چھینک اور جماہی کے آداب

idara letterhead universal2c

چھینک اور جماہی کے آداب

 مولانا عبد اللطیف قاسمی

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدافرمایا اور آپ کے اندر روح پھونکی، توحضرت آدم علیہ السلام کو فوراً چھینک آئی اورسب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کی توفیق سے چھینک پر ”الحمد للّٰہ“ فرمایا، چھینک آنا اچھی بات ہے، چھینک انسان کی صحت کی علامت ہے، نزلہ کے وقت، نیز عام اوقات میں بھی جب چھینک آتی ہے تو انسان کا دماغ، کان اور ناک کے راستے صاف ہوتے ہیں،آنکھوں میں ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے، سر کا بوجھ کم ہوجاتاہے، جب نومولود بچہ چھینکتاہے تو والدین اور معا لجین چھینک کو بچے کی تن درستی کی علامت سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں، غرض کہ چھینک انسان کی نشاط وچستی کا سبب ہے، جس سے انسان کو اعمال وطاعات، نیز دنیوی کاموں میں نشاط پیداہوتاہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی علیہ السلام نے فرمایا:

إنَّ اللّٰہ یُحِبُ العُطاسَ․ (رواہ البخاری عن ابی ہریرة 6223، 919 /1)

اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں،(کیوں کہ اعمال میں چستی ونشاط کا سبب ہوتی ہے)۔

دین ِاسلام کی خوبی اورکمال یہ ہے کہ اسلام انسان کو کامل واکمل بنانے کے لیے ہرچھوٹے اور بڑے ادب سے اس کو آراستہ ومزین کرتا ہے؛ چناں چہ اسلام نے انسانی ضروریات میں سے ہرضرورت سے متعلق بہترین آداب وتعلیمات کو پیش کیاہے، من جملہ ان کے چھینک ہے،جسے ہم معمولی چیز سمجھتے ہیں، اس کے آداب کو بھی بیان کیاہے،لہٰذاہمیں چاہیے کہ ہم چھینک کے آداب کومعلوم کریں اور ان پرعمل کریں۔

چوں کہ چھینک اللہ کی نعمت ِصحت وتن درستی کی علامت، چستی اور نشاط کا سبب ہے؛ اس لیے چھینک آنے پر الحمد للّٰہ کے ذریعہ اللہ کا شکر ادا کرنے کو مستقل عبادت قرار دیا گیا ہے۔

چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا عطس احدکم فلیقل: الحمد للہ․ (رواہ البخاری عن ابوہریرة 6224، 919 /1)

جب تم میں سے کوئی چھینکے تو الحمد للّٰہ کہے۔

سب سے پہلے انسان ہمارے دادا حضرت آدم علیہ السلام کو جب چھینک آئی تو اللہ نے آپ کی زبان سے الحمد للّٰہ کو جاری فرما کر ساری انسانیت کے لیے ایک ادب قرار دیا، شریعت اسلامیہ نے بھی اس کو ادب، بلکہ مستقل سنت قرار دیا ہے۔

چھینک کے آداب

(1) جب کسی شخص کو چھینک آئے تو الحمد للّٰہ کہے۔ (رواہ البخاری عن ابی ھریرة 6224، 919 /1) یا اَلْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ کُلِّ حَال کہے۔ (رواہ الترمذی عن ابن عمر103/2) دونوں صورتیں جائز ہیں۔

(2) جب چھینکنے والا اپنی چھینک پر الحمد للّٰہ کہے، تو سننے والا اس کے جواب میں یرحمک اللّٰہ کہے۔(بخاری 6224، 919 /1)

(3) یرحمک اللّٰہ کے جواب میں چھینکنے والا یَھْدِیْکُمُ اللّٰہُ َویُصْلِحُ بَالَکُمْ یا یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ کہے۔(بخاری 6224، 919 /1)

(4) چھینکنے والا چھینک کے وقت اپنے چہرے کو کپڑے یا کم از کم ہاتھ سے ڈھانک لے (تاکہ چھینک کے وقت ناک اور منھ سے نکلنے والی ریزش سے کسی کوتکلیف نہ ہو،نیز کھانے پینے کی چیزوں میں ناک اور منھ کی رطوبات نہ گریں)۔

