کائنات وانسان کی تخلیق

کائنات وانسان کی تخلیق

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالی ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ، الَّذِی خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ، فِی أَیِّ صُورَةٍ مَّا شَاء َ رَکَّبَکَ، کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُونَ بِالدِّینِ، وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِینَ ، کِرَامًا کَاتِبِینَ، یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ، إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ، وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ﴾․ (سورة الانفطار، آیة:14-6) صدق الله مولانا العظیم وصدق رسولہ النبي الکریم․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو!الله تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ﴾ اے انسان! تجھے اپنے مہربان رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈالا؟﴿الَّذِی خَلَقَکَ﴾ جس نے تجھے پیدا کیا، ﴿ فَسَوَّاکَ﴾ پھر تجھے اعضاء وجوارح کے اعتبار سے برابر کیا ﴿فَعَدَلَکَ﴾ پھر مزاج، اندرونی بہت سی کیفیات اورخواہشات کے اعتبار سے برابر کیا،﴿فِی أَیِّ صُورَةٍ مَّا شَاء َ رَکَّبَکَ﴾ پھر جس صورت میں چاہا تیری ترکیب وتخلیق کی۔

الله تعالیٰ کے یہ ارشادات ہم انسانوں کے لیے ہیں، ہم اپنے آپ کو دیکھیں او راپنے ارد گرد جو عالَم الله تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اس کا جائزہ لیں،آسمانوں کو دیکھیں، زمین کو دیکھیں، چاند، ستاروں کو دیکھیں، اس زمین سے اُگنے والے درختوں کو دیکھیں، ہر چیز مرتب ہے، منظم ہے اور ایک ایسا توازن ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں، کوئی مثال نہیں، یہ جو توازن ہے اس کو عام طور پر ہم نہیں سمجھتے، یہ بہت باریک اور لطیف چیز ہے، ایک دفعہ ہندوستان جانا ہوا، تو وہاں”فتح پور سیکری“ میں ایک مسجد دیکھی، جواکبر بادشاہ نے بنائی، اس مسجد کا مرکزی دروازہ تیس فٹ اونچا تھا، اس کے دو پٹ تھے اور وہ ایک ایک پٹ پورے کا پورا ایک بے جوڑ پتھر کا تھا، تیس فٹ کا ایک پٹ اور تیس فٹ کا دوسرا پٹ، یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ تیس فٹ کا اور اس میں کوئی جوڑ نہیں، لیکن اس سے زیادہ جو بات اہم تھی، آپ سوچیے کہ جو پٹ پتھرکا ہو، بے جوڑ پتھر کا ہو، اتنا اونچا ہو، وہ کتنا وزنی ہو گا؟! لیکن عجیب بات تھی کہ وہ یوں ہاتھ کے اشارے سے کھل اور بند ہو جاتا تھا، چھوٹا سا بچہ بھی اس کو کھول سکتا ہے۔ تو اصل میں معمار نے جس چیز کا خیال رکھا تھا وہ تھا توازن، توازن اتنا زبردست تھا کہ برسہا برس گزر گئے، اس کو بنے ہوئے، ہم دروازہ لگواتے ہیں تو چند ہفتوں ، مہینوں کے بعد اس کا توازن خراب ہو جاتا ہے، فرش کے اندر پھنس رہا ہے، کہیں چوکھٹ کے اندر پھنس رہا ہے، زورلگانا پڑتا ہے۔

لیکن اس دروازے کو معمار نے اتنی باریکی کے ساتھ بنایا کہ برسہا برس گزر جانے کے بعد بھی بڑے آرام سے کھل رہا ہے، یہ تو انسان کا حال ہے، الله تعالیٰ نے جو یہ کائنات بنائی ہے، یہ آسمان بنایا ہے، یہ زمین بنائی ہے، یہ سورج بنایا ہے، چاند بنایا ہے، یہ ساری کی ساری کائنات اور یہ سارے کا سارا عالم توازن کے ساتھ ہے، سورج نکلتا ہے، آپ حیران ہوں گے کہ دنیا میں جو بہت قیمتی اور اعلی درجے کی گھڑیاں، جو بادشاہوں کے لیے بنائی جاتی ہیں، جس کو عام آدمی خریدنا تو دور کی بات خریدنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اس پہ لکھا ہوتا ہے کہ اس کے وقت کی ایکوریسی اور درستی سورج کے اعتبار سے ہے۔

سورج کے نکلنے کا آج جو وقت تھا اور ہر دن جو سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اس میں ذرہ برابر فرق نہیں۔ (قرآن کی آیت:﴿وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی لِأَجَلٍ مُّسَمًّی﴾․ (سورة الرعد، آیة:2) اس آیت کی تفسیر میں ”معارف القرآن“ میں ہے:

مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو جس جس کام پر لگا دیا ہے، برابر لگے ہوئے ہیں، ہزاروں سال گزر گئے ہیں ،لیکن نہ کبھی ان کی رفتار میں کمی بیشی ہوئی ہے، نہ تھکتے ہیں، نہ کبھی اپنے مقررہ کام کے خلاف کسی دوسرے کام میں لگتے ہیں… اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ہر ایک سیارے کے لیے ایک خاص رفتار اور خاص مدار مقرر کر دیا ہے ،وہ ہمیشہ اپنے مدار پر اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ چلتا رہتا ہے… ان سیاروں کا عظیم الشان وجود پھر ایک خاص مدار پر خاص رفتار کے ساتھ ہزاروں سال سے یکساں انداز میں اسی طرح چلتے رہنا کہ نہ کبھی ان کی مشین گھستی ہے ،نہ ٹوٹتی ہے نہ اس کو گریسنگ کی ضرورت ہوتی ہے، انسانی مصنوعات میں سائنس کی اس انتہائی ترقی کے بعد بھی اس کی نظیر تو کیا ،اس کا ہزارواں حصہ ملنا بھی ناممکن ہے، یہ نظام قدرت بآواز بلند پکار رہا ہے کہ اس کو بنانے اور چلانے والی کوئی ایسی ہستی ضرور ہے جو انسان کے ادراک وشعور سے بالاتر ہے۔ (معارف القرآن:5/168)

اور وہ سورج اس دنیا کے کُرے سے ہزاروں ، لاکھوں بڑا کرہ ہے، کیسے چلتا ہے، کہاں غروب ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری کی روایت ہے: آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی الله عنہ سے پوچھا جس وقت سورج غروب ہوا:”أتدری أین تذھب؟“ کیا تم جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے؟ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں میں نے عرض کیا الله اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: :” فانھا تذھب حتی تسجد تحت العرش فتستأذن فیؤذن لھا“ وہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے، پھر اجازت طلب کرتا ہے تو اسے اجازت دی جاتی ہے۔ ”ویوشک أن تسجد فلا یقبل منھا، وتستأذن فلا یؤذن لھا، یقال لھا: ارجعی من حیث جئت، فتطلع من مغربھا…“

اور وہ زمانہ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور نکلنے کی اجازت چاہے گا تو اسے اجازت نہیں ملے گی، بلکہ اس سے کہا جائے گا جہاں سے تو آیا ہے وہیں واپس لوٹ جا، چناں چہ اس دن مغرب ہی سے طلوع ہو گا۔ پس یہی مطلب ہے ارشاد باری تعالیٰ کا﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذَٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ﴾․ (سورة یٰس، آیت:38)﴾اور سورج اپنے مستقر کے لیے چلتا رہتا ہے اور یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس خدا کا جو زبردست اورعلم والا ہے۔(الجامع الصحیح للبخاري، کتاب بدء الخلق، باب صفة الشمس والقمر بحسبان، رقم:2983)

اس پر ایک دو اشکالات ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہمشاہدہ عام ہے کہ آفتاب جب کسی ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع ہوتا ہے، اس لیے طلوع وغروب اس کا ہر وقت ہر حال میں جاری ہے، پھر بعد الغروب تحت العرش جانے اور سجدہ کرنے کے کیا معنی ہیں؟

دوسرا یہ کہ حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب اپنے مستقر پر پہنچ کر وقفہ کرتا ہے، جس میں الله تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرکے اگلے دورے کی اجازت لیتا ہے، حالاں کہ آفتاب کی حرکت میں کسی وقت بھی انقطاع نہ ہونا کھلا ہوا مشاہدہ ہے اور پھر چوں کہ طلوع وغروب آفتاب کا مختلف مقامات کے اعتبار سے ہر وقت ہی ہوتا رہتا ہے، تو یہ وقفہ اور سکون بھی ہر وقت ہونا چاہیے، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ آفتاب کو کسی وقت بھی حرکت نہ ہو؟

اس کا جواب سمجھنے سے پہلے پیغمبرانہ تعلیمات وتعبیرات کے متعلق یہ اصولی بات سمجھ لینی ضرور ی ہے کہ آسمانی کتابیں اور ان کے لانے والے انبیاء علیہم السلام خلق خدا کو آسمان وزمین کی مخلوقات میں غور وفکر اورتدبر کی طرف مسلسل دعوت دیتے ہیں او ران سے الله تعالیٰ کے وجود، توحید ،علم وقدرت پر استدلال کرتے ہیں، مگر ان چیزوں میں تدبر اسی حد تک مطلوب شرعی ہے، جس حد تک اس کا تعلق انسان کی دنیوی اور معاشرتی ضرورت سے یادینی اور اخروی ضرورت سے ہو، اس سے زائد نری فلسفیانہ تدقیق اور حقائق اشیاء کے کھو ج لگانے کی فکر میں عام خلق خدا کو نہیں ڈالا جاتا…۔

