مواعظ وملفوظات – افادات: شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب زید مجدھم

مواعظ وملفوظات
افادات: شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب زید مجدھم

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

28/ شوال المکرم1443ھ کو حضرت اقدس دامت برکاتہم نے جامعہ اور جامعہ کی شاخوں کے تمام اساتذہ کرام سے اصلاحی باتیں فرمائیں۔

فرمایا… ہم جس ادارے میں کام کررہے ہیں یہ ادارہ خالصتاً الله کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور الحمدلله ایک طویل دور ہے حضرت اقدس قدس الله سرہ کا، جس کا مشاہدہ ہم میں موجود بہت بڑی تعداد نے ایک طویل عرصے کیا ہے کہ خالص الله کی رضا کے لیے انہوں نے مجاہدات بھی کیے، قربانیاں بھی دیں اور بہت عظیم الشان سعی اور کوشش فرمائی، اس کے نتیجے میں آج یہ ادارہ قائم بھی ہے اور خدمات بھی انجام دے رہا ہے۔

تو ہمیں اس بات کا لحاظ اور خیال رکھنا چاہیے کہ ہم یہاں ملازم اور ایک نوکری کرنے والے کی طرح سے کام نہ کریں، بلکہ اس کو الله تعالیٰ کی طرف سے ایک اعزاز بھی سمجھیں اور اپنی نیت کو بھی مسلسل بہتر سے بہتر کرتے رہیں کہ یہ خالص الله کی رضا اور خو ش نودی کے لیے ہے، یہ پورے ملک کے لوگوں کا آپ حضرات پر اعتماد ہے، اس اعتماد کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کوآپ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ آج کا دور ایسا ہے کہ اس میں اگر وہ اپنے بچوں کو اسکولوں میں بھیجیں یا اور کوئی دنیاوی کام کرانا چاہیں تو اس کے بھی مواقع موجود ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ،اس سب سے اعراض کرکے، وہ اپنے بچوں کو جامعہ میں بھیجتے ہیں، دیگر مدارس میں بھیجتے ہیں تو یہ ہمارے علماء پر ایک اعتماد ہے، مدارس پر اعتماد ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے عالم بنیں، دین دار بنیں، تو اب ہماری ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے ان کے آنے کے بعد کہ ان کا دل وجان سے استقبال کریں او رہم ان کی جوخدمت ہو سکتی ہے وہ خدمت انجام دیں او راس خدمت میں ان کی تعلیم کی جو ذمہ داری ہمارے اوپر آتی ہے بالکل اسی طرح، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ وہ تربیت کی ذمہ داری ہے، ہم بعض دفعہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ،ہم ان کو قواعد تو سکھا رہے ہوتے ہیں ،ہم ان کو مسائل تو سکھا رہے ہوتے ہیں، ہم ان کو کتابیں تو حل کروارہے ہوتے ہیں، لیکن ہم بہت سی دفعہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہمیں انہیں ایک بہت مضبوط مسلمان بھی بنانا ہے اور ایسا نہ ہو کہ یہ عالم تو بن جائے، لیکن عالم بننے کے بعد وہ فرائض ہی سے کوتاہی کرنے والا ہو اور اخلاقیات کے اعتبار سے وہ متاثر اورکم زور ہو اور اس کے دل میں وہ جذبہ اور کیفیت نہ ہو جو ہمارے اکابر کی تھی اوراسلام کا ہم سے مطالبہ ہے، تو اس حوالے سے ہمیں ہر وقت فکر مند ہونا چاہیے، چاہے کتاب ہمارے پاس متوسطہ اول کی ہو یا دورہ حدیث کی تھی ہو، یا تخصص کی ہو اور چاہے ہم بچے کو حفظ کرارہے ہوں یا بچے یا بچی کو ناظرہ پڑھا رہے ہوں۔یہ کیفیت ہمارے اوپر طاری ہونی چاہیے۔

میں نے کئی دفعہ آپ سے عرض کیا ہے کہ حضرت رحمة الله علیہ نے جو اپنے حالات لکھے ہیں اس میں ہے کہ حضرت فرماتے ہیں کہ جس استاد سے میں نے قرآن پڑھا ہے وہ حافظ نہیں تھے، لیکن ان کا معمول یومیہ ایک قرآن پڑھنے کا تھا، تو الله تعالیٰ نے مجھے ایسے استاد سے قرآن پڑھوایا۔

