عاشورہ اور تعزیہ کی شرعی حیثیت

idara letterhead universal2c

عاشورہ اور تعزیہ کی شرعی حیثیت

مولانا محمد اسلم ہارون آبادی

ماہِ محرم الحرام کے متعلق مسلمان افراد کی معلومات بھی بہت کم ہیں اور وہ بھی طرح طرح کے غلط خیالات وعقائد میں گرفتار ہیں۔ صاحب مضمون نے انہی غلط عقائد وخیالات پر روشنی ڈالی ہے، قارئین کے علم میں اضافہ کے لیے پیش ہے۔ (ادارہ)

افادات

حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا محمد اشرف علی تھانوی  آیت ﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَا اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾․ (ترجمہ) اللہ تعالی نے مہینوں کی تعداد بارہ بیان فرمائی جس دن زمین وآسمان پیدا کیے گئے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔

عاشورہ کے روزے کا حکم

حدیث اول: ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: سب روزوں سے افضل رمضان کے بعد اللہ تعالی کا مہینہ محرم ہے، یعنی اس کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا رمضان کے سوا سب مہینوں کے روزہ سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ (مسلم)

حدیث دوم: ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں امید رکھتا ہوں اللہ تعالی سے کہ عاشورہ کا روزہ کفارہ ہوجاتا ہے اس سال کا (یعنی اس سال کے چھوٹے گناہوں سے) جو اس سے پیشتر گزر چکا ہے۔ (مسلم)

حدیث سوم: اور ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: روزہ رکھو تم عاشورہ کا اور مخالفت کرو اس میں یہود کی اور (وہ اس طرح کہ) کہ روزہ اس سے ایک دن پہلے کا یا بعد کا ملا لینا چاہیے۔ (جمع الفوائد عن احمد)

حدیث چہارم: حدیث شریف میں ہے کہ عاشورہ کا روزہ رمضان (کے روزے فرض ہونے) سے پیشتر (بطورِ فرضیت) رکھا جاتا تھا۔ پس جب رمضان (کے روزوں) کا حکم نازل ہوا تو جس نے چاہا (عاشورہ کا) روزہ رکھا اور جس نے چاہا نہ رکھا۔(نسائی)

حدیث پنجم: جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو یہود کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا یہ کیا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا یہ بڑا دن ہے، اس میں اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم غرق ہوئی، پس موسی علیہ السلام نے اس کا روزہ بطور شکریہ کے رکھا تو ہم بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: تو ہم تم سے زیادہ حق دار اور قریب ہیں موسی علیہ السلام کے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا روزہ رکھا اور دوسروں کو اس کے روزے کا حکم دیا۔ (متفق علیہ)

(ف) اور حدیث شریف میں ہے کہ جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور اس روزہ کا حکم دیا تو انہوں نے (یعنی صحابہ نے) عرض کیا کہ یہ ایسا دن ہے جس کو یہود ونصاریٰ معظم سمجھتے ہیں پس اس میں روزہ سے مشابہت کا شبہ ہوتا ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو تاریخ کو بھی روزہ ضرور رکھوں گا، تاکہ مشابہت کا شبہ جاتا رہے۔(مسلم)

اہل وعیال پر عاشورہ کے روز فراخی کرنے کی برکت

ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: جس شخص نے فراخی کی اپنے اہل وعیال پر خرچ میں عاشورہ کے دن (یعنی اپنے بچوں اور گھر والوں پر عاشورہ کے دن رزق میں وسعت کی) فراخی کرے گا اللہ تعالی اس پر (رزق میں) تمام سال۔

(ف) پس یہ دونوں باتیں تو کرنے کی ہیں۔ ایک روزہ رکھنا کہ وہ مستحب ہے، دوسرے مصارف عیال میں کچھ فراخی کرنا (اپنی حیثیت کے موافق) اور یہ مباح ہے، اس کے علاوہ اور سب باتیں جو اس دن کی جاتی ہیں خرافات ہیں۔ (خطبات احکام ص 174)

