نماز میں بھولنے پر امام کو لقمہ دینے کا حکم

نماز میں بھولنے پر امام کو لقمہ دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مقتدی نے اپنے امام کو نماز میں بھولنے پر لقمہ دیا اور امام نے لقمہ لیے بغیر دوسری جگہ سے قرأت شروع کردی، کیا اس مقتدی کی نماز ٹوٹ جائے گی؟ کیا مقتدی کی قرأت ،قرأت خلف الامام کے حکم میں نہیں آئے گی؟ جب کہ عند الاحناف قرأت خلف الامام حرام ہے۔
بندہ نے ایک جگہ پڑھا کہ اس سے مقتدی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے، کیوں کہ جب امام نے اس کا لقمہ نہیں لیا تو وہ بغیر ضرورت کے ہوگیا، اس لیے کہ لقمہ کی اجازت نماز میں ایک ضرورت کی وجہ سے ہے اور جب ضرورت ختم  ہوگئی تو حکم بھی ختم  ہوگیا۔

جواب

صورت مسئولہ میں مقتدی کا اپنے امام کو لقمہ دینے سے اس کی نماز فاسد نہیں ہوئی۔
اگر مقتدی لقمہ دینے سے تلاوت کی نیت نہ کرے، بلکہ لقمہ ہی کی نیت کرے تو یہ قرأت خلف الامام کے حکم میں نہیں ہے۔
لما في حاشیۃ الطحطاوي:
’’ویفسدھا فتحہ أي المصلي علی غیر إمامہ لتعلیمہ بلا ضرورۃ وفتحہ علی إمامہ جائز ولو قرأ المفروض أو انتقل لآیۃ أخری علی الصحیح لإصلاح صلاتھما‘‘.
’’قولہ: (وفتحہ علی إمامہ جائز) لما روي أنہ صلی اللہ علیہ وسلم: قرأ في الصلاۃ سورۃ المؤمنین، فترک کلمۃ فلما فرغ ،قال: ألم یکن فیکم أبي قال: بلی، قال: ھلا فتحت علي ،قال: ظننت أنھا نسخت، فقال صلی اللہ علیہ وسلم: لو نسخت لأعلمتکم ،وقال: إذا استطعمک الإمام، فأطعمہ أي: إذا استفتحک الإمام، فافتح علیہ، والصحیح أنہ ینوي الفتح دون التلاوۃ؛ لأن الفتح مرخص فیہ وقراء ۃ المقتدي محظورۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، ص: 333،334: قدیمي).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/326