حفاظت ِ صحت اور اجتنابِ معصیت میں ربط

حفاظت ِ صحت اور اجتنابِ معصیت میں ربط

مولانا شاہ حکیم محمد اخترصاحب 

اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ
فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ،بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ:
”اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ الصِّحَّةَ وَالْعِفَّةَ وَالْاَمَانَةَ وَحُسْنَ الْخُلْقِ وَالرِّضَا بِالْقَدْرِ“․

اپنی صحت کا خیال نہ رکھنا اور اتنا وظیفہ پڑھنا جس سے دماغ میں خشکی پیدا ہوجائے اور اتنا جاگنا جس سے صحت خراب ہوجائے مضر ہے۔ ایسا شخص اللہ سے دور ہوگا اور مخلوق سے بھی دور ہوگا جتنے دوست احباب ہیں سب اس سے کٹ جائیں گے، نہ خالق کا رہے گا نہ مخلوق کا رہے گا۔ اس لیے میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ حاجی امداد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو لوگ اللہ اللہ کرتے ہیں، عبادت کرتے ہیں ان کو اپنے سر پر روغن بادام کی مالش بھی کرنی چاہیے اور دودھ بھی پینا چاہیے۔ جب اللہ کی مشین یعنی جسم کو استعمال کرو تو اس میں گریس نہ ڈالنا کیسا ہے؟ کوئی آپ کو پانی چڑھانے کے لیے موٹر دے دے اور آپ اس میں گریس اور تیل نہ ڈالیں جس کی وجہ سے وہ جل جائے یا خراب ہوجائے تو وہ آپ کا مواخذہ کرے گا یا نہیں؟ تو میرے شیخ فرماتے تھے کہ جو عبادت تو بہت کرتا ہے، مگر سیب نہیں کھاتا، بادام نہیں کھاتا، دودھ نہیں پیتا تو اچھی غذا نہ ملنے سے اگر اس کا دماغ خشک ہوگیا تو اس سے قیامت کے دن مواخذہ ہوگا کہ تم نے ہماری دی ہوئی مشین یعنی جسم کو کیوں خراب کیا؟

بعض لوگ رات کو بہت زیادہ جاگ کر وظیفے پڑھتے رہتے ہیں اور اچھی غذا استعمال نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ان کا دماغ خشک ہوجاتا ہے تو یاد رکھیے کہ صحت خراب کرکے اللہ تک کوئی نہیں پہنچتا، طاقت سے زیادہ عبادت کرنے سے خدا نہیں ملتا، خدا ملتا ہے کہ ان کو ناراض نہ کرو، گناہ سے بچو، آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے پیسے والے لوگ بریانی اور پلاؤ اور سوپ پیتے ہیں، مگر پیلے ہیں، ہڈی نکلی ہوئی ہے اور بعضے مزدور ٹماٹر کی چٹنی اور روٹی کھا کر مثل ٹماٹر لال لال ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ پیسے والے لوگ شراب چرس اور افیون گانجھا اور خطرناک نشے والی چیزیں استعمال کرتے ہیں، اسی طرح بعض لوگوں کا بیٹھے رہنے سے، مشقت نہ کرنے سے لیور یعنی جگر خراب ہوجاتا ہے، کیوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ﴾ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ تو جب تک مشقت میں رہوگے صحت مند رہو گے، کیوں کہ کَبَد معنی مشقت ہے اور کَبِدْ معنی لیور یعنی جگر ہے تو ہمارے جگر کی صحت اور لیور کی تندرستی مشقت سے وابستہ ہے، کَبَدْ معنی مشقت اور کَبِدْ معنی جگر تو جو مشقت کرے گا اس کا جگر صحیح رہے گا، اچھا خون بنائے گا اور سب چیزیں نارمل اور معتدل رہیں گی۔ بلغم، صفرا، سودا، خون، یہ چار اخلاط اربعہ اس کے معتدل رہیں گے۔ لیکن اگر بیٹھا رہے گا تو بلغم زیادہ پیدا ہوگا، بلغم زیادہ ہوگا تو گیس زیادہ پیدا ہوگی، جس سے صحت خراب ہوجائے گی، اس لیے مشقت کی عادت ڈالو، زیادہ نہ سہی تو کم سے کم پارکوں میں چلے جاؤ، روزانہ کم سے کم ایک میل تو چلو۔ ہمارے دار العلوم کے ایک دوست تھے، ان کے دل پر کچھ اثر آیا تو ٹیسٹنگ میں چار لاکھ روپیہ خرچ ہوا اور آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ آکسیجن کی کمی ہوگئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب روزانہ صبح صبح آکسیجن لینے جاتا ہوں۔ میرا بھی یہ معمول ہے کہ بنگلہ دیش ہو یا رنگون ہو یا افریقہ ہو، سارے ملکوں میں صبح کی سیر کرنے جاتا ہوں، کیوں کہ صبح کی ہوا ،لاکھ روپے کی دوا۔

تو صحت بہت مطلوب شے ہے اور صحت کو نقصان پہنچانے والی چیزیں سب کی سب ناجائز ہیں، ہر چیز میں اعتدال رکھیے، جو حلال نعمت ہے اس میں بھی اعتدال لازم ہے، نعمت ِ حلال پر بھی اعتدال واجب ہے، یہ نہیں کہ بریانی ملی تو کھائے جا رہے ہیں، رات میں قے ہورہی ہے، دست آرہے ہیں اور کروٹ بدل رہے ہیں۔ بمبئی میں ایک صاحب نے بہت زیادہ کھا لیا، اب لوٹا لے کے دوڑ رہے ہیں۔ میں نے ان کے لیے ایک شعر کہا کہ #
        دست بدست جنگ کا عالم
        کیا غضب کا جمال گوٹا تھا