شب عاشورہ میں رات بھر عبادت کرنے کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص شب عاشورہ میں رات بھر عبادت میں مشغول رہے اور صبح کو وہ روزہ سے ہو تو اس کو اس طرح موت آئے گی کہ مرنے کا احساس بھی نہ ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس نے عاشورہ کے دن چار رکعت نماز اس طرح پڑھی کہ ہر رکعت میں ایک دفعہ سورہٴ فاتحہ اور پچاس دفعہ سورہٴ اخلاص پڑھی تو اللہ تعالی اس کے پچاس برس گزشتہ اور پچاس برس آئندہ کے صغیرہ گناہ معاف فرمائیں گے۔

عاشورہ کے دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس نے عاشورہ کے دن کسی مسلمان کا روزہ کھلوایا گویا اس نے تمام امت محمدیہ کا روزہ کھلوا دیا اور سب کے پیٹ بھروا دیے۔ جس نے عاشورہ کے دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو یتیم کے سر پر ہر بال کے عوض جنت میں اس کا مرتبہ بلند کیا جائے گا۔

یوم عاشورہ کی وجہ تسمیہ

یوم عاشورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس روز نو پیغمبروں پر ایک خاص عنایت فرمائی۔ (1) اس روز حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی۔ (2) حضرت ادریس علیہ السلام کو مقام رفیع پر اٹھایا۔ (3) حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی روز کوہ جودی پر ٹھہری۔ (4)اسی روز حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی روز اللہ تعالی نے ان کو اپنا خلیل بنایا۔ اسی دن نمرود کی آگ سے ان کو بچایا۔ (5) اسی دن حضرت داوٴد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ (6) اسی روز حضرت ایوب علیہ السلام کی ابتلا (دکھ، درد) ختم ہوئی۔ (7) اسی دن حضرت موسی علیہ السلام کو (دریائے نیل میں) غرق ہونے سے بچایا اور فرعون کو غرق کردیا۔ (8) اسی روز حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی۔ (9) اسی روز حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔

قیامت بھی دس محرم بروز جمعہ واقع ہوگی۔ اسی روز اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہادت کے عظیم مرتبہ سے نوازا۔

عاشورہ کے متعلق ضروری مسائل

1- مسئلہ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ کو بعض دشمنانِ دین اس انداز میں پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام آدمی نہ صرف دس محرم، بلکہ پورے ماہِ محرم کو رنج وغم کا مہینہ سمجھنے لگتا ہے، حالاں کہ شہادت کا وہ مرتبہ ہے جس کے حصول کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں خواہش کی کہ میں زندہ کیا جاوٴں، پھر شہید کیا جاوٴں، پھر زندہ کیا جاوٴں، پھر شہید کیا جاوٴں۔ اس ماہ کی بے شمار فضیلتوں کو نظر انداز کر کے اس ماہِ مبارک کو منحوس خیال کرنا شرعًا ناجائز ہے۔

2- مسئلہ: پورے ماہ، خاص طور پر محرم کے ابتدائی دس دنوں میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مرثیہ کو گا، گا، کر پڑھا جاتا ہے اور اس کو پڑھنا اور سننا ثواب سمجھا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا کہ دو آوازیں دنیا اور آخرت میں ملعون ہیں۔ خوشی کے وقت گانا بجانا اور مصیبت کے وقت نوحہ کرنا۔

3- مسئلہ: محرم میں سیاہ لباس یا خاص رنگ کو اس لیے اختیار کرنا کہ اس سے غم کا اظہار مقصود ہو، منع ہے۔ ابن ماجہ میں ایک قصہ منقول ہے کہ ایک جنازہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ غم میں چادر اتار کر صرف کرتہ پہنے ہوئے ہیں۔ یہ وہاں غم کی اصطلاح تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی ناخوش ہوئے اور فرمایا کیا جاہلیت کے کام کرتے ہو یا جاہلیت کی رسم کی مشابہت کرتے ہو؟ میرا تو یہ ارادہ ہوگیا تھا کہ تم پر ایسی بددعا کروں کہ تمہاری صورتیں مسخ ہوجائیں۔ پس فوراً ان لوگوں نے اپنی چادریں لے لیں اور پھر کبھی ایسا نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی خاص وضع وہیئت اظہار غم کے لیے بنانا حرام ہے۔ (اصلاح الرسوم ص 143)

4- محرم میں زیب وزینت ترک کرنا اور ایسی حالت اختیار کرنا جس کو سوگ کہتے ہیں ممنوع ہے۔ شریعت مطہرہ میں سوگ کی حقیقت اسی قدر ہے کہ کسی کے انتقال پر بھی تین دن سے زائد سوگ کرنے کی اجازت نہیں ہے، سوائے اس عورت کے جس کا شوہر انتقال کر گیا ہو کہ وہ چار ماہ دس دن سوگ کر سکتی ہے اور زیب وزینت ترک کرسکتی ہے۔ ابن سیرین سے روایت ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا ایک لڑکا فوت ہوا، سو جب تیسرا دن ہوا تو انہوں نے زرد رنگ کی خوش بو منگائی اور بدن پر ملی اور کہا کہ ہم کو منع ہے کہ تین دن سے زائد کسی کے غم میں سوگ کریں، مگر خاوند کی موت پر۔ (فیض الباری ص 134)

5- مسئلہ: محرم الحرام میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ماتم کرنا، کپڑے پھاڑنا اور مرثیہ وغیرہ پڑھنا نہ صرف یہ کہ منع ہے، بلکہ اس کو سننا بھی گناہ ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر محرم میں ماتم نہ کیا جائے، بلکہ صرف سننے اور دیکھنے کی حد تک شرکت کر لی جائے تو کچھ حرج نہیں، مگر وہ صاحب خوب سن لیں، حدیث میں صاف موجود ہے: من کثر سواد قوم فھو منھم۔ جس نے کسی قوم کی جماعت کو زیادہ کیا (خواہ عقیدةً اسے برا سمجھتا ہو) قیامت کے دن وہ انہیں کے ساتھ ہوگا۔

بعض لوگ ان شیعہ کی مجلسوں میں کوئی تماشہ کی نیت سے چلا جاتا ہے، کسی کو وہ لوگ خود بلاتے ہیں تو کسی جماعت کی تکثیر کرنا، خواہ استہزاء ًہو یا بطور تماشہ یا دل جوئی وغیرہ کے ہو، غرض کسی صورت سے ہو، ہر صورت میں بروئے قانون پوچھ ہوگی اور قیامت میں انہیں کے ساتھ حشر ہوگا، اس لیے نہ خود مجلس کرنا جائز ہے، نہ کسی کی مجلس میں جانا جائز ہے۔

محرم میں تعزیہ بنانے کی مذمت

محرم میں تعزیہ بنانا جس کی وجہ سے طرح طرح کے فسق وفجور میں لوگ مبتلا ہوئے ہیں کہ بعض جہلاء تو یہاں تک خیال کرتے ہیں کہ اس میں شاید حضرت حسین  جلوہِ افروز ہیں، اس کے آگے نذر نیاز رکھتے ہیں اور اس کو متبرک سمجھ کر کھاتے ہیں، جو وما اھل بہ لغیر اللہ میں داخل ہے اور جس کا کھانا حرام ہے اور اس کے ساتھ اس قسم کے معاملات کرتے ہیں جو صریح شرک ہیں، ان معاملات کے اعتبار سے تعزیہ قرآن پاک کی اس آیت کے مضمون میں داخل ہے ﴿تعبدون ما تنحتون﴾ الصافات آیت 95۔ کیا ایسی چیز کو پوجتے ہو جو خود تراشتے ہو اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ یا تو اس تعزیہ کی اس قدر تعظیم وتکریم ہو رہی ہے یا پھر اس کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ (اصلاح الرسوم ص 148)

تعزیہ کا غیر ذی روح ہونا اور بے جان کی شبیہ بنانا ناجائز ہے

سوال: جس شہر میں رہتا ہوں وہاں کثرت شیعہ لوگوں کی ہے، وہ محرم میں تعزیہ بناتے ہیں اور مہندی چڑھاتے ہیں اور علم نکالتے ہیں۔ اب عرض یہ ہے کہ تعزیہ بنانا جائز ہے یا نہیں اور اس میں چندہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نقل روضہٴ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہے، مکان کی نقل جائز ہے، جان دار کی شبیہ بنانا منع ہے۔ آیا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب: غیر ذی روح یعنی بے جان کی شبیہ بنانا اس وقت جائز ہے جب کہ اس پر کوئی مفسدہ یعنی خرابی مرتب نہ ہو، ورنہ حرام ہے۔ اور تعزیہ کے ساتھ جو معاملات کیے جاتے ہیں ان کا معصیت وبدعت، بلکہ بعض کا قریب بہ کفر وشرک ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس کا بنانا بلاشک ناجائز ہوا اور چوں کہ معصیت کی اعانت معصیت ہے، اس لیے اس میں چندہ دینا اور فرش فروش وسامان روشنی سے اس میں شرکت کرنا سب ناجائز ہوگا اور بنانے والا اور اعانت کرنے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔ (فتاوی اشرفیہ کامل ص 158)

