سال گرہ کی شرعی حیثیت

سال گرہ کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اﷲ تعالی کی خوشنودی، اس کی رضا اور شکر گزاری کے لیے اور مزید آنے والی زندگی میں خوش حالی کے لیے دعاؤں وقرآن خوانی کا اہتمام کیا ،جس میں عزیز واقارب کو کھانے کی دعوت دی اور اس پروگرام کو ۲۵ ویں سال گرہ کا نام دیا گیا اور کیک کاٹ کر مہمانوں کو پیش کیا گیا اور ثواب کی نیت رکھی گئی، کیا اس طرح کی تقاریب اور پروگرام صحیح ہیں؟ہماری رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ( خوشی اور غمی کے) موقع پر ایسا عمل کرے ،جس پر اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہو ، لیکن یہ ضروری ہےکہ پہلے یہ معلوم ہو کہ کس کام پر اﷲ تعالی راضی اور کس پر ناراض ہوتے ہیں؟ قرآن کریم کی بے شمار آیات مبارکہ بالکل واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اﷲ کی رضا صرف اور صرف ان کے رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتباع میں ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :” آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ( لوگوں سے ) فرما دیجیے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو توتم لوگ میری اتباع کرو، خدا تعالی تم سے محبت کریں گے او رتمہارے گناہوں کو معاف کر دیں گے اور اﷲ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ (سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر۳۱)

دوسری جگہ ارشاد باری ہے : جس نے اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔ ( سورۃ النساء، آیت نمبر ۸۰)

سال گرہ کی تقریب منعقد کرنا نہ تو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی خیرالقرون میں کسی صحابی، تابعی، تبع تابعی، ائمہ اربع، فقہا ءاور محدثین سے؛بلکہ یہ بعد کی ایجاد شدہ ایک رسم ہے اور اب بہت سے لوگ مذکورہ رسم کو اہتمام سے ادا کرتے ہیں،شریعت مطہرہ میں اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے، بلکہ آپ نے تو اس کو رضائے الہی سمجھ کر بدعت کی حد میں داخل کر دیا جو کہ سخت گنا ہ ہے۔

جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اما بعد ، تمام باتوں میں سے بہترین بات کتاب اﷲ ہےاورسیرتوں میں سب سے بہترین سیرت (جناب) محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہے اور سب سے بری چیز بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔( مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ص:۲۷، قدیمی)

لہٰذا آپ کو چاہیے کہ ان جیسی ناجائز رسموں سے خود بھی بچنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بچانے کی بھی کوشش کریں، اﷲتعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق فرمائیں۔ آمین

قال اﷲ تعالیٰ:(قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْم). (سورۃ آل عمران:٣١)
(مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ). سورۃ النسآء:٨٠)

'' وھذہ الافعال کلھا للسمعۃ والریا ء فیحترز عنھا؛ لأنھم لا یریدون وجہ اﷲ تعالیٰ. ( رد الحتار: مطلب فی کراہیۃ الضیافۃ من اھل المیت ٢/٢٤١، سعید)

''وعن جابر - رضی اللہ عنہ - ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - أمَّا بَعْدُ ، فَإنَّ خَیْرَ الحَدیثِ کِتَابُ اللہ ، وَخَیرَ الہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ - صلی اللہ علیہ وسلم - ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا ، وَکُلَّ بِدْعَۃ ضَلالَۃ.'' (مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ١/٢٧، قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی