نظام اسلامی سے جمہوریت کا ٹکراو

idara letterhead universal2c

نظام اسلامی سے جمہوریت کا ٹکراو

محمد شاہ نواز عالم قاسمی

روئے زمین پر جتنے نظام پائے جاتے ہیں وہ اپنے نصب العین اور دعاوی کے لحاظ سے مکمل ہوا کرتے ہیں، جس سے مراد یہ ہے کہ اس نظام سلطنت کی بنیاد، کسی اصول طراز کی فکر پر قائم ہوتی ہے اور اسی فکر کے مطابق نظامِ سلطنت کی توسیع وتکمیل ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر اصول طرازوں اور سیاست دانوں نے کسی ایک پہلو کو دوسرے پہلو پر فوقیت دے کر اُسے ہی کل مان لینے پر اصرار کیا ہے؛ چوں کہ ایسے بے شمار سیاسی نظریے وجود میں آئے ہیں جن میں کبھی تو سیاسی عمل پر عقل انسانی کے اثرات کا پورے شد ومد کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور کبھی اس کے بالکل برعکس کہ سیاست و سیادت میں انسانی عقل کا کوئی حصہ نہیں، بلکہ یہ چیز بعض قوموں کا ذاتی ورثہ ہے، جو ازل سے انہی کے لیے ہے اور اس باب میں انہی کی رہ نمائی قابل قبول ہوتی ہے۔ سیاست اور نظام کے باب میں یہی بنیادی نقطہ نظر ہے، جو کمیونزم، سوشلزم، ریشنلزم، کمرشیلائزیشن، سیکولرائزیشن، ڈیموکریسی اور نظام اسلامی کے مابین حد فاصل ہے۔

جمہوریت کا آغاز ونظام

مشہور انقلاب فرانس کے بعد، جو یورپ میں حریت وجمہوریت کے مذبح کی سب سے بڑی اور آخری قربانی تھی، موجودہ جمہوریت کا وجود عمل میں آیا۔ ”تاریخ انقلاب تمدن“ کے مصنف اور مشہور مؤرخ ”حال“ کا یہی خیال ہے۔

ابتداء ً اُس کے اساس اولین پانچ قرار پائے، لیکن ان کے تجزیے کے بعد ایک اصول باقی رہتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ قوتِ حکم وارادہ افراد واشخاص کے ہاتھ میں نہ ہو اور دوسرے لفظوں میں اس اصول کو نفی حکم ذاتی ومطلق کا بھی نام دیا جا سکتا ہے۔

مبادیٴ حریت

اس سے قبل نظامِ حکومت کا کوئی قانون مرتب نہیں ہوا تھا، انقلاب فرانس کے بعد فرانس کا دستور مملکت مرتب کرنے کے لیے ایک قانون ساز کونسل قائم کی گئی، جس میں قوانین وضع کرنے سے قبل بطور مبادی دستور حریت کے چند دفعات مرتب کیے گئے، جنہیں جملہ قوانین کی اصل الاصول قرار دیا جاتا ہے۔ ان اصولوں کا خلاصہ یہ تھا: انسان آزاد پیدا ہوتا ہے اور آزادی ہی کے لیے زندہ رہتا ہے، تمام انسان بلحاظ حقوق مساوی ہیں اور حقوقِ طبعی پانچ ہیں: حریت، تملک، امن، مقاومت اور قانون ارادہٴ عامہ کا مظہر ہے؛ اس لیے ملک کے ہر باشندے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وکلاء کے توسط سے مجلس اعلیٰ میں شرکت کرے، ہر وطنی بلحاظ وطنی ہونے کے یکساں حکم سے موٴثر ہو، اس بنا پر ہر شخص کو حسب قدرت وصلاحیت بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ کسی انسان کے لیے کسی حالت میں دوسرے انسان کو قیدی بنانے کی اجازت نہیں! بلکہ اس طرح کے ہر رویے سے گریزاں رہے، البتہ قانون کی مقرر کردہ صورتوں میں اس کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کسی شخص کے لیے روا نہیں کہ وہ دوسرے کو رائے کے اظہار سے روکے، گو وہ رائے دین اور عام اعتقادیات کے خلاف ہو۔ ملک کے ہر باشندے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے وفکر کے مطابق گفتگو کرے، لکھے، پڑھے اور چھاپے۔

حقِ تملک ایک مقدس حق ہے، کوئی شخص اسے سلب نہیں کر سکتا، تاہم مفاداتِ عامہ سب پر مقدم ہیں، لیکن اس کے لیے بھی جب تک قانونی صورت نہ ہو، کسی کو اپنی ملکیت سے دست بردار ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ تحریکِ انقلاب کے مقاصد میں یہ بھی تھا کہ حقِ حکم وتسلط اشخاص کو نہیں، بلکہ ہر فرد بشر کو حاصل ہے کہ وہ حریت سے لطف اندوز ہو اور مامون ومحفوظ رہے۔ اسی وطنی حریت کوفرانسیسی قوم کے مرض کی شفا قرار دیا گیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ موجودہ جمہوریت کا مبدا سعادت قانون ساز کونسل کا یہی اعلان تھا، جسے تاریخ میں ”اعلان حقوق انسانی“ کے محترم لقب سے نوازا گیا ہے۔

