جامعہ فاروقیہ کراچی کی سالانہ تقریب دستار بندی

idara letterhead universal2c

جامعہ فاروقیہ کراچی کی سالانہ تقریب دستار بندی

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

آ ج کی اس مجلس نے کئی دن سے مجھے رُلایا ہوا ہے
جامعہ فاروقیہ کراچی کے فضلاء کی دستاربندی کے موقع پر حضرت اقدس مولانا عبید الله خالد صاحب دامت برکاتہم نے بہتے آنسوؤں اوررندھی ہوئی آواز کے ساتھ طلباء کو قیمتی نصائح کی ابتدا ان کلمات سے کی۔

جلسہ دستار بندی کا دن ایک یادگار اور عجیب دن ہوتا ہے، جس دن طلباء ایک طرف آٹھ، گیارہ سال سے شروع کیے ہوئے سفر کے اختتام اور منزل مقصود پر پہنچنے کی وجہ سے خوشی سے سرشار ونہال ہوتے ہیں، وہیں دوسری طرف جامعہ کے درودیوار اور اساتذہ سے جدائی کے احساس سے رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں اور اسی کیفیت سے تقریباً سب اساتذہ بھی دو چار ہوتے ہیں کہ ایک طرف جن معصوم کلیوں پر انہوں نے دن رات محنت کی، آج ان کی محنت رنگ لے آئی ہے اور وہ کلیاں آج تناور اور ثمرآور بن چکی ہیں اور دوسری طرف ان کی جدائی کا احساس بے چین کیے ہوئے ہوتا ہے۔

دنیا کی آزمائشوں اور ہموم وغموم میں سے ایک سخت آزمائش اورغم اپنوں کی جدائی ہے۔

حضرت علی رضی الله عنہ کے اشعار ہیں #
          شیئان لو بکت الدماء علیھما
          عینای حتی تأذنا بذھاب
          لم تبلغ المعشار من حقیھما
          فقد الشباب وفرقة الأحباب

ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہاہے #
          دوش چوں طاؤس مینازیدم باغ وصل
          دیگر امروز از فراق یارمی پیچم چومار
          سود دریا نیک بودے گر نبودے بیم موج
          صحبت گل خوش بودے گر نیستے تشویش یار

الله تعالیٰ نے انسان میں یہ فطری صفت رکھی ہے کہ وہ جہاں رہتا ہے اس کے درودیوار اور وہاں کے انسانوں سے تعلق اور لگاؤ ہو جاتا ہے۔

صحابہ کرام رضی الله عنہم نے بھی جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی، تو مکہ کی یاد ستاتی تھی، امام بخاری رحمہ الله نے حضرت بلال رضی الله عنہ کے اشعار نقل کیے #
          ألالیت شعری ھل أبیتن لیلة
          بواد وحولی إذخر و جلیل

کاش! مجھے معلوم ہوتا کہ میں ایک رات مکہ میں اس طرح گذار سکوں گا کہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل ہوں گے۔
          وھل أردن یوما میاہ مجنة
          وھل یبدون لی شامة وطفیل

اور کیا پھر میں کبھی مجنة کے پانی پر اتروں گا او رکیا کبھی شامہ اورطفیل (مکہ کے قریب دو پہاڑیاں) اپنے سامنے دیکھ سکوں گا۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو جب یہ کیفیت معلوم ہوئی تو فرمایا: اللھم حبب إلینا المدینة کحبنا مکة أو أشد حبا

اے الله !ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا کر دے جیسے محبت اپنے وطن مکہ کی تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المرضی، رقم الحدیث:5677)

مدرسے میں رہتے ہوئے استاد اور شاگرد کا آپس میں اورمدرسے کے ساتھ ایک گہرا اور قلبی تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور یہ بے مثال دائمی اور قلبی تعلق صرف اور صرف دینی مدارس کاامتیاز ہے۔

