بغیر داڑھی والے آدمی کو مستقل امام بنانے کا حکم

بغیر داڑھی والے آدمی کو مستقل امام بنانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ بغیر داڑھی والا شخص یعنی جس کی داڑھی نہ ہو، اس کو مستقل امام بننا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر مذکورہ شخص کی داڑھی نابالغ ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، تو اس کوامام بنانا ہی جائز نہیں، اور اگر کوئی شخص داڑھی منڈواتا ہے تو چونکہ یہ شخص فاسق ہے، اس لیے اس کو مستقل امام بنانا جائز نہیں، اور اگر کسی بالغ شخص کی داڑھی نہ آئی ہو، تو اس کو مستقل امام بناسکتے ہیں، البتہ اگر وہ نو عمر اور خوب رو ہے تو اسے امام بنانا مکروہ تنزیہی ہے۔
لما في رد المحتار:
’’(قولہ:وفاسق) من الفسق: وھو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، کذا في البرجندي إسماعیل.
وفي المعراج قال أصحابنا:لا ینبغي أن یقتدي بالفاسق إلا في الجمعۃ لأنہ في غیرھا یجد إماما غیرہ اہـ. قال في الفتح: وعلیہ فیکرہ في الجمعۃ إذا تعددت إقامتھا في المصر علی قول محمد المفتی بہ لأنہ بسبیل إلی التحول‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد:355/2: رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’(قولہ:وکذا تکرہ خلف أمرد) الظاھر أنھا تنزیھیۃ أیضا، والظاھر أیضا کما قال الرحمتي:أن المراد بہ الصببیح الوجہ لأنہ محل الفتنۃ، وھل یقال ھنا أیضا: إذا کان أعلم القوم تنتفي الکراھۃ، فإن کانت علۃ الکراھۃ خشیۃ الشھوۃ وھو الأظھر فلا، وإن کانت غلبۃ الجہل أو نفرۃ الناس من الصلاۃ خلفہ فنعم فتأمل، والظاھر أن ذا العذار الصببیح المشتھی کالأمرد تأمل ھذا، وفي حاشیۃ المدني عن الفتاوی العفیفیۃ: سئل العلامۃ الشیخ عبد الرحمن بن عیسی المرشدي عن شخص بلغ من السن عشرین سنۃ، وتجاوز حد الإنبات، ولم ینبت عذارہ، فھل یخرج بذلک عن حد الأمردیۃ، وخصوصا وقد نبت لہ شعرات في ذقنہ تؤذن بأنہ لیس من مستدیري اللحی، فھل حکمہ في الإمامۃ کالرجال الکاملین أم لا أجاب: سئل العلامۃ الشیخ أحمد بن یونس المعروف بابن الشلبي من متأخري علماء الحنفیۃ عن ھذہ المسألۃ، فأجاب بالجواز من غیر کراھۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد:359/2:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/112