موجودہ جمہوریت کے محل کے اہم نکات

جمہوری طرز حکومت طریقہٴ انتخاب پر مبنی ہے اور موجودہ جمہوریت سے مراد ایسا نظام حکومت ہے جس میں آمریت مطلقہ اور اقتدار ذاتی کی جگہ قوت واقتدار کے تمام عہدے ملک کی عوامی جماعتوں کو حاصل ہوں، حکومت کے کسی ادارے میں وراثت وجانشینی اور ولی عہدی کے قدیم دقیانوسی طرز حکومت کا عمل دخل نہ ہو، بلکہ ملک کی عوامی جماعتوں کو یہ حق حاصل ہو کہ ملک کی جو جماعت قومی وملکی پروگرام کے موافق ہو اس کو اپنے ووٹوں کے ذریعے منتخب فرما کر حکومت کی گدی پر بٹھا دیں اور اپنی مرضی کے مطابق وہ اسے استعمال کریں اور اپنی منشا کے موافق مجلس تشریعی وتنفیذی میں اپنے نمائندہ کو روانہ کرسکیں، نیز اس حکومت کے تمام باشندے جملہ حقوق کے حوالے سے، خواہ وہ اقتصادیات سے متعلق ہوں یا معاشرت سے، مساوی تصور کیے جاتے ہیں، ملکی اور شہری تمام امور میں اپنی صلاحیت کے مطابق ہر باشندے کو ترقی کے حصول اور سیاسی اعتبار سے اعلیٰ عہدوں تک رسائی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، یہ امور ”حریت اجتماع“ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

حریتِ فکر اور آزادیٴ صحافت بھی اس جمہوری طرز حکومت میں ہر عام شہری کو حاصل ہوتی ہے، ملکی خزانہ کسی مخصوص شخص کی ملکیت نہیں ہوتا ہے، بلکہ پورے طور پر عوام ہی اس کی مالک ہوتی ہے، اس خزانے کے اموال امن وسلامتی کے قیام، قوم وملت کے دفاع، ملک کے نظم ونسق اور عوام کی صلاح وفلاح کے لیے صرف ہونے چاہییں۔ یہ ہیں وہ بنیادی نکات جن پر جمہوریت کے محل کی تعمیر ہوئی ہے۔

موجودہ جمہوریت کے اہم فرائض

حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کو جس زندگی کی جستجو ہے اس سے وہ تاہنوز محروم ہے، وہ آخری منزل مقصود جہاں اسے پہنچنا ہے، کوسوں دور ہے اور حیات انسانی کا اصل مرض اس کے رگ وریشے میں ابھی بھی سرایت کیے ہوئے ہے، خوش فہم لوگ لاکھ کہیں کہ ہم نے انسانیت کے دکھ کا علاج پالیا ہے، تاہم در حقیقت جس کو وہ علاج تصور کر رہے ہیں، خود ایک مستقل مرض ہے اور جس کو وہ مسیحا گردان رہے ہیں وہ فرشتہ موت ہے، موجودہ جمہوریت میں اس قدر نقائص ہیں کہ اگرانہیں یکجا کر دیا جائے تو آمریت وملوکیت کا نمایاں فرق باقی نہیں رہتا، زیادہ سے زیادہ عنوان اور لیبل کا فرق ہو سکتا ہے، گویا جمہوریت وملوکیت ایک حقیقت کے دو عنوان ہیں، ہم ذیل میں ان خرابیوں کی قدرے تفصیل بیان کریں گے۔

(1) موجودہ نظام سیاست کی بنیاد ہی اس غیر فطری تصور پر قائم ہے کہ ایک انسان کو دوسرے پر یا سب سے بڑی جماعت کو چھوٹی جماعت پر حکم رانی کا حق حاصل ہو، یہی وہ بنیادی فرق ہے جو انسانی معاشرہ کے تمام مفاسد کی جڑ ہے۔ انسانی فطرت اس سے انکار کرتی ہے کہ وہ اپنی جنس کے افراد کی غلامی اختیار کرے، خواہ یہ حکم رانی تسلط شخصی و استبداد ذاتی کی شکل میں ہو یا جمہوریت کے روپ میں۔