چناں چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے حضرت رحمہ الله کی زندگی میں قرآن بہت مؤثر انداز میں نظر آتا تھا، قرآن کریم سے لگاؤ، قرآن کریم کی تلاوت ، قرآن کریم سے اشتغال… تو ہماری بھی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے طلباء میں ان چیزوں کو منتقل کریں اور یہ اسی صورت میں ہو گا جب ہم خود عمل کر رہے ہوں۔

ہماری زندگی کے اندر اہتمام ہو گا، ہم اگر صف اول کا اہتمام کریں گے، ہم مسجد میں زیادہ وقت گزارنے کا اہتمام کریں گے، ہم درس گاہوں کے اندر طلبا سے ان موضوعات پر باتیں کریں گے تو یقینا اس کا اثر طلبا پر پڑے گا۔ طلباء اساتذہ کی بات کو بہت توجہ سے لیتے ہیں، لہٰذا ہم تعلیمی اعتبار سے بھی خوب محنت کریں اور اس کے لیے بھی ہم سرسری انداز اختیار نہ کریں، بلکہ ہمارے پاس اگر چھوٹی سی کتاب ہے، اس کی بھی ہم تیاری کرکے جائیں اور ساتھ ہی جہاں ہمیں موقع ملے ہم ان کی تربیت کے حوالے سے، ان کی اخلاقی ترقی کے حوالے سے بھی بات کریں۔

اس کے علاوہ ہم درس گاہ میں حاضری کا اہتمام کریں اور خود حاضری لینے کا اہتمام کریں ،اگر آپ خود حاضری لینے کا اہتمام نہیں کر رہے بلکہ کسی طالب علم یا امیر کے سپرد کر دیا تو آپ کی درس گاہ پر گرفت کم زور ہو جائے گی، طلبا پر آپ کی گرفت ہونی چاہیے اور وہ اسی صورت ہوگی جب آپ خود حاضر ی لینے کااہتمام کریں گے اور جو طالب علم غیر حاضر ہواگلے دن اس کو مناسب تنبیہ ہو، اسے سمجھائیں، اگر غیر حاضر کو اگلے دن تنبیہ نہیں ہے تو اس حاضری کا فائدہ نہیں۔

آپ یاد رکھیں کہ ایک مدرس اور استاذ وہ اگر چاہتا ہے کہ اس کی درس گاہ پر گرفت ہو تو اس کے لیے خود حاضری لینا بہت ضروری ہے اور خود اپنی حاضری یقینی بنانا او رگھنٹے کے آخر تک درس گاہ میں رہنا یہ انتہائی ضروری ہے، اگر کسی وجہ سے آپ کا سبق 40 منٹ یا50 سے پہلے ختم ہو گیا ہے تو آپ دو چار منٹ اس میں تربیت کی باتیں کریں، ہم اس کو یونہی رائیگاں اور ضائع نہ کریں۔

طلبا کرام سے عبارت سننے کااہتمام لا علی التعین کریں، طلبائے کرام سے عبارت پڑھوائیں، طلبائے کرام سے سبق سنیں، ہمیں یاد ہے کہ ہمارے اساتذہ ہر جمعرات کو جو سبق پڑھا ہے اس کے بارے میں سوالات کرتے تھے تو ان چیزوں کا اہتمام بھی طالب علم کی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔

اسی طرح ہم طلبائے کرام کو سبق بہت عام فہم، بہت آسان اورسہل انداز میں سمجھائیں، سبق کو ہم مرتب کرکے لائیں اور اگر ہم بہت لمبی تقریر کریں گے اور اوپر کی باتیں کریں گے تو اس سے طالب علم تشویش کا شکار ہوتا ہے ،اسی طرح آپ کو اندازہ ہو رہاہو گا کہ کون سے طلباء ایسے ہیں جو سبق میں دلچسپی نہیں لیتے، ان کو الگ سے بلائیں ،ان کو سمجھانے اور سبق کی طرف متوجہ کرنے کا اہتمام کریں، یہ آپ کی طرف سے شفقت ہے۔

سبق کے دوران طلباء سے اچانک سننا کہ میں کیا کہہ رہا تھا، تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ طالب علم سبق میں دل ودماغ سے حاضر ہے یا نہیں، اس سے پوری درس گاہ متوجہ رہے گی۔

اسی طرح کم زو رطلباء پر خصوصی توجہ دیں، سب انسان ممتاز نہیں ،سب کے سب اپنی صفات کے اندر بھی ممتاز نہیں، کوئی ممتاز ہوتا ہے، کوئی جید جدا ہوتا ہے ،کوئی جید ہوتا ہے، کوئی مقبول ہوتا ہے…تو اب وہ بے چارے جن کو آپ ضعیف استعداد کا سمجھتے ہیں ان پر خصوصی توجہ دیں۔