ایک لڑائی ہوتی ہے جب دشمن کے سپاہی اور فوجی بندوقیں رکھ دیتے ہیں اور آپس میں ہاتھا پائی کرتے ہیں، اس کا نام دست بدست جنگ ہے۔ چوں کہ وہ بار بار لوٹا لے کر دوڑ رہے تھے اس پر میرا یہ شعر ہوگیا۔

تو نعمت ِحلال پر اعتدال واجب ہے۔ اب بیوی حلال ہے وہاں بھی اعتدال واجب ہے، کھانا پینا حلال ہے، مگر اتنا کھاؤ جو ہضم ہوجائے اور پانی کی جگہ بھی رہے۔ ایک صاحب نے کہا میں تو اتنا کھاتا ہوں کہ پانی کی جگہ نہیں رکھتا، کیوں کہ پانی ایسا لکوئیڈ اور پتلا مائع ہے کہ وہ ا پنی جگہ خود بنالیتا ہے۔ اب رہ گیا سانس، تو وہ آئے نہ آئے دیکھا جائے گا۔

میرے شیخ نے سنایا تھا کہ ایک دریا میں کسی ہندو کی لاش جا رہی تھی، وہاں ایک ہندو پہلے سے موجود تھا، جس نے بہت زیادہ آلو پوری کھالی تھی۔ آلو پوری ان کی خاص غذا ہے، گوشت وغیرہ کھانا ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ اب زیادہ کھانے سے یہ بہت گرم ہوگیا تھا تو دریا میں اپنے کو ٹھنڈا کر رہا تھا، اس کا چیلہ بھی ساتھ میں تھا، اتنے میں دیکھا کہ ایک ہندو کی لاش جا رہی ہے تو اس نے کہا کہ یہ کچھ پوریاں مجھ سے زیادہ کھا گیا، اس لیے بالکل ہی ٹھنڈا ہوگیا۔

یہاں پر ایک اور واقعہ یاد آیا کہ ایک ہندو پنڈت کا ایک مولانا سے مناظرہ ہو رہا تھا، مجمع لگا ہوا تھا، گھروں کی چھتوں اور کھڑکیوں سے عورتیں بھی جھانک رہی تھیں۔ پنڈت نے اعتراض کیا کہ مولانا صاحب! آپ کے اسلام میں مسلمان گوشت بہت کھاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ عورتوں کو جھانکتے پھرتے ہیں، ایک ہم لوگ ہیں جو سبزی کھا کھا کے ٹھنڈے رہتے ہیں، ہم لوگ سادھو رہتے ہیں اور یہ مسلمان لوگ سوا دو رہتے ہیں، سواد یعنی ذائقہ چکھتے رہتے ہیں۔مولانا صاحب نے ان کو جواب دیا کہ اس میں گوشت کا کوئی قصور نہیں ہے، شیر خون پیتا ہے، ہرن کا گوشت کھاتا ہے، گجراتی لوگ کہتے ہیں کہ ہرن شیر کا سموسہ ہے، کھڑے ہوکر ہرن کا سارا خون پی جاتا ہے، پھر گوشت کھاتا ہے، مگر سال میں ایک دفعہ شیرنی کے پاس جاتا ہے اور سانڈ گوشت نہیں کھاتا، ہمیشہ کھیتوں میں سبزیاں کھاتا ہے، مگر کبھی اِس گائے پر، کبھی اُس گائے پر۔ پھر مولانا نے ہندو عورتوں کی طرف ہاتھ کرتے ہوئے کہا کبھی اس گائے پر، کبھی اس گائے پر۔بس مناظرہ ختم، مولانا جیت گئے، تالیاں بج گئیں۔ یہ مناظرہ جو ہے عقل اور دماغ اور کتاب سے نہیں ہوتا، اس کے لیے حاضر جوابی اور ذہانت چاہیے۔

ایک گم راہ سے ایک اہل حق کا مناظرہ ہو رہا تھا۔ گم راہ لوگوں کا اسٹیج الگ تھا اور اہل حق کا، سچے لوگوں کا الگ تھا۔ اس گم راہ نے اہل حق سے کہا کہ تم میں اور سور میں کیا فرق ہے؟ اہل ِحق میں سے ایک آدمی اسٹیج سے اترا اور دونوں اسٹیجوں کا فاصلہ ناپا جو بیس فٹ نکلا۔ پھر اس نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہم میں اور سور میں بیس فٹ کا فاصلہ ہے۔ یہ ہے حاضر جوابی۔

دوستو!میں عرض کر رہا تھا کہ اپنی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے، حلال بھی اتنا کھاؤ جتنا ہضم ہوجائے۔ علامہ شامی نے فقہ شامی میں لکھا ہے کہ اتنا کھا لینا کہ جس سے پیٹ میں تکلیف ہو، گیس ہوجائے، نظام ہضم خراب ہوجائے ،اتنا کھانا گناہ ہے۔ اگرچہ یہ کھانا حلال تھا، مگر وہی حلال جسم کو تکلیف دینے کی وجہ سے گناہ میں تبدیل ہوگیا۔ اسی طرح بیوی حلال ہے، مگر اس قدر کثرت سے اس کو استعمال کرنا کہ جس سے اس کی بھی صحت خراب ہو اور آپ کی بھی صحت خراب ہو اور دونوں کو چکر آنے لگیں، یہ جائز نہیں ہے۔