(2) ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے، جس کی بنیاد اخلاقی اور مابعد الطبیعی تصورات پر قائم ہو؛ کیوں کہ یہی چیز حیات انسانی کے لیے اصل روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی سے زندگی کے منتشر اجزا میں ربط پیدا ہو سکتا ہے اور عالم گیر اضطراب وبے چینی کو دور کیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ دیگر کسی نظام کے ذریعہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا، چوں کہ دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدار کو کوئی جگہ نہیں ملی ہے، اس لیے موجودہ جمہوریت میں منتخب ہونے والے نمائندوں کے لیے کوئی اخلاقی معیار مقرر نہیں ہیں اور آج نمائندگی کا اہل اس شخص کو تصور کیا جاتا ہے جو سب سے زیادہ زمانہ ساز، ڈپلومیٹک، لسّان اور چرب زبان ہو، گو اس کے اخلاق وکیریکٹر کتنے ہی گرے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسے نمائندوں سے انسانیت کے اہم مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ کہ از مغز دوصد خر، فکرِ انسانی نمی آید۔

(3) جمہوری آئین کو وطنیت و قومیت کے دائرے میں محدود کر دیا گیا ہے، اسے ہمہ گیر یونیورسل حیثیت حاصل نہیں ہے، اس لیے وہ صرف اپنے ملک کے اصل باشندوں کے حق میں تو مفید ہوسکتا ہے، تاہم آبادی کا وہ حصہ جو غیر ملکی کہلاتا ہے اس کے فیوض وثمرات سے بالکلیہ محروم ہے۔

(4) موجودہ جمہوریت کا دارو مدار جماعتی طرز فکر، جماعتی کردار اور جماعتی نظریہ سیاست پر ہے، ملک میں اگر دو یا دو سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں تو ہر جماعت کا نمائندہ اپنے مخصوص جماعتی طرز پر سوچتا ہے اور جماعت سے وفاداری یا عصبیت کی بنیاد پر ہر بات میں اس کی حمایت کرتا ہے، خواہ وہ بات کتنی ہی غلط اور غیر منصفانہ کیوں نہ ہو، اس لیے کہ ہر جماعت کا اپنا ایک نصب العین ہوتا ہے۔ پارٹی کے ہر رکن کو جائز یا نا جائز ہر اعتبار سے ہر محاذ پر اور ہر راہ پر اس کی منھ بھرائی کرنی پڑتی ہے۔

(5) اس طرز حکومت میں اتھارٹی ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور مختلف جماعتوں میں جس کی اکثریت ہوتی ہے وہی بااقتدار ہو کر زمام کار سنبھالتی ہے۔ آئین کی رو سے اکثریت کا ہر فیصلہ جائز تصور کیا جاتا ہے، خواہ وہ کتنا ہی بے رحمانہ اور ظالمانہ ہو اور وہ جائز یا ناجائز ہر طریقے سے اقلیتوں پر اپنا تسلط جمائے رکھتی ہے۔

(6) موجودہ نظام جمہوریت میں نمائندگی کے لیے افراد اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، جس کا حریت عامہ پر نہایت خطرناک اور غلط اثر پڑتا ہے، ان میں سے ہر شخص ترغیب وترہیب کے ذرائع اختیار کرتا ہے اور بسا اوقات عوام خوف یا طمع کی وجہ سے رائے دہی پر مجبور ہوتے ہیں، اس طرح عوام کی آزادی فکر کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ صحیح نمائندہ منتخب نہیں کر پاتے ہیں۔

(7) نمائندگی کی طرح، رائے دہندگی کے لیے بھی کوئی اخلاقی معیار مقرر نہیں، بلکہ اس کا معیار ٹیکس اور لگان کی حد تک محدود در ہتا ہے اور ہر جماعت اپنی نمائندگی کے لیے ایسے شخص کو منتخب کرتی ہے جو اس کے مفاد اور زاویہ نظر کی رہبری کا فریضہ انجام دے، خواہ وہ کتنا ہی غلط ہو اور زیادہ سے زیادہ اپنی جماعت کی ہم نوائی کرنے والا شخص ہی منتخب ہوتا ہے۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ تعلیمی، تجارتی اور معالجاتی امور میں صداقت ودیانت داری کا امتحان لیا جاتا ہے، مگر جہاں پوری قوم کے نفع وضرر کا سوال ہے وہاں نمائندگی کے لیے نہ کوئی اخلاقی معیار مقرر ہے اور نہ رائے دہندگی کے لیے وقار پرکھنے کا کوئی ذریعہ۔

(8) موجودہ طریق انتخاب سے منتخب ہونے والے شخص کو ایک مدت تک کے لیے بالکلیہ آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے اور رائے دہندگان کو اس کے عزل وبرطرفی کا کوئی اختیار نہیں، گویا وہ طوعاً وکرہاً اتنی مدت تک اس کی قیادت تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، خواہ وہ اس کا اہل نہ رہ گیا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوام سے نمائندہ اسی وقت تک ربط وتعلق اور میل جول برقرار رکھتا ہے جب تک وہ ان سے ووٹ حاصل کرتا رہتا ہے، منتخب ہونے کے بعد وہ ہر طرح مطمئن ہو گیا اور رائے دہندگان کی خواہشات کا مطلقاً پاس لحاظ نہیں ہوتا ہے۔