تعزیہ کا جلوس دیکھنا گناہ ہے

ان دنوں میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجالس اور تعزیہ کے جلوس کا نظارہ دیکھنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے، اس میں کئی گناہ ہیں:

1- ایک گناہ یہ کہ اس میں دشمنانِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور دشمنان قرآن کے ساتھ تشبیہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: من تشبہ بقوم فھو منہم (جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ اسی میں شمار ہوگا)۔

ہولی کے دنوں میں ایک بزرگ جارہے تھے، انہوں نے مزاح کے طور پر ایک گدھے پر پان کی پیک ڈال کر فرمایا تجھ پر کوئی رنگ نہیں پھینک رہا تو تجھے میں رنگ دیتا ہوں۔ مرنے کے بعد اس پر گرفت ہوئی کہ تم ہولی کھیلتے تھے اور عذاب میں گرفتار ہوئے۔

2- دوسرا گناہ یہ ہے کہ اس سے ان دشمنانِ اسلام کی رونق بڑھتی ہے، دشمنوں کی رونق بڑھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی قوم کی رونق کو بڑھایا وہ انہی میں سے ہے۔

3- تیسرا گناہ یہ ہے کہ جس طرح عبادت کو دیکھنا عبادت ہے، اسی طرح گناہ کو دیکھنا بھی گناہ ہے۔ ایک دفعہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم جہاد کی مشق کر رہے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اس عبادت کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اتنا اہتمام فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردے کی غرض سے خود کھڑے ہوگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پردے میں کھڑی ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سے دیکھتی رہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس عبادت کے نظارے سے سیر ہو کر جب خود ہٹیں تب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہٹے۔ غرض یہ کہ عبادت کو دیکھنا بھی عبادت اور گناہ کو دیکھنا بھی گناہ۔

4- چوتھا گناہ یہ ہے کہ اس مقام پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہورہا ہے، ایسی غضب والی جگہ جانا بہت بڑا گناہ ہے، ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا گزر ایسی بستیوں کے کھنڈرات پر ہوا جن پر عذاب نازل ہوا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور سواری کو بہت تیز چلا کر اس مقام سے جلدی سے گزر گئے۔ جب سید الاولین والآخرین رحمةٌ للعالمین، حبیب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم غضب والی جگہ سے بچنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے تو عوام کا کیا حشر ہوگا؟! سوچنا چاہیے اگر دشمنانِ خدا کے کرتوتوں سے اس وقت کوئی عذاب آگیا تو کیا صرف نظارہ دیکھنے کے لیے جمع ہونے والے مسلمان اس عذاب سے بچ جائیں گے؟ ہر گز نہیں، بلکہ عذاب آخرت میں بھی یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالی مستحق عذاب بنانے والی بد اعمالیوں سے بچنے کی توفیق دیں۔

تعزیہ کو معدوم کرنے کا عجیب طریقہ

ایک شخص تعزیہ بناتا تھا، اس کی عمر کا ایک حصہ تعزیہ کے ادب واحترام میں گزر چکا تھا، وہ تائب ہوا، مگر اس کے یہاں ایک بنا ہوا تعزیہ تھا، اس کو معدوم کرنا چاہتا تھا، مگر اس کی صورت سمجھ میں نہ آتی تھی۔ مولانا شہید رحمة اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت! میرے یہاں تعزیہ ہے، میں کیا کروں اور اپنی حالت بیان کی، فرمایا مٹا دے، توڑ دے، جلادے، پھونک دے، مگر اس ظاہری بے ادبی کی اس کی ہمت نہ ہوئی۔ یہ شخص شاہ عبد العزیز صاحب رحمة اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوا اور وہی عرض کیا جو وہاں عرض کیا تھا۔ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہ کرو کہ اس کے بند کھول دو۔ چاقو سے کاٹ ڈالو۔ اس شخص نے جاکر چاقو سے بند کاٹ ڈالے، جس سے بانس کی کھپچیاں الگ الگ ہوگئیں۔ اس کو ایک لطیف صورت سے ختم کرادیا۔ یہ حکیمانہ طرز تھا، آپ سمجھ گئے کہ ایک مدت تک اس کے قلب میں تعزیہ کی عظمت اور ادب رہ چکا ہے، اہانت کی صورت پر دفعةً قادر نہ ہوگا، اس لیے ایک لطیف عنوان سے اس کو فنا کرادیا، بہ تدریج اس ناگوار صورت کو بھی گوارا کرے گا اور وہی بات حاصل ہوجائے گی، جو حضرت شہید  نے فرمائی، لیکن عنوان اور تدریج کا فرق تھا۔ (افاضات یومیہ، جلد ہشتم ص 56)