اگرچہ اس تعلق میں رفتہ رفتہ کمی آتی جارہی ہے، بلکہ عجیب بات ہے کہ شیخ سعدی رحمہ الله ساتویں ہجری میں گزرے ہیں، یعنی آج سے تقریباً ساڑھے سات سو سال پہلے شیخ سعدی رحمہ الله اپنی کتاب میں استاد اورشاگرد (اگرچہ وہ دینی علوم کے استاد اور شاگرد نہیں) کی کم زوری کا شکوہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں #
          یا وفا خود نبود در عالم
یا مگر ک         س دریں زمانہ نہ کرد
(یا وفا کبھی دنیا میں تھی ہی نہیں یا شاید کسی نے اس زمانہ میں کی ہی نہیں)

          کس نیا موخت علم تیر از من
          کہ مرا عاقبت نشانہ نہ کرد
(مجھ سے کسی ایسے شخص نے تیرا ندازی کا علم نہیں سیکھا کہ جس نے انجام کار مجھ ہی کو نشانہ نہ بنایا ہو )

بلکہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کو دیکھیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے دو رمیں بھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھنے والے اور درس میں بیٹھنے والے بھی سب کے سب فرماں بردار نہیں تھے، بلکہ کچھ ٹیڑھے اور بد نصیب بھی تھے، جن کو منافقین کہا جاتا ہے۔

لیکن مجموعی اعتبار سے اور اکثریت آج چودہویں صدی میں بھی الحمدلله دینی مدارس میں پڑھنے والے ان طلباء کی ہے جو اپنی مادر علمی اوراساتذہ پر جان نچھاور کرتے ہیں اور پھر جب جدائی کے لمحات قریب آتے ہیں تو اساتذہ اور تلامذہ دونوں غمگین ہوتے ہیں۔

پھر طلباء کی ایک بڑی تعداد تو وہ ہوتی ہے جن کی جدائی عارضی ہوتی ہے اور وہ شوال کے مہینے میں دوبارہ اپنی مادر علمی کی طرف لوٹ آتے ہیں، البتہ دورہ حدیث کے طلباء کی جدائی طویل ہوتی ہے اور اس موقع پر ان کے سروں پر اساتذہ کی طرف سے دستار فضیلت رکھی جاتی ہے۔ دستار فضیلت اساتذہ کی طرف سے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے کہ اب یہ طالب علم اس قابل ہو گیا ہے کہ یہ خود کتابوں سے استفادہ کرسکتا ہے او رعوام دینی راہ نمائی کے لیے ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

یہ دستار بندی کا عمل آج سے نہیں، بلکہ ہمارے اکابر کے دور سے یہ مبارک سلسلہ چلا آرہا ہے، اب اگر کہیں پر تصویر سازی اور ویڈیوگرافی جیسے منکرات کے ذریعے اس مبارک سلسلے کو مکدر کیا جارہا ہو تو وہاں اصلاح ان خرابیوں اور مفاسد کی ہونی چاہیے۔

جامعہ فاروقیہ کراچی کو حضرت شیخ المشائخ مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کے زمانے سے آج تک یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ چاہے جلسہ دستار بندی ہو یا اور کوئی بڑے سے بڑا پروگرام ،اس طرح کے منکرات سے سو فیصد الحمدلله پاک اور محفوظ ہوتا ہے۔باقی رہا مطلقاً جلسہ دستار بندی کا عمل، تو یہ اکابرین سے چلا آرہا ہے ۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں:

دستار بندی اور اعطاء سند وصیت عملی ہے، جس سے مقصود فارغ شدہ طالب علم کو اتباع صراط مستقیم کی وصیت مقصود ہے او ران کو بتلانا ہے کہ تم ہمارے نزدیک عامل شریعت ہو اور مقتدا بننے کی تم میں استعداد پیدا ہوگئی ہے۔ اب ہم تمہاری اس قابلیت کو عملاً ظاہر کرتے ہیں۔

نیز عوام کوبھی اس صورت سے یہ وصیت مقصود ہے کہ یہ فارغ شدہ طالب علم اب عالم ہو گئے ہیں، اب ان کا ادب کرنا چاہیے او ران سے مستفیض ہونا چاہیے۔ (خطبات حکیم الامت:26/198)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
سب کو معلوم ہو گا کہ مدرسہ میں یہ معمول ہے کہ جو بچے حفظ قرآن سے فارغ ہوتے ہیں انہیں ایک چھوٹا سا عمامہ دیا جاتا ہے ،تاکہ برکت بھی ہو او رانہیں اس سند کا لحاظ بھی رہے اور کوئی کام خلاف وضع نہ کریں، نیز دوسرے بچوں کو بھی ترغیب ہو کہ ہم بھی اس شرف کو حاصل کریں۔ (خطبات حکم الامت:16/209)

”تاریخ دارالعلوم دیوبند“ میں ہے: جو طلباء علوم وفنون میں امتیازی استعداد کے مالک ہوتے ہیں ان کو سند دینے کے علاوہ قدیم درس گاہوں کے معمول کے مطابق مجمع عام میں اساتذہ کے ہاتھوں سے ان کے سروں پر دستار باندھی جاتی ہے، جو مدارس عربیہ کی اصطلاح میں ”دستار فضیلت“ سے موسوم ہے۔ (تاریخ دارالعلوم دیوبند:2/301)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله اپنی دستار بندی کا واقعہ بیان فرماتے ہیں:
کہ جب ہم لوگوں کو فراغ کے بعد مدرسہ سے سند ودستار ملنے کی تجویز تھی، ایک مرتبہ میں نے اور فارغ طالب علموں نے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمہ الله کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت یہ معلوم ہوا کہ ہم لوگوں کو مدرسہ سے سند مل رہی ہے ،مگر ہم اپنے کو اس کا اہل نہیں سمجھتے، اس لیے اگر یہ موقوف کر دیا جائے تو بہترہے ،ورنہ مدرسہ کی بدنامی ہے، مولانا کو جوش آگیا، فرمایا: کون کہتا ہے کہ اہلیت نہیں ہے، اپنے اساتذہ کے سامنے ایسا ہی سمجھنا چاہیے ،ورنہ خداکی قسم !جہاں جاؤ گے تم ہی تم ہو گے۔ (ملفوظات حکیم الامت:4/268)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
کہ دیوبند کے جلسہ دستار بندی میں کثرت سے دیہاتی آئے تھے، مگر تعجب ہے کہ اس کثرت پر شور وغل کا پتہ نہیں تھا، صاحب جنٹ خود اس جلسہ میں موجود تھے، وہ بہت تعجب سے کہتے ہیں کہ میں نے کوئی جلسہ ایسا نہیں دیکھا ہے جس میں اس قدر کثرت سے آدمی ہوں اور سب مہذب … مہتمم صاحب نے ایک لاکھ آدمیوں کے کھانے کا سامان کر لیا تھا، جنٹلمین لوگ حیرت میں تھے کہ یہ ملاّ اتنا بڑا انتظام کس طرح کریں گے، مگر بحمدالله بہت اچھا رہا، کھانا وقت پر ملا اور نہایت صفائی ونفاست کے ساتھ تیار کیا گیا تھا۔ (ملفوظات حکیم الامت:18/119)

جامعہ فاروقیہ کراچی میں ہر سال سینکڑوں فضلاء کے سروں پر دستار فضیلت سجائی جاتی ہے، اس سال بھی 5 رجب کا دن اس مبارک عمل کے لیے طے ہوا او رجلسے سے دو دن قبل اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔

چناں چہ5 رجب بروز ہفتہ صبح نو بجے جلسے کا آاغاز ہو گیا اورتقریباً گیارہ بجے یہ تقریب سعید اختتام پذیر ہوئی اور سب سے اہم بات یہ کہ جیسے حضرت شیخ المشائخ مولانا سلیم الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کی حیات مبارکہ میں اس طرح کے پروگراموں میں تصویر سازی یا ویڈیو گرافی کا تصور تک نہیں ہوتا تھا، اسی طرح آج بھی الحمدلله پورے مجمع میں کسی ایک فرد کو بھی تصویر سازی یا ویڈیو گرافی کی اجازت یا موقع نہیں دیا جاتا اور یہ مبارک مجلس بغیر کسی منکر کے اختتام پذیر ہوئی۔

آج کل دستار بندی کے موقع پر ایک خرابی جو عام ہو رہی ہے، ضروری محسوس ہوا کہ اکابرین کے فتاوی کی روشنی میں اس خرابی کی نشان دہی کی جائے۔

اور وہ خرابی ہے فضلاء کے گلوں میں ہار پہنانا، دستار بندی کے موقع پر آنے والے مہمان اپنے اپنے رشتہ دار فاضل کے گلے میں ہار پہنانے کو ضروری سمجھتے ہیں او رایک عجیب ناپسندیدہ منظر بن جاتا ہے۔

جامعہ فاروقیہ کراچی میں الحمدلله اس حوالے سے بھی کافی پابندی کی جاتی ہے اور فضلاء کو سمجھایا جاتا ہے کہ اس ناپسندیدہ عمل سے بھی گریزکریں۔

کسی انسان کے گلے میں ہار پہنا نا کیسا ہے؟
”فتاوی رحیمیہ“ میں ہے:
سوال: ہماری مسجد میں جس رات تراویح میں قرآن ختم ہوتا ہے، اس رات حافظ صاحب کی عزت افزائی کے لیے پھولوں کا ہار پہنایا جاتا ہے، یہ فعل کیسا ہے؟

جواب: ختم قرآن کی شب حفاظ کو پھولوں کا ہار پہنایا جاتا ہے یہ رواج بُرا اور قابل ترک ہے اوراس میں اسراف بھی ہے۔ (فتاوی رحیمیہ:6/258)
”زبدة المناسک“ میں ہے:

آج کل یہ رواج ہو گیا ہے کہ جو شخص حج پر جاتا ہے تو دوست احباب خوش بو دارپھولوں کے ہار بنا کر اس کے گلے میں ڈالتے ہیں، ایک تویہ رسم کافروں اور فیشن پرست لوگوں نے ایجاد کی ہے، ان میں ہی مروج ہے ،دین دار علماء فضلا اس کو پسند نہیں کرتے، نہ ان کا عمل ہے، بلکہ ان کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ (زبدة المناسک،ص:349)
جلسے میں حضرت اقدس مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مختصر مگر نہایت قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں، جن کو نذر قارئین کیا جاتا ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
آج کی یہ مجلس، اس نے کئی دن سے مجھے رلایا ہوا ہے، ہمارے عزیز طلباء کچھ دنوں بعد ہم سے جدا ہوں گے، یہ جو سند آپ پڑھتے ہیں اس کی اہمیت کو سمجھیں، جتنے بھی نام اس سند میں ہیں ، یہ سلسلہ آپ صلی الله علیہ وسلم پر جاکر مکمل ہوتا ہے، آپ غور فرمائیں کہ صحابہ کرام آپ صلی الله علیہ وسلم میں جذب ہوگئے اور وہ نور اور روشنی آپ صلی الله علیہ وسلم سے ہر ہر صحابی میں منتقل ہوئی:”أصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم“․ (جامع الأصول في أحادیث الرسول، الکتاب الأول في الفضائل والمناقب، رقم الحدیث:6369)

یہ سلسلہ وہاں سے چلا ہے اور آپ تک پہنچا ہے، ماضی قریب میں میاں نور محمد صاحب جھنجھانوی رحمة الله علیہ او رحاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی رحمة الله علیہ ایک دوسرے میں جذب ہو گئے او رپھر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمة الله علیہ اورحضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة الله علیہ، حضرت حاجی صاحب میں جذب ہو گئے اوراسی طرح حضرت شیخ الاسلام شخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی رحمة الله علیہ اپنے شیخ حضرت شیخ الہند میں جذب ہو گئے اورہمارے حضرت والد ماجد قدس الله تعالیٰ سرہ اپنے شیخ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ میں جذب ہو گئے، ان کا یہ نور آپ کو دائیں بائیں نظر آرہا ہے، آپ سے گزارش ہے کہ صرف حروف اور نقوش کے چکر میں نہ پڑیں، جذب ہوں، اپنے اساتذہ میں جذب ہوں، ان کے اندر کی کیفیات اپنے اندر لیں، دور بہت خوف ناک ہے۔ بہت خطرناک ہے، اگر آپ مقابلہ کرسکیں گے تو وہ اسی کیفیت سے مقابلہ کرسکیں گے، اسی جذب سے مقابلہ کرسکیں گے۔

جیسے صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین، کچھ نہیں تھا ان کے پاس، نہ خوراک تھی، نہ پوشاک تھی، نہ چمک تھی، نہ دمک تھی، نہ دنیا کے تماشے تھے، کچھ نہیں تھا، لیکن ساری دنیا کو زیر کر دیا، ساری دنیا پر غالب آگئے۔

اور پھر ماضی قریب میں ہمارے اکابر نوّر الله مرقدہم ، انگریز اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ ہمارے اس ملک پر قابض ہوا، تو ہمارے اکابر نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا ، آپ جانتے ہیں کہ اس جدوجہد کے نتیجے میں، دارالعلوم دیوبند کے نتیجے میں، الله رب العزت نے پورے خطے کی کایہ پلٹ دی، پورے عالم کی کایا پلٹ دی، آپ سے بھی گزارش ہے درخواست ہے کہ آپ ان کیفیات کو اپنے اندر لیں، اپنے آپ کو دنیا کے تماشوں کے پیچھے نہ لے جائیں، آپ سے گزارش ہے، درخواست ہے کہ جدیدیت، مادیت اور مغربیت کے ان کے بتوں کو پاش پاش کر دیں، توڑ دیں، ان کے پیچھے نہ چلیں، خدانخواستہ خدانخواستہ اگر آپ نے یہ غلطی کی تو آپ نہ صرف یہ کہ خود برباد ہو جائیں گے، بلکہ اپنے اساتذہ کے لیے بھی تکلیف کا سبب بنیں گے اور آپ کو حاصل کچھ نہیں ہوگا۔

میرے دوستو! وہ ساتھی جواب جائیں گے اور جن کے سروں پر اب ان کے اساتذہ اعتماد کا عمامہ رکھیں گے، یہ معمولی چیز نہیں ہے، اس کو معمولی نہ سمجھیں، یہ جو اساتذہ آپ کے سروں پر رکھیں گے، آپ کو عطا فرمائیں گے ، مرتے دم تک آخری سانس تک اس کی لاج رکھنی ہے، دھوکہ نہیں دینا ہے آج بڑا دکھ اور افسوس ہوتا ہے، دل پر چھریاں چلتی ہیں ، جب ہمارے حضرت نوّرالله مرقدہ کے بعض شاگرد، ایسی حرکتوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، دل ٹوٹ جاتا ہے، افسوس ہوتا ہے۔

میرے دوستو! یہ بے وفائی ہے، یہ خیانت ہے، یہ غداری ہے، اورالله تعالیٰ اسے معاف نہیں فرمائیں گے، وہ کوئی بھی ہو ۔اس لیے آپ سے گزار ش ہے کہ کہ آپ مسجد کو پورے اہتمام کے ساتھ جا کر سنبھالیں، آپ مدرسے کو پورے اہتمام کے ساتھ جاکر سنبھالیں، یہاں جتنے ساتھی بیٹھے ہیں یہ آج اس کا عہد کریں کہ ہم جاکر مدارس قائم کریں گے، ہر ساتھی مدرسہ قائم کرے، چاہے اسے صحرا میں قائم کرنا ہو، چاہے اسے جنگل میں قائم کرنا ہو، چاہے اسے ریگستان میں قائم کرنا ہو، چاہے اسے دیہات میں قائم کرنا ہو، چاہے اسے شہر میں قائم کرنا ہو، مدرسہ قائم کرو او رہم وہاں اسی سلسلے کو جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے چلا ہے شروع ہوا ہے او رہمارے اساتذ ہ تک پہنچا ہے، ہم اس سلسلے کو قائم رکھیں گے، اس جھنڈے کو بلند رکھیں گے، اس شمع کو فروزاں او رچمکتا دمکتا رکھیں گے۔ آپ یقین رکھیں کہ الله تعالیٰ کی سو فیصد مدد آپ کے ساتھ ہوگی، آپ کبھی نہ گھبرائیں #
          ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
          تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

جیسی بھی تلاطم خیز موجیں آجائیں الله تعالیٰ مدد فرمائیں گے اورالله تعالیٰ آپ کے حامی وناصر ہوں گے۔

تیسری بات : اپنے اعمال کی فکر کریں، آپ کی نمازیں نہایت قو ی او رمضبوط ہوں، آپ کا قیام ، آپ کارکوع، آپ کے سجود، آپ کی دعا، لمبی لمبی دعائیں کریں، مناجات کریں، سرگوشیاں کریں، الله تعالیٰ سے، دن میں بھی کریں، رات میں بھی کریں، نماز کے بعد بھی کریں، مستقل آپ کی سرگوشیاں الله تعالیٰ سے چل رہی ہوں اور الله تعالیٰ سے مانگیں، الله تعالیٰ سے مانگنا سیکھیں۔ اسی طرح آپ سے گزار ش ہے کہ آپ جہاں بھی جاکر کام کریں، حکمت کے ساتھ کام کریں ،بصیرت کے ساتھ کام کریں، تحمل کے ساتھ کام کریں، وقار کے ساتھ کام کریں، اپنے آپ کو اور اس عظیمدین اسلام کو بے وقار نہ کریں او رحکمت اور سمجھ داری کے ساتھ کام کریں، جہاں جائیں وہاں آپ نافع او رمفید بنیں، ہر شخص کو یہ احساس ہو کہ یہ مخلص ہیں، یہ با اخلاق ہیں ،ان کی گفت گو، ان کی بات چیت ، ان کا معاملہ نہایت مہذب ہے، نہایت بہترین ہے، دنیا کے پیچھے نہ پڑیں، بات کڑوی ہے لیکن سچ ہے، وہ یہ کہ مدرسے کو قائم کریں، آج ہمارے بہت سے عزیز فضلاء جن کے لیے دن رات ہماری دعائیں ہیں او ر رہیں گی ان شاء الله جب تک یہ سانس باقی ہے، لیکن وہ تذبدب کا شکار ہیں، تردد کا شکار ہیں ذہنی اور قلبی کش مکش میں مبتلا ہیں ،کیا ہو گا؟ کچھ نہیں ہوگا،آپ الله کے لیے خالص ہو جائیں ، آپ اس سلسلے میں جذب ہو جائیں، آپ یقین کریں آپ کا ہر کام الله کرائیں گے اور ایسا کرائیں گے، کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، آپ سوچ بھی نہیں سکتے اتنا عمدہ اتنا بہترین، اتنا شان دار، آپ شادی کے حوالے سے پریشان ہوں گے، الله تعالیٰ ایسا حل فرمائیں گے کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے، آپ معاش کے حوالے سے فکر مند ہیں، بالکل بے فکر ہو جائیں ،آپ الله کے ہو جائیں۔

”من کان لله کان الله لہ“ جو الله کا ہو جاتا ہے تو الله اس کے ہو جاتے ہیں۔ الله کتنے بڑے ہیں، الله سے بڑا تو کوئی ہے نہیں، سب سے بڑے الله ہیں،آپ کی ہر ضرورت کا اور آپ کے ہر کام کا ذمہ الله کے پاس ہو گا اور الله آپ کی ہر طرح سے مدد فرمائیں گے۔

اور بھائی آخری گزارش اور درخواست ہے، وہ یہ کہ اپنی مادرِ علمی سے، جس کے آپ پر بڑے احسانات ہیں، اس کی ہر ہر چیز کا آپ پر احسان ہے، اس کے درودیوار کا آپ پر احسان ہے، اس کے فرش کا آپ پر احسان ہے، اس کے چمن، پھولوں پتوں کا آپ پر احسان ہے، اس کے کمروں ، درس گاہوں کا آپ پر احسان ہے، ہر چیز کا آپ پر احسان ہے اوربھائی اساتذہ ان کا تو کتنا بڑا احسان ہے، خدانخواستہ خدانخواستہ آپ اگر ان سے رابطے میں نہ رہے تو یاد رکھیں کہ پھر سلسلہ کٹ جائے گا ،لائن کٹ جائے گی اور جب سلسلہ کٹ جاتا ہے، لائن کٹ جاتی ہے اور پاور ہاؤس سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے تو فانوس چاہے کروڑوں روپے کا ہو ،روشنی نہیں ہو گی، لیکن اگر چھوٹاسا بلب بھی ہو اور اس کا تعلق پاور ہاؤس سے ہے، وہ روشن ہوتا ہے، آپ اپنا تعلق اپنے پاور ہاؤس سے رکھیں اور آپ کا پاور ہاؤس جامعہ فاروقیہ ہے، اس کے اساتذہ ہیں ، ان سے ربط میں رہیں،میں اکثر آپ کو سناتا ہوں #
          پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

اگرآپ شجر سے، تنے سے خدانخواستہ ٹوٹ گئے، شاخ، ٹہنی اگرتنے سے ٹوٹ جاتی ہے تو آپ یاد رکھیں کہ پھر وہ خشک ہو جاتی ہے، اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں، وہ ٹہنی سوکھ جاتی ہے اور وہ پیروں میں پامال ہوتی ہے اور آخر میں وہ چولہے میں جلا دی جاتی ہے۔

لیکن وہ شاخ ، ٹہنی جو شجر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، وہ سر سبز دشاداب ہوتی ہے ،اس میں کلیاں آتی ہیں، اس میں پھول کھلتے ہیں، اس میں پھل آتے ہیں اور سارا عالم اس سے مستفید ہوتا ہے۔

میرے دوستو! آپ یاد رکھیں کہ آپ اپنی مادر علمی سے جڑے رہیں، اپنے اساتذہ سے جڑے رہیں، جو طریقہ ربط کا ہو سکتا ہو ہر حال میں اسے اختیار کریں اور پھر میں آپ سے گزارش کروں گا کہ احساس محرومی کا، احساس کم تری کا شکار نہ ہوں، کبھی بھی وہم بھی نہیں ہونا چاہیے آپ کو کہ خدانخواستہ آپ عالم بنے ہیں تو آپ کسی سے کم تر ہیں، نہیں نہیں، بہت بڑا گناہ ہے، قرآن کا حامل محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا نسبت والا وہ کسی سے کم ہو سکتا ہے ؟ ! بہت بڑا گنا ہ ہے ،ہمیشہ یاد رکھیں کہ اپنے آپ کو آپ صلی الله علیہ وسلم سے منسوب کریں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل میں خوب اہتمام کریں، آپ کا شعار ہو کہ آپ عمامہ استعمال کریں، پریشان نہ ہوں، چاہے شہر میں رہیں، چاہے دیہات میں رہیں، چاہے اپنے ملک میں رہیں، چاہے دنیا کے کسی اور ملک میں جائیں ،کہیں بھی آپ ہوں اس سنت میں طاقت اتنی ہے کہ اپنے تو اپنے، غیر بھی متاثر ہوتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم والی وضع اختیار کریں، آپ کا لباس، آپ کا چہرہ میں یہاں جمعے میں کہتا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم عاشق رسول ہیں، کیسے عاشق رسول ہو؟ آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کیا ہمارے سامنے نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کی یہ شان ہے کہ آپ کے سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے انگوٹھے تک ہر چیزقیامت تک محفوظ ہے، کوئی چیز مخفی نہیں۔

الله تعالیٰ ہمارے اساتذہ کو جزائے خیر عطا فرمائے او ران محدثین کو جزائے خیر عطا فرمائے، جنہوں نے ایک ایک چیز ہم تک پہنچائی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے سر کے بال کیسے تھے، آپ کی پیشانی کیسی تھی، آپ کی بھنویں کیسی تھیں، آپ کی پلکیں کیسی تھیں، آپ کا رخسار مبارک کیسا تھا، آپ کی ناک کیسی تھی، آپ کی ناک اور لب کے درمیان فاصلہ کتنا تھا؟ آپ کے ہونٹ کیسے تھے، آپ کی داڑھی کیسی تھی، آپ کے کندھے کیسے تھے، آپ کا سینہ کیسا تھا؟ کون سی چیز ہے جو مخفی ہے ؟ !

اور ویسا چہرہ مبارک ،ویسی ذات مبارک قیامت تک کسی کی نہیں ہوسکتی ۔ہم کہتے ہیں اپنے آپ کوعاشقرسول اور شکلیں بنائی ہوئی ہیں جوبائیڈن جیسی، شکلیں بنائی ہوئی ہیں پیوٹن جیسی، شکلیں بنائی ہوئی ہیں بدمعاش میکرون جیسی ،ہم عاشق رسول ہیں؟! میرے دوستو! ہمیں اس معاملے میں بہت مضبوط ہونا چاہیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر ہمیں عمل کرنا ہے، مرتے دم تک عمل کرنا ہے، اسی کا پرچار کرنا ہے، یہی ہماری ذمہ داری ہے، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے آپ وارث ہیں ، یہ آپ کا کام ہے او رکبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ خدانخواستہ وہ لوگ جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں سے فراراختیار کر رہے ہیں، انہیں شرم آتی ہے سنت پر عمل کرنے میں، جان چھڑاتے ہیں، آپ کبھی یہ نہ سوچیں، شیطان وسوسے ڈالے گا کہ فلاں فلاں کام کرنے والے تو بہت ہیں، ہم تو بہت تھوڑے ہیں تو آپ یاد رکھیں کہ خوش خبری آپ کے لیے ہے، وہ لوگ جو تھوڑے ہوں گے، وہ لوگ جو تنہا ہوں گے ،وہ لوگ جو پہچانے نہیں جائیں گے اس دور کے اندر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” بدأ الاسلام غریبا وسیعود کما بدأ․“ (الجامع الصحیح لمسلم، رقم الحدیث:145)

جب اسلام آیا تھا تب بھی یہی تھا، یہ وحدانیت کی بات، یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنی، یہ توحید کی بات ؟! آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک، آپ کی تعلیمات، آپ کی سنت، سب اجنبی تھی اور آپ نے فرمایا کہ پھر ایک وہ وقت آئے گا، ”وسیعود کما بدأ“ عنقریب وہ وقت آئے گا کہ اسلام پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا۔

آج خاندان کے اندر، مسلمان گھرانے، مسلمان خاندان، اپنے نوجوانوں سے کیا کہتے ہیں کہ بھائی یہ داڑھی؟! یہ کوئی داڑھی رکھنے کی عمر ہے؟! یہ کوئی مسجد جانے کی عمرہے؟ یہ کوئی نماز پڑھنے کی عمر ہے؟ مسلمان کہتے ہیں ،مسلمان ماں باپ اپنی اولادوں سے کہتے ہیں لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ ”فطوبی للغرباء“ یہ جواجنبیت کی زندگی گزاریں گے اور تنہا ہوں گے خوش خبری انہی کے لیے ہے اور آپ یاد رکھیں، احادیث آپ پڑھ چکے ہیں کہ قیامت تک ایک ایسا طائفہ اہل حق کا ہر حال میں موجود رہے گا ،الله تعالیٰ ہمیں ان میں شامل فرمائے۔

میرے دوستو! اس کا اہتمام فرمائیں اور دنیا کے اعتبار سے بھی کبھی پریشان نہ ہوں کہ مسلمان مشکلات میں ہیں، مسلمان کم ہیں، مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، مسلمان ختم ہو رہے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے اسلام میں عجیب صفت رکھی ہے کہ آپ اس کو جتنا دبانے کی کوشش کریں گے یہ اتنا ہی ابھرے گا #
          جہاں میں اہل ایماں مثل خورشید جیتے ہیں
          اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

ان کو کوئی ڈبو نہیں سکتا، ان کو کوئی ختم نہیں کرسکتا، آپ ہر حال میں رہیں گے۔ بس آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنے اساتذہ سے ، اپنی مادر علمی سے، اپنے سلسلے سے نہ صرف یہ کہ مربوط رہیں، بلکہ جو بات میں نے شروع میں کہی کہ آپ اپنے سلسلے میں اپنے آپ کو جذب کرنے کی کوشش کریں، تو پھر آپ جیسا کوئی نہیں ہو گا، پھر آپ ہی آپ ہوں گے اور دین کی خدمت جیسے آپ کے اساتذہ نے آپ پر کی، اس طریقے سے اس سلسلے کو آگے بڑھائیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مجالس خیر