جمہوریت وملوکیت، ایک عنوان کی دو فرع

نظام جمہوریت کے پیچھے کوئی اخلاقی تعلیم یا کوئی ایسی شریعت نہیں ہے جو اس کو حدود اور مقرر کردہ ضابطے میں رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت اپنے حدود سے متجاوز ہوکر ملوکیت وآمریت کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ چناں چہ جناب اسرار عالم صاحب جمہوریت کے عملی نقشے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:
”ڈیما کرائزیشن (جمہوریت) سیکولر کرنے کی وہ کوشش ہے، جو بظاہر لوگوں کو اظہار رائے کا حق دے کر جاتی ہے، لیکن جس کے پس پردہ دراصل امت کے ذہین اور صالح دماغوں کو بے دخل کرنا ہوتا ہے، چند سیکولر دماغ پوری آبادی کو اس کے ذریعے اغوا کر کے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ جہاں یہ طریقہ ان کے خلاف جاتا ہے تو اسے آمرانہ طریقے سے کچل دیتے ہیں، اس وقت انہیں جمہوریت کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ (عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال، ص: 241)

مذکورہ بالا تجزیہ درحقیقت جمہوریت کی عملی تشریح ہے، جو اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ جمہوریت اور ملوکیت کے درمیان کوئی نمایاں فرق نہیں پایا جاتا، زیادہ سے زیادہ لیبل کا فرق ہو سکتا ہے، یعنی ایک عنوان کی دو فرعیں۔ جمہوریت کی اس تشریح کے بعد یہ بات بالکلیہ واضح ہو جاتی ہے کہ نظام اسلامی کے ساتھ جمہوریت کی ہم آہنگی کسی شکل میں نہیں ہوسکتی۔

جمہوریت اور ریشنلزم اسلامی نظریے کے مخالف

نظام اسلامی اور جمہوریت کے درمیان قدرے اشتراک اس امر میں ضرور ہے کہ ان دونوں نظام ہائے سلطنت نے شخصی اور وراثتی سلطنت کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں اہم کردار ادا کیے ہیں، لیکن اس ادنی سی مناسبت کی وجہ سے ان دونوں نظام ہائے سلطنت کے اصولی وفروعی آپسی تناقض سے چشم پوشی کرنا کسی اعتبار سے بھی معقول نہیں۔ چوں کہ نظریے کے کسی بھی باب میں اتفاق کا لفظ اسی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب کہ کم از کم ان دونوں نظریات کے بنیادی اصول واغراض میں اتفاق ممکن ہو، حالاں کہ جمہوریت اور اسلامی نظام کے بنیادی نظریے میں زمین وآسمان کا فرق ہے؛ کیوں کہ حکومت اسلامی مسلمانوں کے ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور اسلامی مقاصد کو بروئے کار لانے کی ضامن ہے، جب کہ جمہوریت کے پس پردہ کوئی ایسی طاقت نہیں پائی جاتی جو ایسے مقاصد کو درجہ فعلیت میں لانے کی ضمانت دے سکے اور اگر کوئی طاقت ہے تو وہ ریشنلزم یا تعلقیت کی ہے۔جس کی ایک فرع جمہوریت ہے۔ ریشنلزم کی حقیقت سے متعلق جناب اسرار عالم صاحب ”انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی“ کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

”ریشنلزم، خیالات کے مختلف زاویہ ہائے نظر اور تحریکات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کی حقیقی صداقتوں کو گرفت میں لینے کے لیے ایک استخراجی عقل کی قوت ضروری یا کافی ہے۔

یہ دراصل ایک نقطہٴ نظر ہے جو مذہب میں عقل کو اتھارٹی مانتا ہے اور ان تمام عقائد ونظریات کو رد کرتا ہے جو عقل کے مطابق نہ پائے جائیں، لیکن اس لفظ کی موجودہ صورت دو معنوں کو محیط ہے: پہلا مفہوم اوپر ذکر ہو چکا ہے، جب کہ دوسرا اس کی وہ صورت گری ہے جو انیسویں صدی کے یورپ میں سامنے آئی، جو سر تا سر مذہب کو ڈھانے والی تھی“۔ (عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال، ص 54)

ظاہر ہے کہ اصل اور سر چشمے کی صورت یہ ہے تو اس پر قائم ہونے والی جمہوریت ان بنیادی کم زوریوں سے کیوں کر پاک ہوسکتی ہے؟ یقیناً جمہوریت بھی الٰہیاتی تصور کھوکر بین الاقوامی بدامنی میں تبدیل ہو جائے گی، پھر جمہوریت کا نظام اسلامی کے موافق ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اسلام کا تصور حاکمیت