ایک بار حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اس مضمون کو بیان فرمایا تو ایک عالم نے حکیم الامت سے عرض کیا کہ حضرت! آپ یہ کیسی بات بیان فرما رہے ہیں؟ ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو یہ فرما رہے ہیں:” اِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا“ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے تو ہم حق ادا کرتے ہیں، آپ اس سے کیوں منع کرتے ہیں؟ اس پر حکیم الامت نے فرمایا کہ مولانا حدیث پوری پڑھیں، آگے ہے:” اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا“یعنی تمارے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔ اور وہ حق یہ ہے کہ اس کی صحت کا خیال رکھو، صحت بخش غذا کھانے کا اہتمام کرو اور صحت خراب کرنے والی چیزیں استعمال کرنے سے بچو۔

حکیم الامت فجر کی نماز کے بعد جنگل کی سیر کرتے، پھر آکر اشراق ادا کرتے اور فرماتے کہ جو صحت کی حفاظت کی نیت سے چہل قدمی کرے گا اسے مسجد میں بیٹھنے سے زیادہ اجر ملے گا، کیوں کہ اس نے صحت کی حفاظت کا خیال رکھا۔ یہ حکیم الامت کے ملفوظات میں، میں نے خود پڑھا ہے، کیوں کہ جب صحت رہے گی تب آپ عبادت کرسکوگے اور اگر صحت خراب ہوگئی تو فرض ادا کرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔

اور صحت خراب ہونے سے مزاج غیر معتدل ہوجاتا ہے۔ جو لوگ کم سوتے ہیں، ان کا مزاج غیر معتدل رہتا ہے۔ہر انسان کے لیے کم از کم چھ گھنٹے سونا ضروری ہے اور دماغی کام کرنے والوں کے لیے آٹھ گھنٹہ سونا ضروری ہے۔ قیلولہ کرکے کچھ دن میں بھی آرام کرلو، تھوڑی دیر سو جاؤ۔ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:﴿قِیْلُوْافَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَایَقِیْلُ﴾ تھوڑا سا قیلولہ یعنی دوپہر میں آرام کرلیا کرو، کیوں کہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔لندن سے ایک مہمان آئے تھے، انہوں نے کہا کہ انگریز تو قیلولہ نہیں کرتا تو میں نے کہا وہ تو ہیں ہی شیطان۔ آپ نے سنا نہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔ دوپہر کا کھانا کھاکے چاہے دس منٹ لیٹ جاؤ، سونا بھی ضروری نہیں ہے، بس سنت ادا ہوگئی۔ اور شیاطین اس لیے قیلولہ نہیں کرتے کہ ان کو وسوسے ڈالنے سے فرصت نہیں ہے، نہایت ہی بِزی ہوتے ہیں یہ لوگ۔تو صحت بہت بڑی نعمت ہے، ہمیشہ معا لجین سے مشورہ کرتے رہو۔

جب مزاج غیر معتدل ہوجائے، طبیعت میں چڑچڑا پن آجائے، بیوی بچوں پر غصہ آنے لگے تو پہلا کام یہ کرو کہ وظیفہ ملتوی کردو، شیخ سے مشورہ کرکے ذکر کم کردو، اگر وہ کہہ دے تو بالکل ملتوی کردو۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ شیخ کے مشورے سے اللہ ملتا ہے، اگر شیخ کہہ دے کہ میرے مہمانوں کے لیے چولہے میں لکڑی ڈالو، چائے بناؤ اور خانقاہ میں جھاڑو لگاؤ تو وہ اسی سے ولی اللہ ہوجائے گا۔ اللہ کا راستہ شیخ کے مشورے سے طے ہوتا ہے۔ ایک صاحب تھانہ بھون پہنچے اور انہوں نے حکیم الامت حضرت تھانوی کے مریدوں پر حکومت شروع کردی کہ آپ نے لوٹا کیوں یہاں رکھا؟ آپ نے یہاں کیوں نماز پڑھ لی؟ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں؟ حکیم الامت نے ان کو بلا کر فرمایا کہ آپ شیخ ہیں یا میں شیخ ہوں؟ یہاں کا ڈاکٹر کون ہے؟ آپ مریض بن کر آئے ہو یا ڈاکٹر بن کر آئے ہو؟ آپ میرے مریدوں پر کیوں حکومت کر رہے ہو؟ اب تم سب ذکر ملتوی کرو، تم اس قابل نہیں ہو کہ تم کو ذکر بتایا جائے، جب معدہ خراب ہو، قے ہو رہی ہو تو حلوہ نہیں دیا جاتا، کڑوی دوا دی جاتی ہے، لہٰذا اب تم وضو خانے کی نالیاں صاف کرو، نمازیوں کے جوتے سیدھے کرو اور خانقاہ میں جھاڑو لگاؤ، تمہارے اندر تکبر کا مرض ہے۔ بس چھ مہینے کے بعد علاج ہوگیا، سارا تکبر ختم، پھر حضرت نے ان کو ذکر کی اجازت بھی دی اور خلافت بھی دے دی۔