ہم پورے ملک کا سفر کرتے ہیں ، آپ یقین کریں کہ یہ جو آپ کے ہاں مقبول او رجید ہوتے ہیں یہ اتنی عظیم الشان خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں، آدمی حیران ہوتا ہے ،دین کے کام کر رہے ہوتے ہیں، مسجدیں سنبھالی ہوتی ہیں، مدرسے سنبھالے ہوتے ہیں، مکتب سنبھالے ہوئے ہیں، خوب کام کر رہے ہیں، تو ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ یہ بالکل فالتو اور فضول لوگ ہیں۔ ایسا نہیں ہے، ہاں! ہم اگر ان کو موقع بہ موقع بلاتے بھی رہیں گے، آپ ان کو سمجھاتے بھی رہیں گے تو آپ یقین فرمائیں کہ ان کی اساتذہ سے وابستگی میں، ادارے سے وابستگی میں، دین سے وابستگی میں اور اضافہ ہو گا، ان کو اور حوصلہ ملے گا اور وہ اپنی محنت بڑھا دیں گے۔

اسی طرح سبق کی مقدار خواندگی پر نظر ہو ، سال کے شروع سے آپ کا سبق پر کنٹرول ہونا چاہیے، آپ اپنی کتا ب میں ہر سبق پر تاریخ ڈالیں، اگلے سال آپ کو بڑا فائدہ ہو گا، آپ کو معلوم ہو گا کہ پچھلے سال آپ اس دن کہاں تھے؟ کہیں آپ پیچھے تو نہیں چل رہے، اسی جگہ ہیں یا آگے ہیں تو آپ کو اپنا سبق منظم کرنے میں بہت آسانی ہوگی اور سال کے آخر میں اس کی نوبت نہیں آئے گی کہ آپ کی کتاب باقی ہے اور عبارت چل رہی ہے ۔ اسی طرح طلبائے کرام کو تکرار مطالعے کے بعد رات کو جلدی سونے کی ترغیب دیں، ہمارے بزرگ فرماتے تھے کہ جاگنا یہ سیکھنے کی چیز نہیں ہے، سونا سیکھنے کی چیز ہے، ہمیں سونانہیں آتا، چناں چہ جب ہمیں سونا نہیں آتا تو ہماری ہر چیز خراب اور برباد ہو جاتی ہے، سونا سیکھنے کا مطلب کیا ہے کہ آپ حتی الامکان کوشش کریں، آج کل دن بڑے ہیں راتیں چھوٹی ہیں، تو آپ دوپہر کو قیلولہ بہرحال کریں، چاہے وہ بیس منٹ کا ہو، آدھے گھنٹے کا ہو، پون گھنٹے کا ہو۔

ہم خود بھی اس کا اہتمام کریں اور طلباء کو بھی ترغیب دیں، اسی طرح رات کو دیر تک نہ جاگیں، طلباء کو سمجھائیں، آج کل یہ جو فتنے ہماری جیبوں میں آگئے ہیں، ہمارے ہاتھوں میں آگئے ہیں، اس میں مصروف ہیں، ایک ٹکے کا فائدہ نہیں، آپس میں گپ شپ میں مصروف ہیں تو اس حوالے سے طلباء کو سمجھائیں۔

اسی طرح ایک اور بڑی نحوست ہے ،وہ ہے فجر کے بعد سونا، ہم بڑوں سے سنتے تھے کہ جس گھر میں صبح اٹھنے کا اہتمام ہو اس گھر میں چاندنا ہوتا ہے، اس گھر میں داخل ہوتے ہی برکت نظر آتی ہے اور جس گھر میں صبح سونے کا رواج ہو تو اس گھر میں سوائے نحوست کے کچھ نہیں ہوتا۔

اس لیے ہم اس کااہتمام کریں، اس کو معمول بنائیں، صبح کا وقت برکت کی تقسیم کا وقت ہے،چوبیس گھنٹوں میں سب سے مبارک وقت صبح کا وقت ہے، ہم خود بھی اس کااہتمام کریں کہ صبح کو سونے کی نحوست سے اپنے آپ کو بچائیں اور طلباء کو بھی ترغیب دیں کہ صبح کو سونے کی ہر گز عادت نہ ڈالیں۔