حاکمیت کے باب میں اسلام کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان پر کسی طرح حکم رانی کا کوئی حق حاصل نہیں، اقتدار وحکومت، جاہ ومنصب اور قانون سازی کا اختیار صرف اور صرف احکم الحاکمین کو ہے اور خدائی کاموں میں دخل اندازی انسانی منصب کے قطعی منافی ہے۔ قرآن کریم میں ﴿إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلّٰہ﴾ کا واضح حکم موجود ہے۔ البتہ حکومت کا نظم ونسق سنبھالنے کے لیے زمین میں ایک نائب جماعت سرگرم عمل ہے، اس کی حیثیت فقط ایک مزدور کی ہے، جو آقا کی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف کار ہے، زندگی کے ہر شعبے میں اس کے طور طریقے معیاری حیثیت کے حامل ہیں، جس سے اس کو تمکن فی الارض کا منصب حاصل ہوتا ہے، اس کو کسی طرح قانون میں ترمیم و تنسیخ اور رد وبدل کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا، وہ جماعت اس قانون کو اصلی شکل میں نافذ کرتی ہے اور خود بھی سختی سے اس پر کاربند رہتی ہے، اس کا ہر آئین، ہر قانون و ہر دستور غیر متبدل ہے، بلکہ دائمی وپائیدار حیثیت کا حامل ہے، محض حسن ظن کی بنا پر نہیں، بلکہ واقعات وشواہد کی بنیاد پر اس پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے، اسلامی نظریہٴ حیات ہی زندگی کی تمام مشکلات کو حل کر سکتا ہے اور مسلمان اسی فلسفہٴ زندگی کا کردار ہے اور اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے نوع انسانی کی قیادت کر سکے۔

قرآن کریم کی آیت ﴿وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمُ أُمَّةً وَسَطاً﴾ میں وسط کے لفظ سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ امت مسلمہ اقوام عالم کے لیے مرکز اور وسط حقیقی کی حیثیت رکھتی ہے اور ساری کائنات اس کے گرد چکر کاٹتی ہے، اسی طرح ”شھید“ کا لفظ بھی بتا رہا ہے کہ موٴمنین کی جماعت، عالم انسانی کے لیے گواہ اور نگراں ہے اور سوسائٹی میں نظم وضبط کا قیام، شاہ وگدا اور گورے وکالے میں مجلس مشاورت کا قیام اور تمام اخلاقی وجنسی خرابیوں کی اصلاح اس کا فریضہ قرار دیا گیا ہے، دوسری اقوام وملل کی قیادت وسیادت کے خاتمے کے بعد امامت ورہبری کی ذمہ داری اسی امت کے کندھے پر ڈالی گئی ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس مضمون کی نہایت تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔

امارت و خلافت کا معیار

قرآن کریم میں حق جل مجدہ کا یہ ارشاد موجود ہے: ﴿الَّذِینَ إِنْ مَکَّنّٰہُمْ فِی الأَرض… الآیة﴾، ﴿إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتقکُمُ﴾، ان آیات کریمہ میں تمام شرائط امارت وخلافت کی طرف بالا جمال اشارہ کر دیا ہے۔ اقامت صلاة، ایتائے زکاة اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں تمام انفرادی واجتماعی فرائض شامل ہیں۔ امر بالمعروف کے لیے قرآن کریم کا مکمل فہم اور احکام ومسائل کا علم بہ ہر صورت لازم ہے، اسی طرح یہ فریضہ اس وقت تک پایہٴ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ قوت مقتدرہ اور اعدائے دین سے مقابلے کے لیے پوری صلاحیت ولیاقت موجود نہ ہو، امر بالمعروف قرآن کریم کی ایسی جامع اور مکمل اصطلاح ہے جس کا اطلاق زندگی کے ہر گوشے پر ہوتا ہے، مگر اخلاقی قیود واقدار پر ان کا اطلاق زیادہ بین وواضح ہے، اس لیے آمر کا بذات خود اس اخلاق اور شاندار کردار کا حامل ہونالازم ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ نظام ہائے سیاست میں اخلاق وکردار کی بلندی، سیرت کی پاکیزگی اور شیریں اخلاقی کو بعید گوشے میں جگہ حاصل نہیں ہے اور نہ ان کو ایمان باللہ اور مرنے کے بعد کی زندگی کے محاسبہٴ اعمال کے تصور سے کوئی نسبت۔