مرید کے مزاج کو معتدل رکھنا شیخ کی ذمہ داری ہے، اس لیے شیخ تھوڑا سا حکیم بھی ہو تو بہت اچھا ہوتا ہے۔ میرے پاس تو آج بھی افریقہ سے ایک خط آیا کہ نیند کم آرہی ہے، دل ہر وقت غمگین رہتا ہے، غصہ بھی چڑھا رہتا ہے اور میرا جنگل میں بھاگ جانے کو دل چاہتا ہے۔ میں نے آج ہی جواب لکھا کہ سارا ذکر ملتوی کردو، ایک سیب روزانہ کھاؤ اور دوستوں کے ساتھ خوب ہنسو بولو اور صبح کو ٹہلو، جب تک میرا اجازت نامہ نہ آجائے ذکر ملتوی رکھو، خوب دودھ پیو اور سر پر کدو کا، خشخاش کا یا بادام کا تیل لگاؤ، تاکہ مزاج معتدل ہوجائے۔

جس طرح گاڑی کے لیے ڈرائیور ہونا ضروری ہے، اگر ڈرائیور نہ ہو اور انجن میں پانی خشک ہوگیا اور موٹر چلی جا رہی ہے تو انجن جل جائے گا۔ ڈرائیور کی ذمہ داری ہے کہ انجن میں پانی ڈالے، اسی طرح شیخ کی ذمہ داری ہے کہ جب مرید کا دماغ خشک ہونے لگے تو فوراً اس کا وظیفہ ملتوی کردو اور اس کو سر پر تیل کی مالش اور سیب وغیرہ کھانے کو بتاؤ، جو سیب کھاتا ہے آسیب سے بچا رہتا ہے، بجائے آسیب بلانے کے سیب سے کہو آ سیب! میرے پاس آجا، سیب کھانے سے قلب و دماغ میں قوت رہتی ہے، پھر وسوسے اور شیاطین کا اثر نہیں ہوتا۔

محمد علی کلے باکسر سے ٹیلی فون کرکے پوچھ لو کہ تمہارے پاس کبھی جن آیا ہے؟ جن ہمیشہ کمزوروں کو ستاتا ہے، بنسبت مردوں کے خواتین پر زیادہ اثر کرتا ہے۔ جو جتنا قوی القلب ہوگا، مضبوط دل و دماغ کا ہوگا اس کو وسوسے بھی کم آئیں گے۔اس لیے دوستو!حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے صحت کی دعا مانگ رہے ہیں، اگر صحت نعمت نہ ہوتی تو مرادِ رسول کیوں ہوتی؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرما رہے ہیں:”اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّةَ“ اے اللہ!میں آپ سے صحت کا سوال کرتا ہوں۔ ”وَالْعِفَّةَ“ اور عفت مانگتا ہوں، اگر صحت اچھی رہتی ہے تو بدمعاشی بھی سوجھتی ہے، کیوں کہ بیماری میں تو ہائے ہائے کرتا ہے، صحت اچھی ہوتی ہے تو اندیشہ رہتا ہے کہ اس کا نفس مثل سانڈ کے ہوجائے، لہٰذا! اے اللہ ہمیں پاک دامنی عطا فرمائیے، صحت کے ساتھ ہماری نظر بھی پاک رہے اور دل بھی پاک رہے۔ کبھی نظر ناپاک ہوتی ہے تب دل ناپاک ہوتا ہے اور کبھی دل پہلے ناپاک ہوتا ہے، پھر نظر ناپاک ہوتی ہے، یہ دونوں لازم اور ملزوم ہیں، آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں، کبھی نظر ناپاک ہوئی تو دل ناپاک ہوا، کبھی دل میں گندے خیالات آئے تو نظر ناپاک ہوئی اور عفت بھی سبب ہے صحت کا۔ اب تقریر کا رخ بدلتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت کے ساتھ عفت کو مانگا ہے، مگر پاک دامن رہنے والوں کی صحت بھی بہت اعلیٰ رہتی ہے تو صحت کے لیے پاک دامنی بھی ضروری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں رخ سے بتادیا ہے، تاکہ صحت کی وجہ سے میری امت گناہوں میں مبتلا نہ ہو اور دوسری طرف گناہوں سے بچنے کی وجہ سے میری امت کی صحت کی حفاظت اور ضمانت رہے۔

نمبر تین ہے وَالْاَمَانَةَ اور اے اللہ ہمیں امانت بھی عطا فرمائیے۔ مگر امانت کیا چیز ہے؟ اس کو سمجھنے سے پہلے خیانت سمجھ لو، تب امانت سمجھ میں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”یَعْلَمُ خَآئِنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ“ اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھوں کی چوریوں کو جانتے ہیں اور سینوں کے گندے خیالات سے بھی باخبر ہیں #
        چوریاں آنکھوں کی اور سینوں کے راز
        جانتا ہے سب کو تو اے بے نیاز

تو جب خیانت کا علم ہوگیا کہ آنکھوں سے اللہ کی مرضی کے خلاف بدنظری کرکے حرام لذت حاصل کرنا خیانت ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھوں سے بدنظری کرنے والے کے لیے خیانت کا لفظ نازل فرمایا ہے، یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہم اپنی آنکھوں اور دل کے مالک نہیں ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، تُعْرَفُ الْاَشْیَاء ُ بِاَضْدَادِہَا ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے، لفظ خیانت بتا رہا ہے کہ آنکھیں اللہ کی ہیں، ہماری نہیں ہیں، یہ نہیں کہ جہاں چاہو وہاں نگاہ ڈالو، ان آنکھوں کے آپ مالک نہیں ہیں، اگر آپ مالک ہوتے تو لفظ خیانت نازل ہی نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ خیانت کا لفظ نازل ہی نہ فرماتے کہ دیکھو! خبردار ،تم آنکھوں سے خیانت نہ کرنا، یہ ہماری امانت ہے، لہٰذا جہاں ہم خوش ہوں وہاں آنکھ کی روشنی استعمال کرو اور جہاں ہم ناراض ہوں وہاں نابینا بن جاؤ۔ جب کوئی حسین سامنے آجائے اس وقت پر میرا ایک شعر پڑھ کر نظر بچالو کہ #
        جب آگئے وہ سامنے نابینا بن گئے
        جب ہٹ گئے وہ سامنے سے بینا بن گئے

