اگر وہ بیماری کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اب مزید صحت کی امید نہیں، اور اس بیماری میں ان کا پڑھانا مدرسے کے لیے مفید بھی نہیں، تو ادب و احترام سے ان سے معذرت کرلی جائے، اگر مدرسہ کے کسی اور کام میں ان سے فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ کام دے کر اس کا معقول معاوضہ طے کرلیا جائے، اور اگر بیماری عارضی ہے تو انتظامیہ کی طرف سے تقرری کے وقت بیماری کے دنوں کی تنخواہ دینے کی وضاحت کی گئی ہو، تو دینا درست ہے ، لیکن اگر ادارے کے ضوابط میں اس کی وضاحت نہیں کی گئی ، تو علاقے میں دیگر مدارس کے طریق کار پر عمل کریں گے، جہاں پر ایسے دنوں کی تنخواہ دینے کا عرف ہو، تو دینا جائز ہے،وگر نہ نہیں البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ انتظامیہ والے تنخواہ کے بجائے کسی دوسری مد میں قاری صاحب کے ساتھ تعاون کردیا کریں۔
لما في الدر المختار:
’’قولہ: (وینبغي إلحاقہ ببطالۃ القاضي إلخ) قال في الأشباہ: وقد اختلفوا أخذ القاضي ما رتب لہ في بیت المال في یوم بطالتہ، فقال في المحیط: إنہ یأخذ لأنہ یستریح للیوم الثاني وقیل لا. ۱ھـ. وفي المنیۃ القاضي یستحق الکفایۃ من بیت المال في یوم البطالۃ في الأصح، وفي الوھبانیۃ أنہ أظھر فینبغي أن یکون کذلک في المدرس؛ لأن یوم البطالۃ للاستراحۃ، وفي الحقیقۃ تکون للمطالعۃ والتحریر عند ذوي الھمۃ، ولکن تعارف الفقھاء في زماننا بطالۃ طویلۃ أدت إلی أن صار الغالب البطالۃ، وأیام التدریس قلیلۃ.۱ھ.وردہ البیري بما في القنیۃ إن کان الواقف قدر للدرس لکل یوم مبلغا فلم یدرس یوم الجمعۃ أو الثلاثاء لایحل لہ أن یأخذ ویصرف أجر ھذین الیومین إلی مصارف المدرسۃ من المرمۃ وغیرھا بخلاف ما إذا لم یقدر لکل یوم مبلغا، فإنہ یحل لہ الأخذ وإن لم یدرس فیھما للعرف، بخلاف غیرھما من أیام الأسبوع حیث لایحل لہ أخذ الأجر عن یوم لم یدرس فیہ مطلقا سواء قدر لہ أجر کل یوم أو لا.۱ھ. ط قلت: ھذا ظاھر فیما إذا قدر لکل یوم درس فیہ مبلغا أما لو قال یعطی المدرس کل یوم کذا فینبغي أن یعطی لیوم البطالۃ المتعارفۃ بقرینۃ ما ذکرہ في مقابلہ من البناء علی العرف، فحیث کانت البطالۃ المتعارفۃ بقرینۃ ما ذکرہ في مقابلہ من البناء علی العرف، فحیث کانت البطالۃ معروفۃ في یوم الثلاثاء والجمعۃ وفي رمضان والعیدین یحل الأخذ، وکذا لو بطل في یوم غیر معتاد لتحریر درس إلا إذا نص الواقف علی تقیید الدفع بالیوم الذي یدرس فیہ کما قلنا. وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانیۃ قال الفقیہ أبو اللیث‘‘. (مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ:305/4، سعیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/292