حاکمیت وخلافت کا فرق

یہ دو مختلف چیزیں ہیں، حاکمیت کے باب میں ضروری ہے کہ اپنے احکام دوسروں پر لاگو کیے جائیں، مگر خلافت سے مراد نیابت وجانشینی ہے، جن احکام کو خلیفہ دوسروں پر نافذ کرتا ہے وہ خود بھی ان کا مکلف ہوتا ہے اور اس کے لیے اپنے اوپر ان کا نفاذ ضروری ہوتا ہے، اس لحاظ سے خلیفہ خدا کی نیابت کے فرائض انجام دیتا ہے، اس کی حیثیت صرف ایک امین کی ہوتی ہے، اس کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ عدل وانصاف اور مساوات عامہ کی شکلوں کو عالم کے رو برو پیش کر ے اور یہ واضح کرتا ہے کہ انسانیت کے لحاظ سے تمام افراد بشر برابر ہیں، چناں چہ حدیث میں آیا ہے: کلکم بنو آدم وآدم من تراب، اسی طرح حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو نہایت واضح لفظوں میں بیان کیا ہے: ألا، وإنّي لم أبعثکم أمراء ولا جبارین، ولکن بعثتکم أئمة الہدی یہتدی بکم، ولا تغلقوا الأبواب دونہم؛ فیأکل قویُّہُمْ ضعیفہم.

نظام اسلامی کا تصور احتساب

نمائندہ کے منتخب کیے جانے کے سلسلے میں نظام اسلامی کا مزاج جمہوری طرز سے کہیں اعلیٰ ہے، جس کی قدرے تفصیل مولانا سید اکبر شاہ نجیب آبادی یوں بیان کرتے ہیں:

”تمام سمجھ دار لوگ اپنے اندر سے کسی ایک شخص کو منتخب کر کے اپنا امیر اور قانون نافذ کرنے کا انتظام کر لیں۔ اس امیر کے منتخب ہونے کے بعد انہیں شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں، لیکن ایسے اختیارات حاصل نہیں ہو سکتے کہ وہ مسئول نہ ہو سکے، بلکہ وہ قانون یعنی شریعت کے قائم کردہ اصولوں اور حکموں کے ماتحت ملک وقوم میں امن وانتظام قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ہر شخص اس کو کوئی خلاف قانون کام کرتے ہوئے دیکھ کر روک ٹوک سکتا ہے اور ہر معاملے میں اس سے جواب طلب کرنے کا آزادانہ حق رکھتا ہے۔ (آئینہ حقیقت نما، صفحہ: 45-46)

امیر کے منتخب کیے جانے کے اثر ورسوخ اور جواب دہی کے سلسلے میں جو اسلامی نظریہٴ ریاست پیش کیا گیا ہے وہ یقیناً جمہوریت کی حد کمال سے بھی اعلیٰ و ارفع ہے۔ علاوہ ازیں نظام اسلامی کے نزدیک پیش کیے گئے نظریے سے بھی اہم چیز الٰہیاتی تصور ہے، اگر نظام اسلامی سے الٰہیاتی تصور مفقود ہے تو گویا اس کی روح مفقود ہے۔ چوں کہ نظام اسلامی کے نزدیک اقتدار وحکومت ایمان باللہ اور تصور احتساب پر مبنی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے اصول ونظریات اور اعمال میں لازماً یگانگت پائی جاتی ہے، یعنی ایک مسلم حکومت کو صرف اس بات کا احساس نہیں ہو تاکہ وہ عام کے روبرو جواب دہ ہے، بلکہ اس سے زیادہ اس کو ایک غیر محسوس اور قادر مطلق ہستی کا خوف دامن گیر ہوتا ہے، اس لیے حکومت اسلامیہ کو ہر حال میں اسلام کے قوانین عدل اور اصول عبادات کی پابندی کرنی ہوتی ہے، چوں کہ ایک صالح اور مہذب نظام حکومت وہی ہوسکتا ہے، جس کی بنیاد اخلاقی اور مابعد الطبعی تصورات پر قائم ہو، جب کہ نظام جمہوری میں ایسا کوئی بھی تصور قائم نہیں ہے جو اس کے ماننے والے سیاست دانوں کو تصور احتساب سے آشنا کرے، یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومتوں کے سیاست داں بلا کسی خوف وخطر کے بدعنوانیوں کو جنم دیتے ہیں، جو اسلامی نظام میں انتہائی قبیح عمل ہے۔

نظام اسلامی کے بنیادی اصول

نظام اسلامی کے بنیادی اصول کو جو دراصل قرآن وحدیث اور خلافت راشدہ کے طریقے سے ماخوذ ہیں، حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے تتبع وجستجو کے بعد مندرجہ ذیل لفظوں کے ساتھ بیان کیا ہے:

(1) خلیفہ کے انتخاب میں پوری بصیرت سے کام لیا جائے، یعنی جتنی کوشش ممکن ہو، کی جائے، پھر انتخاب کے بعد اس کے احکام، جو کتاب وسنت اور مصالح مسلمین کے خلاف نہ ہوں، مان لیے جائیں۔

(2) امور مہمہ میں جو منصوص نہ ہوں اہل حل وعقد سے مشورہ کیا جائے۔

(3) بیت المال خلیفہ کی ذاتی ملک نہیں، وہ صرف مصالح مسلمین کے لیے ہے۔

(4) سلطنت کے نظم ونسق میں حد درجہ سادگی اور کفایت شعاری اختیار کی جائے۔

(5) عہدہ دار اور اہل منصب میں ادائے فرض کے اندر پوری دیانت برتی جائے۔

(6) عہدہ داران سلطنت کے لیے مقررہ وظیفہ کے علاوہ رعایا سے کسی قسم کا تحفہ، قطعاً ناجائز ہے۔

(7) رعایا سے شرعی ٹیکس کے علاوہ دوسرے قسم کے غیر شرعی ٹیکس نہیں لیے جا سکتے۔

(8) حکام پر پورا پورا عدل فرض ہے، عدل وانصاف کی راہ میں رشوت، طرف داری اور بے انصافی ظلم اور گناہ کبیرہ ہے۔

(9) کاشت کار اور زمین دار کے درمیان اتنا ہی تعلق ہے جتنا ایک مزدور یا اجارہ دار اور مالک کے درمیان۔

(10) اسلامی سلطنت کے اندر ہر مسلمان جو معذور نہ ہو اس کا سپاہی ہے۔(اسلامی نظریہٴ سیاست، ص 4)

اسلامی حکومت کے اغراض و مقاصد

اسلامی مفکرین اور قد آور دانش وروں نے اسلامی حکومت کے اغراض ومقاصد درج ذیل بیان کیے ہیں:
(1) قیام عدل (2) رفع فساد اور قیام امن (3) افراد ملت کو حریت فکر (4) مجلس قانونی کو معاشی اور سیاسی مساوات عطا کرنا، یعنی اسلامی حکومت کا اصل مطمح نظریہ ہے کہ انسانوں کو غیر فطری رجحانات سے ہٹا کر فطرة اللہ یا نقطہ عدل پر قائم کیا جائے۔

حریت عامہ اور اسلام

اسلام کا نظریہ سیاست ہر اعتبار سے ہمہ گیراور لامحدود حیثیت رکھتا ہے، اس کی افادیت نسلی ووطنی حدود سے آزاد اور پورے عالم انسانیت کو محیط ہے، اس کی نگاہ کسی ایک شعبہ حیات پر نہیں، بلکہ جملہ شعبہ ہائے زندگی کو محیط ہے اور وہ انسانوں کی بلندی، خواہ فکری ہو یا دینی، علمی ہو یا مادی، اخروی ہو یا دنیوی، ان تمام ضروریات میں کسی ضرورت سے بھی غافل نہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلام کا موضوع نفس انسانیت ہے، جو دنیا کے تمام انسانوں کو زندہ رہنے کا حق دیتا ہے اور حریت اجتماع یا حریت فکر میں کسی بھی اعتبار سے ترجیحی سلوک نہیں برتتا۔ اسلامی نظریہٴ حاکمیت کسی کے لیے روادار نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت میں دخل اندازی کرے، لہٰذا قدرتی طور پر اس کا نتیجہ آزادیٴ فکر اور مساوات عامہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔

آزادی فکر اور مساوات عامہ

یہی وجہ ہے کہ خلیفہٴ اسلام کو دوسرے لوگوں پر کوئی ترجیحی حیثیت حاصل نہیں اور نہ یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ وبرتر تصور کرے، بلکہ آزادیٴ فکر اور شہری حقوق کے لحاظ سے وہ ایک عام شہری کا درجہ رکھتا ہے۔ اس آزادی کو ہر شعبہ میں ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے؛ چناں چہ معاشی واقتصادی طور پر خلیفہ اسلام کو مساوی حیثیت حاصل ہے، تقسیم اموال میں انہیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے یا کسی رشتہ دار کے لیے دوسروں سے زائد حصہ لے لے، نیز یہ بھی روانہیں کہ قومی اجازت یا عام مشورہ کے بغیر مالی فنڈ سے خرچ کر سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے مرض سے شفایابی کی خاطر تھوڑے شہد کے لیے عام مشورہ، قادسیہ کی لڑائی کے بعد تنخواہوں کے تعین کے وقت اول درجہ میں ہونے سے صاف انکار کرنا اور اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی تنخواہ کا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی تنخواہ سے کم مقرر کرنا، یہ سب ایسے لا زوال اور لافانی نقوش ہیں کہ جن کی مثال نہیں۔

عزل امیر کا غیر مشروط اختیار

بہت سے جمہوری ممالک میں متعینہ مدت تک حکم راں تخت وتاج شاہی کے مالک بنے بیٹھے رہتے ہیں، اس سے قبل عوام کو عزل امیر کا اختیار نہیں، گو انتہائی سفاکیت ودرندگی کا مظاہرہ کرے اور حقوق کی پامالی روز مرہ کا معمول بنا رہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تعین سے قبل حکومت کا اصل منبع عوام کو سمجھا جاتا رہا اور تعین کے بعد انہیں ازکار رفتہ اور عضو معطل گردان کر، پس پشت ڈال دیا گیا، کیا یہ جمہوریت کے منافی نہیں؟ اس لیے اسلام نے روز اول سے امارت وخلافت کا معیار اتباع شریعت کو قرار دیا، خلیفہ کے لیے واجب ہے کہ قدم بقدم متبع شریعت ہو، اگر وہ ایک قدم بھی آگے تجاوز کرتا ہے یا پیچھے مڑتا ہے تو عوام کو اس کو معزول کرنے کا کلی اختیار حاصل ہے۔

رائے دہندگان کا معیار

موجودہ طرز حکومت میں اخلاقی معیار مقرر نہ ہونے کی وجہ سے جمہوری ملکوں میں ہر آزاد شخص کو اور نیم جمہوری ممالک میں امارت کا معیار تعلیم اور جاہ ودولت کو قرار دیا جاتا ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں کسی صالح، مہذب وسلیقہ مند خلیفہ کا انتخاب مشکل ہی نہیں، محال ہے، زیادہ سے زیادہ پارٹی سے متعلق جماعت ایسے شخص پر آمادہٴ انتخاب ہوگی جو ان کی ذاتی وجماعتی خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہو، جہاں رسہ کشی کا ہونا قطعاً ناگزیر ہے، اس کے برعکس اسلام کا طرز انتخاب بالکل جدا گانہ ہے، اس سلسلے میں ہر بالغ کے فیصلے ورائے کی عدم درستگی پر مبنی ہونے کی وجہ سے چند سرکردہ شخصیات، ارباب دانش، اصحاب فکر اور ذی رائے ہی سے مشورہ لیا جائے اور انہی کو اختیار دیا گیا کہ کسی نیک سیرت، تقوی شعار اور حامل علوم کتاب وسنت کو اقتدار کی گدی پر بٹھائیں، تاکہ کسی کے لیے انگشت نمائی کا موقع باقی نہ رہے؛ کیوں کہ اسلام میں اعتماد عام اور وجہ ترجیح علم وعمل ہے اور اسی شخص کی رائے باوزن ہوسکتی ہے جو ان اوصاف سے متصف ہو، اسلام میں ایسے افراد کو ”ارباب حل وعقد“ سے موسوم کیا جاتا ہے؛ چناں چہ خلفائے اربعہ کا انتخاب اسی طرز پر ہوا، انصار ومہاجرین کو ارباب حل وعقد تسلیم کیا جاتا رہا اور ان کے فیصلے کو پوری امت کے لیے حکم ناطق کی حیثیت حاصل رہی۔

خواہش امارت اور اسلام

موجودہ جمہوریت میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اقتدار کے لیے چند افراد اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں جنگ وجدال، قتل وقتال اور دوسری پارٹی کے ساتھ نہایت بے دردی کے ساتھ سیم وزر کی تھیلیاں لٹانا، یہ سبھی کچھ ڈرامے رونما ہوتے ہیں، اسی لیے اسلام نے امارت کی خواہش پر پابندی عائد کر دی، اگر اسلام کے اس نہج کو اپنایا جائے تو اس سے لازمًا دو فائدے ہو سکتے ہیں: اول یہ کہ انتخابی کش مکش اور باہمی تصادم سے نجات ملے گی۔ دوم یہ کہ جب کوئی امارت کا مدعی نہ ہوگا تو امت پر خوف یا لالچ کی فکر غالب نہ آئے گی اور صحیح خلیفہ متعین کرنے میں کوئی وقت ضائع نہ ہوگا۔

حرف آخر

در حقیقت جمہوریت سے مراد نظم معاشرت اور عوامی حکومت کی آڑ میں انسان کے فکر ونظر، تہذیب وتمدن کو عقیدے اور دین سے منقطع کر کے اسے ریگولر کی بجائے ملحد بنا دینا ہے؛ تاکہ ایک ایسی عام تنظیم قائم ہو جائے جس کے پردے میں شاطرانِ زمانہ ساری دنیا پر اپنی آمریت قائم کرسکیں، جس نظام کا نصب العین اور نظریہ ایسا ہوگا، یقیناً نظامِ الٰہی کا اس سے تصادم اور ٹکراؤ معرکے کی شکل میں ہوگا۔

اسلامی زندگی سے متعلق