میں ریل میں سفر کر رہا تھا تو ہمارے ڈبہ میں ایک لڑکی بھی بیٹھی تھی، بس میں نے فوراً ادھر پیٹھ کرکے اپنی آنکھوں کو کھڑکی کی طرف کرلیا اور کھیتوں درختوں کو دیکھنے لگا۔ میرے ایک دوست تھے، انہوں نے مجھ کو شاباشی دی کہ یہ بہت عمدہ ترکیب سکھادی، کیوں کہ بار بار نظر بچانا مشکل ہے، جب اللہ تعالیٰ نے غم سے نجات کا ایک راستہ دے دیا تو غم کیوں اٹھائیں؟! لہٰذا معشوقوں کی طرف پیٹھ کردو، جیسے میں نے کھیتوں اور جنگلوں کی طرف منھ کردیا اور مزہ بھی آتا رہا، خوب کھیتوں، جنگلوں درختوں کو دیکھتے رہے اور سکون سے بھی رہے، اللہ تعالیٰ نے نظر کی حفاظت بھی عطا فرمائی اور جو لوگ چوری چھپے نظر ڈال رہے تھے ان کو میں نے بے چین پایا ، ان کے چین اتر گئے، جب سائیکل کی چین اتر جاتی ہے تو سائیکل نہیں چلتی، جب اللہ کے راستہ پر نہیں چلو گے تو منزل تک کیسے پہنچو گے، اللہ کو کیسے پاؤ گے؟ بدنظری سے اللہ کا راستہ کھوٹا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ عین وقت پر اس نے مجھے یہ سکھادیا، ورنہ اس وقت میرا شیخ وہاں تھوڑی تھا کہ اس سے پوچھتا کہ حضرت! جلدی سے بتائیں اب کیا کروں؟ حضرت سے دعائیں ضرور لو، مگر حضرت کے بھی جو بڑے ہیں،” اللہ“ ان سے رابطہ رکھو۔ شیخ ہر جگہ نہیں ہوتا کہ تمہاری آنکھوں کو الفسٹن اسٹریٹ میں ساتھ ساتھ لے کر چلے گا یا ایئر پورٹ پر ساتھ جائے گا کہ کدھر دیکھتا ہے؟ شیخ سے تعلق اللہ کے لیے رکھو، جہاں بھی رہو باخدا رہو، پھر شیخ کی دعائیں بھی خود بخود لگ جائیں گی۔

اسی لیے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت اور عفت کے بعد امانت کی دولت مانگی، یہ رازِ علومِ نبوت اختر کی زبان سے سنو کہ صحت کے بعد امانت کی نعمت کیوں مانگی؟ کیوں کہ جو قوی اور تن درست آدمی ہوتا ہے اس کو امانت کی حفاظت مشکل ہوجاتی ہے، اس کو گناہوں کی طرف رغبت شدید ہوتی ہے، کیوں کہ قوی ہے لہٰذا اے اللہ!جس کو آپ صحت عطا فرمائیں اس کو امانت بھی دیجیے کہ کسی کی بہو بیٹی کو دیکھ کر آنکھوں کی خیانت نہ کرے اور اس پہلو کا دوسرا رخ بھی لے لو، اس کا عکس کرو کہ جو نظر کی حفاظت کرے گا وہ صحت مند رہے گا، جو امانت سے رہے گا صحت مند رہے گا۔ کیوں کہ بد نظری سے لوگوں کو انجائنا بھی ہوجاتا ہے، خاص کر ایئر پورٹ کے ملازموں کو انجائنا کا بہت خطرہ ہوتا ہے، کیوں کہ وہاں ہر وقت عورتیں گزرتی ہیں تو دل ان حسینوں کی طرف کھنچتا ہے اور یہ بے چارا شرافت اور خوف خدا کی وجہ سے دل کو ان سے ہٹاتا ہے تو اس کشمکش میں دل کا سائز بڑھ جاتا ہے، اسی کا نام انجائنا ہے۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ کسی انجان کو دل نہ دو #
        ایک سلمیٰ چاہیے سلمان کو
        دل نہ دینا چاہیے انجان کو

انجان کو دل دوگے تو کیا انجائنا نہیں ہوگا؟ پریشان ہی رہوگے، لہٰذا پری کو مت دیکھو، ورنہ شانی خود آجائے گی، بتائیے پریشانی میں پری ہے یا نہیں؟ مجھے ایک آدمی بھی آج تک ایسا نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ حسینوں کو دیکھنے سے مجھے سکون ملا ہے، سب نے یہی کہا کہ ہمارا سکون اُڑ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بلا وجہ تھوڑی فرمایا:﴿یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ﴾ ارحم الراحمین کا حکم ہے کہ نظر کی حفاظت کرو، تاکہ تمہارے دل میں مولیٰ رہے، لیلیٰ گزرنے بھی نہ پائے، سوائے اپنی بیوی کے، کیوں کہ حلال بیوی سے تم کو حلال اولاد ملے گی۔