(5)چھینک کے وقت اپنی آواز کو پست رکھے۔

آپ علیہ السلام چھینک کے وقت اپنے چہرے کو کپڑے یا ہاتھ سے ڈھانک لیتے تھے اور آواز کو پست کر لیا کرتے تھے۔ (ابوداود 2/686)

(6) محرم عورتیں چھینک کر الحمدللہ کہیں تومحرم مردوں کے لیے یرحمک اللّٰہ کہنا ضروری ہے، نیز مردمحارم مردکی چھینک کاجواب دینا بھی ضروری ہے۔(ہندیہ 5/723)

چھینک کا جواب

مسلمان بھائی چھینک کر الحمد للّٰہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا یہ اس کا شرعی حق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان بھائی پر دوسرے مسلمان بھائی کے لیے چھ حقوق ہیں،جب کوئی مسلمان بھائی بیمار ہو جائے تواس کی عیادت کرے (2) جب کسی مسلمان کی وفات ہوجائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرے (3) اگر دعوت دے تو قبول کرے (4) سلام کرے تو سلام کا جواب دے (5) چھینک پر الحمد للّٰہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللّٰہ کہے (6) مسلمان بھائی کی موجودگی اور غیر موجودگی میں اس کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرے۔ (مسلم: 2/213، حقوق المسلم)

جب چھینکنے والا الحمد للّٰہ کہے تو سننے والے پر یرحمک اللہ کہنا بعض علماء کے نزدیک واجب ہے، (فتاوی ہندیہ میں یہی قول نقل کیاہے) بعض علماء نے مستحب قراردیاہے،جمہورعلماء کے نزدیک فرضِ کفایہ ہے، (فتاوی ہندیہ میں واجب لکھا ہے) لہٰذا چھینکنے والے کی الحمد للّٰہ سننے والا ایک شخض ہو تو ضرور یرحمک اللّٰہ کہنا چاہیے،اگرایک جماعت ہو تو ان میں سے کسی ایک شخص کی طرف سے یرحمک اللّٰہ کہنا کافی ہے۔ (عمدة القاری 340 /15)

مندرجہ ذیل مواقع میں چھینک کا جواب ضروری نہیں:
(1) جو آدمی چھینک کر الحمد للہ نہ کہے۔ (بخاری 6225،919/1)

آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا:
إذَا عَطَسَ اَحَدُکُمْ فَحَمِدَ اللہَ فَشَمِّتُوْہُ، وَانْ لَمْ یَحْمَدِ اللہَ فَلَاتُشَمِّتُوْہُ․ (رواہ البخاری 919/1)

جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اوروہ الحمدللہ کہے تو تم جواب دو، اگر وہ الحمدللہ نہ کہے تو اس کا جواب مت دو،لہذاجوشخص اپنی چھینک پر الحمدللہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضرتھے، دونوں کو چھینک آئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی چھینک پر یرحمک اللّٰہ فرمایا، دوسرے کی چھینک پر یرحمک اللّٰہ نہیں فرمایا،اس پر دوسرے شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے اس کے لیے یرحمک اللّٰہ فرمایا، میرے لیے نہیں فرمایا، آپ نے ارشاد فرمایا: اس نے چھینک پر الحمد للّٰہ کہا؛ اس لیے وہ جواب کا مستحق ہوا اور تم نے اپنی چھینک پر الحمد للّٰہ نہیں کہا تو تم جواب کے مستحق نہیں ہوئے۔ (متفق علیہ، بخاری 919 /1)

(2)جب آدمی تین مرتبہ سے زیادہ چھینکے، تو جواب دینا ضروری نہیں ہے،چاہے تو جواب دے، چاہے تو جواب نہ دے۔ (رواہ ابوداد 687/2)

(3)بے ایمان کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا جائز نہیں ہے۔

حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
یہودی لوگ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی خدمت میں چھینکتے تھے (چھینک پر الحمدللہ بھی کہتے)اور یہ امید رکھتے کہ آپ علیہ السلام جواب میں یرحمک اللہ فرمائیں گے؛ لیکن آپ علیہ السلام ان کے جواب میں یرحمک اللّٰہ نہ فرماتے (اس لیے کہ وہ اپنی بے ایمانی کی وجہ سے اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں، لہٰذ ان کو رحمت کی دعا نہیں دی جاسکتی)بلکہ ان کے جواب میں آپ علیہ السلام یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ فرماتے (اللہ تم کو ہدایت دیں اور تمہارے احوال درست فرمائیں)۔ (رواہ ابوداد 687/2)

(4) جمعہ وعیدین کے خطبات کے وقت میں جواب نہ دے۔ (عمدة القاری340/15)

(5) اگرکوئی شخص بیت الخلاء میں چھینک کر الحمد للّٰہ کہے تو اس کا جواب بھی لاز م نہیں۔ (عمدة القاری340/15)

مسئلہ: اگرکسی شخص کو نماز میں چھینک آگئی اوراس نے بے اختیار الحمد للّٰہ کہہ دیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی،جو نمازی چھینکنے والے کے جواب یرحمک اللہ کہے، اس کی نمازفاسدہوجائے گی (ہدایہ 135/1)

جماہی کے آداب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ العُطَاسَ، وَیَکْرَہُ التَثَاوُبَ… وأما التثاوب فإنما ھو من الشیطان فلیردہ ما استطاع فاذا قال ھاء ضحک منہ الشیطان (رواہ البخاری عن ابی ھریرة 919/1، 6223)

اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں اور جماہی کو ناپسند فرماتے ہیں۔ جماہی شیطان کی طرف سے ہے لہٰذا جہاں تک ہوسکے اس کو روکے، جب (تم میں سے کسی کو جماہی آتی ہے اور )وہ منھ کھولے ہاء، ہاء کہتا ہے تو شیطان ہنستا ہے۔

جماہی زیادہ کھانے،آنتوں کے بھر جانے، نفس وطبیعت کے بوجھل ہو جانے اور حواس کی کدورت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جو غفلت، سستی اور سوئے فہم کا سبب بنتی ہے،نیز جماہی کے وقت انسان کا چہرہ طبعی حالت پر باقی نہیں رہتاہے،جس کی وجہ سے شیطان خوش ہو جاتا ہے کہ انسان کی طبعی حالت بھی متغیر ہوئی، نیز اب یہ انسان طاعات واعمال اور دیگر ضروری امور میں سستی اور کاہلی کا شکار ہوگا۔

حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے لکھاہے کہ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر بھر جماہی نہیں آئی ہے،جس کی صراحت مصنف ابن شیبہ کی روایت میں موجودہے،نیز علامہ خطابی رحمة اللہ علیہ نے مسلمہ کی روایت سے بیان کیاہے کہ کسی بھی نبی کو جماہی نہیں آئی۔ (فتح الباری 715/ 10)

فَاَمَّالتَثَاوُبُ فَانَّمَا ھُوَمِنَ الشَّیْطَانِ فَاذَا تَثَاوبَ أحَدُکُمْ فَلْیَرُدَّہ مَا اسْتَطَاعَ․ (بخاری 919/1)

جماہی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے،لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو جہاں تک ہوسکے اس کو دفع کرے،(جبڑوں کو مضبوطی سے دبالے، اگر بے قابو ہو جائے تو منھ پر ہاتھ رکھ لے)۔

حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اِذَا تَثَاوَبَ أحَدُکُمْ فَلْیُمْسِکْ بِیَدِہ عَلیٰ فَمِہ، فَانَّ الشَّیْطَانَ یَدْخُلُ․ (رواہ مسلم 413/2، باب العطاس)

جب تم میں سے کسی کو جماہی آئے تو اپنے منھ پر ہاتھ رکھ لے، اس لیے کے شیطان منھ میں داخل ہو جاتا ہے(لہٰذا منھ پر ہاتھ رکھے)۔

علماء نے لکھاہے کہ اگرانسان تلاوت،دینی گفتکو وغیرہ میں مشغول ہو اور جماہی آجائے تو جماہی کو مکمل طورسے بندہوجانے کے بعد تلاوت کرے،جماہی کے وقت ہا، ہا، کرتے ہوئے تلاوت، دینی باتیں اور ضروری باتیں نہ کرے۔ 

اسلامی زندگی سے متعلق