تعزیہ بنانے کی قباحتیں

تعزیہ بنانا کسی طرح بھی روا نہیں۔ کیوں کہ اول تو شریعت نے اس کو حرام قرار دیا۔ دوسرے اسراف کا وبال، کاغذ وبانسوں کا خرچ اور آٹے کا خرچہ الگ ہے، جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ان اللّٰہ لا یحبّ المسرفین﴾، ﴿انّ المبذّرین کانوا اخوان الشیٰطین﴾ فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے، تیسرے رزق آٹے کی بے حرمتی ۔ چوتھے پھر اس اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو توڑ پھوڑ کر ضائع کرنا۔ نیز اس کاغذی چیز کے ساتھ وہ برتاوٴ دفن وغیرہ کرنا جو انسان کی میت کے ساتھ کیا جاتا ہے، مزید برآں اس کو باعثِ برکت خیال کر کے چڑھا وے چڑھانا، منت مانگنا، جو کہ شرک ہے۔ غور کا مقام ہے کہ ہندو کافر لوگ یہ دیکھ کر کیا کہتے ہوں گے کہ ہم میں اور ان مسلمانوں میں فرق ہی کیا ہے؟! ہم پتھر کو پوجتے ہیں۔ یہ کاغذ کو پوجتے ہیں۔ چناں چہ ایک ہندو نے ایک عربی کے طالب علم سے کہا ہی تھا کہ ہمارے اور تمہارے مذہب میں فرق ہی کیا ہے؟ ہم پتھر کو پوجتے ہیں اور تم مٹی کے ڈھیر قبر کو۔ ہائے افسوس! جس مذہب میں توحید کی نہایت پاک وصاف تعلیم تھی، اس کو مسلمانوں نے اپنے طرز سے دوسروں کی نظر میں مخلوط کردیا۔

بہرحال صورت یکساں ہونے کی وجہ سے ہندو کو موقع اعتراض کا ہوا، تب ہی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ”اتقوا مواضع التھم“۔ مسلمانوں کو ایسے امور سے جن میں دور کا بھی اشتباہ اور ذرا بھی شائبہ توحید میں فرق ونقص آنے کا ہو تو گریز اور احتیاط لازم ہے۔ تعزیہ داری ہر اعتبار سے قابل ترک اور توبہ ضروری وفرض ہے۔ (بارہ مہینوں کے فضائل واعمال ص 91)

تعزیہ کی برائی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ اس کے ساتھ ایسے ایسے برتاوٴ کرتے ہیں کہ شرع میں بالکل شرک اور گناہ ہے، اس پر چڑھاوا چڑھاتے ہیں، اس کے سامنے سر جھکاتے ہیں، اس پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، وہاں مرثیے پڑھتے ہیں، روتے چلاتے ہیں، اس کے ساتھ باجے بجاتے ہیں، اس کے دفن کرنے کی جگہ کو زیارت کی جگہ سمجھتے ہیں، مرد وعورت آپس میں بے پردہ ہوجاتے ہیں۔ نمازیں برباد کرتے ہیں، مگر شہادت نامہ پڑھا کرتے ہیں تو یاد رکھو! اگر اس میں غلط روایتیں ہیں تب تو ظاہر ہے کہ منع ہے اور اگر صحیح روایتیں بھی ہوں جب بھی چوں کہ سب کی نیت یہی ہوتی ہے کہ سن کر روئیں گے اور شرع میں معصیت کا ارادہ کر کے رونا درست نہیں۔ اس واسطے اس طرح کا شہادت نامہ پڑھنا بھی درست نہیں ۔ اس طرح محرم کے دنوں میں ارادہ کر کے رنگ پڑیا چھوڑ دینا اور سوگ اور ماتم کی وضع بنانا، اپنے بچوں کو خاص طور کے کپڑے پہنانا یہ سب بدعات اور گناہ ہیں۔ (بہشتی زیور حصہ ششم ص 68)

تعزیہ کی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کرنا جھوٹ ہے

بعض نادان یہ کہتے ہیں کہ تعزیہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نسبت ہوگئی ہے اور ان کا نام مبارک اس پر لگ گیا، اس لیے وہ تعظیم کے قابل ہوگیا۔ یہ تو صحیح ہے کہ معظم کی طرف نسب کی وجہ سے شے تعظیم کے قابل ہوجاتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہ نسبت سچی اور واقعی ہو، اپنی طرف سے تراشیدہ، بناوٹی، جھوٹی اور غیر واقعی نسبت کی وجہ سے کسی چیز میں کچھ عظمت اور عزت نہیں آتی، دیکھیے! سامری کے واقعہ گوسالہ، جس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے لوگوں نے اس خود ساختہ بچھڑے کی جھوٹی نسبت خدائے پاک کی طرف کردی تھی، مگر اس کے باجود اس بچھڑے میں نہ تو کسی قسم کی عظمت پیدا ہوئی اور نہ ہی اس وجہ سے اس کی تعظیم کی گئی، بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اب ہم اس کو جلا کر اس کی راکھ کو دریا میں بہا دیں گے۔ اب غور کر لیا جائے کہ جس تعزیہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے یہ نسبت جھوٹی ہے، کیوں کہ اس لکڑی وغیرہ کے تابوت کو کسی قسم کا تعلق حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، نہ تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان چیزوں کو کبھی ہاتھ مبارک لگایا، تاکہ حضرت کے چھونے سے وہ اشیاء متبرک ہوجائیں اور نہ ہی تعزیہ کے بنانے کا آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی حکم ہی فرمایا۔ البتہ اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کوئی لباس وغیرہ حضرت کے بدن مبارک سے لگا ہوا ہوتا تو صحیح اور سچی نسبت کی وجہ سے تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل تعظیم اور لائق اور احترام ہوتا، اگرچہ نذر وغیرہ افعال محرمہ کا ارتکاب اس کے ساتھ بھی ناجائز وحرام ہی ہوتا، مگر جائز حدود میں رہ کر اس کی عزت وحرمت اور تعظیم کرنے میں کسی کو کلام اور اعتراض نہ ہوتا، اس پر قیاس کر کے علم (جھنڈا) مہندی اور پنگھوڑا اور دُل دُل وغیرہ رسومات کا حکم بھی معلوم ہوسکتا ہے۔(بارہ مہینوں کے احکام)

کسی نے کہا تعزیہ توڑنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نام لگا ہے۔ ایک صاحب نے خوب جواب دیا کہ گوسالہ سامری میں اللہ میاں کا نام تھا، چناں چہ ارشاد ہے ﴿فقالوا ھذا الھکم والہ موسی﴾ موسی علیہ السلام نے اس کو کیوں توڑا؟ (کلمة الحق ص122)

1- مسئلہ: بہت لوگ ان دنوں میں تعزیہ بناتے ہیں اور بعضے اس کو اس قدر ضروری خیال کرتے ہیں کہ اگر چہ گھر میں کھانے کو نہ رہے یا بالکل بھی گھر میں نہ ہو، بلکہ قرض ہی لینا پڑے، خواہ کچھ بھی ہو، مگر تعزیہ ضرور بنے، یاد رکھو! تعزیہ کا بنانا ہی بہت بڑا گناہ ہے۔

2- مسئلہ: بعض لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس میں شہیدانِ کربلا تشریف لاتے ہیں اور اسی لیے تعزیوں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں، ان کے سامنے سر جھکاتے ہیں، ان پر عرضیاں لٹکاتے ہیں، یہ سب شرک ہے۔

3- مسئلہ: بعض لوگ تعزیہ کے ساتھ باجے بجاتے ہیں۔ اس کے دفن کرنے کی جگہ کو زیارت گاہ سمجھتے ہیں، مرد عورت آپس میں بے پردہ ہوتے ہیں، بعضے لوگ تعزیہ تو نہیں بناتے، لیکن مرثیہ یا شہادت نامہ ضرور پڑھتے ہیں اور پھر ان کو پڑھ کر روتے چلاتے ہیں۔ یاد رکھو! شریعت میں مصیبت کے وقت قصد کر کے رونا درست نہیں، نیز مرثیوں اور شہادت نامہ کی اکثر روایات بالکل موضوع اور غلط ہوتی ہیں، اس کے علاوہ خود التزام اس کا ناجائز ہے۔ (سال بھر کے مسنون اعمال ص 6)

4- مسئلہ: بعض لوگ محرم کے دنوں میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ دوسرے شہداء کے ذکر کو گوارا نہیں کرتے۔ حتی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے واقعات شہادت کے ذکر کو بھی پسند نہیں کیا جاتا اور اگر ان دنوں بدر واحد کے فضلاء صحابہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے تو عوام اہل سنت کی یہ حالت ہے کہ اس کو بھی ایک اجنبی اور بے تعلق ذکر سمجھتے ہیں، حالاں کہ اہل سنت والجماعت کا اس پر اتفاق ہے کہ جن حضرات نے اسلام کے ضعف اور احتیاج کے زمانہ میں تقویت اسلام کے لیے قتال اور مالی و جانی جہاد کیا ہے ان کا وہ قتال اور مالی انفاق ان لوگوں کے مالی اور جانی جہاد سے افضل ہے جنہوں نے اسلام کی قوت کے بعد ان امور خیر کو انجام دیا ہے، اس لیے اہل سنت کے نزدیک وہ حضرات جو جنگ بدر میں شریک ہوئے ہیں اپنے بعد والی جنگوں میں شریک ہونے والوں سے افضل ہیں، کیوں کہ فتح مکہ کے بعد اسلام کے ضعف اور احتیاج کا زمانہ ختم ہوگیا ہے اور اسلام کو قوت اور غلبہ حاصل ہونے کی وجہ سے اس قدر احتیاج اور ضرورت باقی نہیں رہی تھی کہ جس قدر فتح مکہ سے قبل احتیاج اور ضرورت تھی۔

عاشورہ کے متعلق غلط خیالات

1- مسئلہ: بعض میں مشہور ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ نہ رکھے، کیوں کہ یزید کی والدہ نے رکھا تھا، محض غلط ہے۔ (اغلاط العوام ص 114)

2- مسئلہ: بعض لوگ اس بچے کو جو محرم میں پیدا ہو اسے منحوس سمجھتے ہیں اور اس ماہ میں نکاح وغیرہ کو بھی ناجائز جانتے ہیں، یہ محض غلط ہے۔

3- مسئلہ: بعض لوگ تعزیہ کے ساتھ باجے بجاتے ہیں۔ اس کے دفن کرنے کی جگہ کو زیارت گاہ سمجھتے ہیں، یہ بھی غلط ہے۔

4- مسئلہ: بعض لوگ ان ایام میں شربت پلاتے ہیں اور اس میں ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس سے شہیدوں کی پیاس بجھے گی، کیوں کہ وہ پیاسے شہید ہوئے تھے تو سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس شربت نہیں پہنچتا، بلکہ اگر خلوص سے شرع کے موافق ہو تو ثواب پہنچتا ہے اور ثواب گرم وٹھنڈی چیز کا یکساں ہے۔ یہ نہیں ہے کہ گرم شے کا ثواب گرم ہو اور ٹھنڈی شے کا ثواب ٹھنڈا ہو اور پھر طرہ یہ کہ خواہ سردی ہو، خواہ گرمی، خواہ برسات، چاہے کوئی بیمار ہوجاوے، مگر شربت ضرور ہو۔

5- مسئلہ: بعض شہروں میں اس تاریخ میں روٹیاں تقسیم کی جاتی ہے اور ان کی تقسیم کا یہ طریقہ نکالا ہے کہ چھتوں کے اوپر کھڑے ہوکر روٹیاں پھینکتے ہیں، جس سے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں آتی ہیں اور اکثر زمین سے گر کر پیروں میں روندی جاتی ہیں، جس سے رزق کی بے ادبی اور گناہ ہونا ظاہر ہے، حدیث میں اکرام رزق کا حکم اور اس کی بے احترامی پر وبال، سلب رزق آیا ہے، خدا سے ڈرو اور رزق کو برباد مت کرو۔

6- مسئلہ: بعض لوگ اپنے بچوں کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے ہیں اور ان سے بعض بھیک بھی منگواتے ہیں، اس میں اعتقادی فساد تو یہ ہے کہ اس عمل کو اس طولِ حیات میں موٴثر جانتے ہیں، یہ صریح شرک ہے اور بھیک مانگنا بلا اضطرار حرام ہے۔ (اصلاح الرسوم ص 124)

7- مسئلہ: بعض لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ یاد رکھو! علیہ السلام کا لفظ صرف انبیاء علیہم السلام کے ناموں کے ساتھ بولا جاتا ہے، جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ کے دعائیہ کلمات لکھے جاتے ہیں، ایسے ہی دعائیہ کلمات حضرت حسین وحضرت حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی کہے جائیں۔

8- مسئلہ: بعض عورتیں دسویں محرم کو قبرستان جاکر قبروں کی لپائی کر کے ان کے اوپر مسور کی دال وغیرہ ڈالتی ہیں، جس سے مردوں کو کوئی نفع نہیں ہوتا۔ سو یہ مسئلہ محض غلط ہے۔

9- مسئلہ: بعض لوگ حضرات اہل بیت کی اہانت بر سر بازار کرتے ہیں، اگر ایام غدر (جنگ آزادی 1857ء)کے واقعات جس میں کسی خاندان کی عورتوں کاہتک ہوا ہو اس طرح علی الاعلان گائے جائیں اس خاندان کے مردوں کو کس قدر غیظ وغضب آئے گا؟ پھر سخت افسوس ہے کہ حضرات اہل بیت کے حالات اعلان کرنے میں غیرت بھی نہ آئے، بہت بُری بات ہے۔ (اصلاح الرسوم ص 124)

ذکر شہادت میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں

بعض لوگ اس روز مسجد وغیرہ میں جمع ہو کر ذکر شہادت وغیرہ سناتے ہیں، اس میں ثقہ لوگ غلطی سے شریک ہوجاتے ہیں اور بعض اہل علم بھی اس کو جائز سمجھنے کی عظیم غلطی میں مبتلا ہیں۔ در حقیقت یہ بھی ماتم ہے، گو مہذب طریقہ سے ہے، سینہ وغیرہ وحشی لوگوں کی طرح سے نہیں کوٹتے، لیکن حقیقت ماتم کی یہاں بھی موجود ہے۔

پہلی خرابی: ذکر شہادت سے مقصود ہیجان اور جلب غم اور گریہ وزاری کا ہوتا ہے، اس میں مقابلہ شریعت مطہرہ کا ہے، کیوں کہ شریعت میں ترغیب صبر مقصود ہے اور تعزیت سے یہی مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ مزاحمت شریعت کی سخت معصیت اور حرام ہے، اس لیے گریہ وزاری کو قصداً یاد کر کے لانا جائز نہیں، البتہ غلبہٴ غم سے اگر آنسو آجاویں تو اس میں گناہ نہیں۔

دوسری خرابی: شہادت کا قصہ بھی بیان کرنا یہ فی نفسہ روایات کا ذکر کردینا ہے، اگر صحیح ہوں تو روایات کا بیان کردینا فی ذاتہ جائز تھا، لیکن اس کے لیے لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور ایسے امور کے لیے تداعی واہتمام خود ممنوع ہے اور اس میں مناسبت اہل رفض کے ساتھ ہے، اس لیے ایسی مجلس کا منعقد کرنا اور اس میں شرکت کرنا سب ممنوع ہے اور قواعد شرعیہ بھی اس کے شاہد ہیں، یہ تو مجلس کا ذکر ہے، جس میں کوئی خلاف شرع مضمون نہ ہو اور جس میں مضامین بھی غلط ہوں یا بزرگوں کی توہین ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بُرا کہا جائے یا نوحہٴ حرام ہو تو اس کا حرام ہونا ظاہر ہے اور اس سے بدتر خود شیعوں کی مجالس میں جاکر شریک ہونا ہے۔ (اصلاح الرسوم 128)

اسلامی زندگی سے متعلق