آج ہی ایک قصہ معلوم ہوا ،آج کا تازہ قصہ ہے کہ ایک صاحب نے ایک لڑکی کو پی اے یعنی اسسٹنٹ رکھ لیا، حالاں کہ ان کی بیوی شریف خاندان کی صاحب اولاد، خود بھی اتنی شریف جس کی حد نہیں اور نہایت حسین بھی تھی، جب کہ وہ لڑکی اس کے سامنے مثل خاکِ پابھی نہیں تھی ،مگر شیطان نے بازاری عورتوں کو،حرام کو اتنا مسمریزم کیا کہ حسین بیوی ان کی نگاہوں سے اتر گئی اور اس پر عاشق ہوگئے، اس کے ساتھ شادی کرلی اور وہ عملیات بھی جانتی ہے۔ آج ان کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، بچے رو رہے ہیں، بیوی رو رہی ہے، خاندان میں آہ و فغاں، آہ و نالہ ہے۔ تو شیطان کے مسمریزم سے ہوشیار رہو۔

یہ بے پردگی اور نظر بازی بہت خبیث چیز ہے۔ ایک صاحب ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہوئے اور ایک نرس پر عاشق ہوگئے، اب بیوی رونے لگی کہ اب میں کیا کروں، مگر تھی بہت تگڑی وہ ہسپتال آئی اور دو طمانچہ لگائے کہ مجھ کو چھوڑ کر یہاں بازاری چکر میں آگیا، چل نکل یہاں سے، ہم نہیں چاہتے تیری صحت، بس ہسپتال سے اٹھا لے گئی۔ پانچ چھ سال پہلے ایک مؤذن یہاں اذان دے رہا تھا، اس کی آواز بہت کمزور تھی، تو ایک صاحب شیروانی وغیرہ پہنے بہت تگڑے آئے، انہوں نے کہا آپ نے یہ کیسا مؤذن رکھا ہے ؟ اس سے زیادہ تو میری بیوی چیختی ہے، جب چائے تیار ہوتی ہے تو کہتی ہے او چودھری صاحب! جلدی آکر چائے پیو، اس مؤذن سے زیادہ تیز تو میری بیوی کی آواز ہے۔

تو عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت مانگی اور صحت کے ساتھ جو صحت کے لیے مفید اور معین چیزیں ہیں وہ بھی مانگیں۔ یہ رحمة للعالمین کی شانِ رحمت ہے کہ میری امت کو صحت حاصل ہو، لیکن کیسے حاصل ہو؟ امانت کے ساتھ رہیں۔ امانت کے ساتھ رہیں گے تو صحت بھی رہے گی اور پاک دامنی بھی رہے گی، صحت کی بنیاد یہ ہے کہ انسان عفیف رہے، پاک دامن رہے، گناہوں میں، زنا کاری اور بدمعاشی میں مبتلا نہ ہو:” اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّةَ وَالْعِفَّةَ“ پاک دامن رہو گے تو صحت بھی رہے گی اور صحت کے ساتھ پاک دامن رہو گے تو صحت کو بقا اور ارتقا بھی رہے گا، یعنی آپ کی صحت باقی رہے گی۔ لیکن پاک دامن کب رہوگے؟ آہ! کیا ترتیب ہے، حدیث کے ایک ایک لفظ میں کیا ترتیب ہے کہ پاک دامن کب رہو گے وَالْاَمَانَةَ جب آنکھیں امانت دار رہیں گی تب تم پاک دامن رہوگے، ورنہ تمہاری پاکی ناپاکی سے بدل جائے گی، آنکھوں کی حفاظت رکھو، تاکہ دل بھی امین ہو، دل میں گندے خیال نہ لاؤ اورآنکھوں کو بھی امانت دار رکھو تو تم عفیف اور پاک دامن رہو گے۔ صحت کی ضمانت عفت و پاک دامنی پر ہے اور پاک دامنی کی ضمانت امانت پر ہے ”امانة العین وامانة القلب“ یعنی آنکھیں بھی امین ہوں اور قلب بھی امین ہو، دل میں بھی گندے خیالات نہ لاؤ، کبھی شیطان سرحد سے آتا ہے، کبھی کیپٹل پر حملہ کرتا ہے، لہٰذا بارڈر کی بھی حفاظت کرو اور کیپٹل کی بھی حفاظت کرو، یعنی دل میں بھی قصداً گندے خیالات مت لاؤ، اگر خود سے آجائیں تو توبہ کرکے انہیں جھٹکو اور جلدی سے کسی اچھے کام میں مشغول ہوجاؤ۔

