اسلامی آداب کی وسعت

اسلامی آداب کی وسعت

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان

ایسے حسین اور عمدہ قسم کے آداب ِ معاشرت ارشاد فرمائے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ان پر کبھی زوال آہی نہیں سکتا ،وہ آداب اور ارشادات ہر دور میں جدید ہی رہیں گے ، اگر ان کی رعایت کی جائے تو راحت ہی راحت ہے، لیکن آج ہمیں انگریز کی غلامی اپنی آزادی سے زیادہ پسند ہے۔

ہم چارپائی پر بیٹھ کر بھی کھانا کھاسکتے ہیں ، زمین اور چٹائی پر بیٹھ کر بھی کھا سکتے ہیں ، گاؤ تکیے پر بیٹھ کر بھی کھانا کھا سکتے ہیں ، ہمیں کھانا کھانے کے لیے کسی تکلف کی ضرورت نہیں ، لیکن جو لوگ یہود و نصاریٰ کی روش پر چلتے ہیں ، جب تک میز کرسی نہ ہو ان کے لیے کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ! ان کو اگر کہا جائے کہ یہاں چٹائی بچھی ہوئی ہے، دستر خوان لگا دیا گیا ہے ، اآپ یہاں کھانا کھالیجیے تو ان کو بہت زحمت ہوتی ہے، ان کو وہاں بیٹھنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے، اس لیے کہ ان کا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ غیروں کی نقل اتاریں اور حضور صلی الله تعالی علیہ وسلم کے دشمنوں کی قدم بوسی کریں۔ یہ لوگ اسلام کی سادگی کو حیرت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسے اپنانے میں عار سمجھتے ہیں ، کس قدر پستی اور ذلت کا منظر ہوتا ہے کہ جہاں کرسی میز کا انتظام نہیں ہوتا، جتنے لوگ کھانا کھانے والے جمع کیے جائیں وہ کھڑے ہو کر کھانا کھاتے ہیں ، اُلٹی ہی چال چلتے ہیں دیوان گانِ عشق۔حکم یہ ہے کہ بیٹھ کر اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس نعمت کا شکر بجالاتے ہوئے اس طرح سے کھانا کھاؤ کہ ہر ادا سے یہ ثابت ہو کہ اللہ کی عظیم نعمت سے مستفید ہو رہے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا آپ پر بڑا احسان اور کرم ہوا ہے کہ اس نے آپ کو یہ خوراک مہیاکی ۔

نبی ٴ اکرم صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :” آکلُ کما یأکلُ العبد“․(کنزالعمال :15/247،رقم الحدیث :40792)
ترجمہ : میں (کھانا ) کھاتا ہوں (ایسے ) جس طرح ایک غلام کھاتا ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی انکساری آپ کی تواضع اور آپ کی سادگی کا یہ عالم ہے۔

ہمارا حال یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کے طریقے کو ہم فخر سمجھتے ہیں ، ان کے طریقے پر چلنے کا نام ہم نے تہذیب رکھا ہے، حالاں کہ حضور اکرم صلی الله تعالی علیہ وسلم کے دشمنوں کے طریقے کا نام تہذیب کبھی نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ لوگ اللہ کی نگاہ میں جس طرح خنزیر اور کتے سے بھی زیادہ بدتر ہیں اِسی طرح ان کے طریقے بھی مبغوض ہیں ، ہم اپنی نادانی سے اسلام کے طریقے پر چلنے کو بد تہذیبی اور گنوار پن کہتے ہیں ، یہ ہماری حالت ہے ۔
تو عرض یہ کرنا تھا کہ ہمیں اسلامی تہذیب اور اسلامی آداب کے علاوہ کسی دوسری چیز کو نہیں اپنانا چاہیے اور اپنی زندگی کے اندر انہی کو رچانا چاہیے اور انہی کی عادت ڈالنی چاہیے۔