امانت اور پاک دامنی کے ساتھ تمہاری صحت صحیح رہے گی، مگر امانت کب رہے گی؟ امین کب رہو گے؟ وَحُسْنَ الْخُلْقِ جب تمہارے اخلاق اچھے ہوں گے اور حسن اخلاق کی تعریف کیا ہے؟ محدث عظیم ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے شرح مشکوٰة میں لکھا ہے کہ حسنِ اخلاق کس چیز کا نام ہے۔ یہ تھوڑی ہے کہ ایئر ہوسٹس سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہے ہیں،ایک صاحب نے کہا کہ اگر ہم ان کی طرف دیکھ کر بات نہیں کریں گے تو ہم کو بداخلاق سمجھے گی، اس لیے ہم باقاعدہ ان کو دیکھتے ہیں، مسکراتے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ مسلمانوں کے اخلاق بڑے اچھے ہیں، کیسے پیار سے باتیں کرتے ہیں۔ دیکھو! شیطان نے کیسا بے وقوف بنایا؟! میں نے ان سے کہا کہ اخلاق کی تعریف محدثین نے کی ہے کہ حسن اخلاق نام ہے:” مُدَارَاةُ الْخَلْقِ مَعَ مُرَاعَاةِ الْحَقِّ “ مخلوق کے ساتھ اتنی بھلائی سے پیش آؤ کہ اللہ تعالیٰ کا قانون نہ ٹوٹنے پائے، مخلوق کے حق سے زیادہ اللہ کا حق ہے، لہٰذا اگر کوئی تم کو بد اخلاق کہے تو میں لاکھوں اخلاق ایسی بداخلاقی پر فدا کرتا ہوں جس سے اللہ خوش رہے اور مخلوق ناخوش ہو #
        سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے
        پیش نظر تو بس مرضیِ جانا نہ چاہیے
        بس اس نظر سے جانچ کے تو کر یہ فیصلہ
        کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے

آنکھیں اسی کی پاک رہیں گی، دل اسی کا پاک رہے گا جس کے اخلاق اچھے ہوں گے وہ مخلوق پر اپنے مولیٰ کی رضا کو مقدم کرے گا، حسینوں کو، غیر اللہ کو خوش نہیں کرے گا جب کہ اللہ ناخوش ہو رہا ہو۔ اس کے دل میں یہ خیال نہیں آئے گا کہ اگر ہم ٹھیک سے بات نہیں کریں گے تو نامحرم عورتیں کہیں گی کہ مسلمانوں کے اخلاق کیسے ہیں۔ میرے ایک دوست میرے ساتھ جرمنی گئے، وہاں ایک جرمن لڑکی نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ اس نے انگریزی میں کہا کہ بھئی!آپ کا اسلام کیسا ہے؟ کہا اسلام ہمارا بہت اچھا ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ میں کرنٹ ہے، آپ ہم کو بجلی مارنا چاہتی ہیں۔ اسلام منع کرتا ہے کہ غیر محرم عورتوں کے مصافحہ سے کرنٹ لگتا ہے، اللہ والوں سے مصافحہ کرو، اللہ والوں میں جو کرنٹ ہے اس سے حیات ملتی ہے اور حسینوں میں جو کرنٹ ہے اس سے موت ملتی ہے۔

تو صحت کی حفاظت کے لیے کتنی چیزیں ہوگئیں؟ نمبر ایک عفیف رہنا، پاک دامن رہنا، نمبر دو امین رہنا، یعنی آنکھوں کی اور قلب کی امانت رکھنا اور وَحُسْنَ الْخُلْقِ اخلاق کب اچھے رہیں گے؟ اس کا جواب اگلی بات سے مل جائے گا وَالرِّضَا بِالْقَدْرِجو تقدیر پر راضی رہے گا کہ اللہ نے مجھے جیسی بیوی دی بس وہی ہماری لیلیٰ ہے، تقدیر پر راضی رہو۔ کیا ترتیب ہے کہ اخلاق اسی کے اچھے رہیں گے جو تقدیر پر راضی رہے گا، سوکھی روٹی کھالے گا، چوری نہیں کرے گا، ڈاکا نہیں مارے گا ،اپنی بیوی کو اگر سوکھی روٹی بھی سمجھے گا تو بھی اس پر راضی رہے گا، حرام کی بریانی اور حرام کے حسینوں کو نہیں دیکھے گا۔

اب ترتیب سے دوبارہ دیکھ لو، اے اللہ!ہم آپ سے صحت مانگتے ہیں اور پاک دامنی مانگتے ہیں اور پاک دامنی کے لیے امانت مانگتے ہیں کہ آنکھیں امین رہیں اور دل بھی امانت دار رہے اور اچھے اخلاق بھی عطا فرما، تاکہ آپ کی خوشیوں کو ہم اپنی خوشیوں پر اور ساری مخلوق کی خوشیوں پر مقدم رکھیں #
        خوشی کو آگ لگا دی خوشی خوشی ہم نے

اگر مولیٰ ناراض ہوتا ہے تو اپنی خوشیوں کو آگ لگادو، اس وقت نالائقوں کی طرح سے ادھر ادھر مت دیکھو۔سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ ا ے اللہ!اس پر لعنت فرما جو اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسروں کی بہن بیٹی کو یا لڑکوں کو بری نظر سے دیکھ رہا ہے۔ میں آج مسجد کے منبر سے یہ بات پیش کر رہا ہوں کہ جس ظالم کو بد نظری کرنے کی لعنتی بیماری ہو وہ اپنی شکل آئینہ میں دیکھ لے، بد نظری کرنے کے بعد اگر اس کی شکل پر لعنت نہ برسے تو کہنا۔ کیوں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا ہے جو یقیناً قبول ہے۔ آپ کی دعا بھی قبول ہے، بد دعا بھی قبول ہے اور اس لعنت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دل میں آگ لگ جاتی ہے، دل بھی کالا، چہرہ بھی کالا، آنکھ بھی کالی، اندھیرے ہی اندھیرے چھا جاتے ہیں۔

حسن اخلاق کے معنی یہ نہیں کہ بڑے اخلاق والے ہیں۔ یہ نہ سوچو کہ ائیر ہوسٹس کہے گی کہ داڑھی رکھ کر یہ لوگ بات بھی نہیں کرتے، میری طرف دیکھتے بھی نہیں ہم نے ان کو سلام کیا تو ٹھیک سے جواب بھی نہیں دیا۔آپ اللہ پر نظر رکھو، بس مولیٰ خوش رہے، کسی اور کی خوشی کی پروا نہ کرو۔ اللہ اسی ایئر ہوسٹس کے دل میں تمہاری عظمت ڈال دے گا، اگر وہ کافر ہے تو سمجھے گی کہ یہ کوئی پادری معلوم ہوتا ہے، اگر مسلمان ہے تو سمجھے گی کہ کوئی ولی اللہ معلوم ہوتا ہے۔ جو دل میں ہوتا ہے آنکھوں میں اس کا اثر ہوتا ہے، بدنظری کی لعنت کا اثر دل پر ہے تو اس کا اثر آنکھوں میں بھی ہوگا۔

حکیم الامت کے وعظ میں ہے کہ تھانہ بھون میں ایک بوڑھا ایک لڑکے کو بری نظر سے دیکھتا تھا ،مگر وہ تہجد گزار لڑکا تھا، اللہ والا صاحب نسبت تھا۔ اس نے کہا بڑے میاں! جب آپ مجھے دیکھتے ہیں تو آپ کی آنکھوں میں اندھیرے معلوم ہوتے ہیں، سچ بتائیں کیا آپ مجھے بری نظر سے دیکھتے ہیں؟ وہ رونے لگے کہ بیٹے! صحیح کہتے ہو، آج سے نہیں دیکھوں گا۔ آدمی سمجھتا ہے کہ میں مسکرائی ہوئی نظروں سے اس کے دل میں جگہ بنا رہا ہوں، جب کہ اس کے دل میں تم شیطان بن رہے ہو۔

تو یہ ترتیب یاد رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت مانگی، پھر عفت و پاک دامنی مانگی، عفیف رہنا، امانت دار رہنا مانگا، وَحُسْنَ الْخُلْقِ اوراچھے اخلاق مانگے۔ اچھے اخلاق کا حاصل یہی ہے کہ مولیٰ کی خوشی کو آگے رکھو اور مخلوق کی خوشی کو پیچھے رکھو، لیکن اچھے اخلاق اسی کے ہوں گے جو تقدیر پر راضی ہوگا کہ جیسی اللہ نے ہم کو بیوی دی ہے، یہی ہماری قسمت میں لکھی تھی، یہی میری لیلیٰ ہے، اپنی اپنی بیویوں کو لیلیٰ سمجھو۔ ان شاء اللہ اس کی برکت سے آپ کی نظر بدل جائے گی اور آپ کو وہ واقعی لیلیٰ معلوم ہوگی، اِدھر ُادھر نظر مت ڈالو، بس یہی سمجھو کہ شاید اس کے پیٹ سے کوئی ولی اللہ پیدا ہوجائے اور قیامت کے دن بیڑا پار ہوجائے۔

آج کی دعا کی ترتیب اور علوم نبوت کی کیا شان ہے، سبحان اللہ! کیا کہوں میں نے اس حدیث کو بمبئی میں اٹھائیس ڈاکٹروں میں بیان کیا تھا، ان میں کوئی غیر ڈاکٹر نہیں تھا، ڈاکٹروں کے لیے مجھے بلایا تھا تو میں نے سوچا چوں کہ ڈاکٹر صحت کی فکر کرتا ہے تو آج صحت پر ہی تقریر کروں،کسی کو ڈاکٹر لاکھ انجکشن لگائے ،لیکن اگر وہ بدنظری سے باز نہیں آتا، زنا کاری سے باز نہیں آتا، گندے خیالات سے باز نہیں آتا، تو کیا اس کا بلڈ پریشر ہائی نہیں رہے گا؟ لاکھ ہائی بلڈ پریشر کی دوا کھالے، لیکن اگر نظر نہیں بچائے گا اس کا بلڈ پریشر ہائی رہے گا، ہر وقت پریشان رہے گا، ڈپریشن اور پریشانی سے بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے یا نہیں؟ تو پری کو کیوں دیکھتے ہو کہ شانی بھی آجائے؟

صحت و عافیت سے رہو گے تو ان شاء اللہ سکون سے رہوگے، جو مولیٰ کو خوش رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کے دل کو خوش رکھنے کی ضمانت اور کفالت قبول کرتے ہیں، اللہ ارحم الراحمین ہیں، بے وفا نہیں ہیں، وفا دار مولیٰ ہیں، جو بندہ حسینوں سے نظر بچا کے ان کو خوش کرتا ہے اور اپنے دل کو غم زدہ کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر خوشیاں برسادیتے ہیں، اس کی زندگی پر بے شمار زندگی برسادیتے ہیں، اس کی زندگی پر بہار ہوتی ہے۔لہٰذا ہمت کرلو۔ اللہ نے ہمت دی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ارادہ کرلو کہ جان دے دیں گے، مگر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے حرام لذت کو اپنے اندر امپورٹ نہیں کریں گے، درآمد نہیں کریں گے، استیراد نہیں کریں گے۔ جس دن آپ یہ ارادہ کرلیں گے، اللہ کی مدد آجائے گی اور اسی وقت سے آپ ولایت اور اولیائے صدیقین کی خط انتہا تک پہنچ جائیں گے ،ان شاء اللہ!
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