قرآن او رانبیاء کا استدلال آسمان وزمین کی مخلوقات او ران کے تغیرات وانقلابات سے صرف اس حد تک ہوتا ہے جو ہر انسان کو مشاہدہ اورادنی غور وفکر سے حاصل ہوسکے، فلسفہ اور ریاضی کی فنی تدقیقات جو صرف حکماء وعلماء ہی کرسکتے ہیں، نہ ان پر استدلال کا مدار رکھا جاتا ہے ،نہ ان میں غور وخوض کی ترغیب دی جاتی ہے ،کیوں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان او راس کے پیغام پر عمل ہر انسان کا فرض ہے ،عالم ہو یا جاہل ،مرد ہو یا عورت ، شہری ہو یا دیہاتی ،کسی پہاڑ اور جزیرہ میں رہتا ہو یا کسی متمدن شہر میں ، اس لیے پیغمبرانہ تعلیمات عوام کی نظر او ران کی عقل وفہم کے مطابق ہوتی ہیں، جن میں کسی فنی مہارت کی ضرورت نہ ہو… چاند کے گھٹنے بڑھنے ،چھپنے اور پھر طلوع ہونے کا راز بعض لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا، تو اس کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ :﴿قُلْ ہِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾․(سورة البقرہ، آیت:189)یعنی آپ کہہ دیں کہ چاند کے یہ سب تغیرات اس مقصد کے لیے ہیں کہ تم ان سے مہینے کا شروع اور ختم اور اس کی تاریخیں معلوم کرکے حج وغیرہ کے دن متعین کرسکو، اس جواب نے ان کو اس پر تنبیہ فرما دی کہ تمہارا سوال لا یعنی اور فضول ہے، اس کی حقیقت معلوم کرنے پر تمہارا کوئی کام دین یا دنیا کا اٹکا ہوا نہیں، اس لیے سوال اس چیز کا کرو جس کا تعلق تمہاری دینی یا دنیوی ضرور ت سے ہو۔

اس تمہید کے بعد اصل معاملہ پر غور کیجیے کہ الله تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے چند مظاہر کا ذکرکے انسان کو الله کی توحید اورعلم وقدرت کاملہ پرایمان لانے کی دعوت دی ہے… آفتاب کے متعلق فرمایا:﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذَٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ﴾․ اس میں غور کیجیے کہ مقصد اس کا یہ بتلانا ہے کہ آفتاب خود بخود اپنے ارادے اوراپنی قدرت سے نہیں چل رہا، بلکہ یہ ایک عزیز وعلیمیعنی قدرت والے اور جاننے والے کے مقرر کردہ نظم کے تابع چل رہا ہے، اس کا ہر طلوع وغروب الله تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے، یہ اس کی اجازت کے تابع ہے، اس کے تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو اس کا سجدہ قرار دیا گیا، کیوں کہ سجدہ ہر چیز کا اس کے مناسب حال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن نے خود تصریح فرما دی، ﴿کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیحَہُ﴾ ․(سورة النور، آیت:41) یعنی ساری مخلوق الله کی عبادت اور تسبیح میں مشغول ہے ، مگر ہر ایک کی عبادت وتسبیح کا طریقہ الگ الگ ہے، اس لیے آفتاب کے سجدہ کے یہ معنی سمجھنا کہ وہ انسان کے سجدہ کی طرح زمین پر ماتھا ٹیکنے ہی سے ہو گا صحیح نہیں او رجب کہ قرآن وسنت کی تصریحات کے مطابق عرش خداوندی تمام آسمانوں، سیاروں، زمینوں پر محیط ہے، تو یہ ظاہر ہے کہ آفتاب ہر وقت ہر جگہ زیر عرش ہی ہے اورجب کہ تجربہ مشاہد ہے کہ آفتاب جس وقت ایک جگہ غروب ہو رہا ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع بھی ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے اس کا ہر لمحہ طلوع وغروب سے خالی نہیں۔

تو آفتاب کازیر عرش رہنا بھی دائمی ہر حال میں ہے او رغروب وطلوع ہونا بھی ہر حال میں ہے، اس لیے حاصل مضمون حدیث کا یہ ہوا کہ آفتاب اپنے پورے دورے میں زیر عرش الله کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے، یعنی اس کی اجازت اور فرمان کے تابع حرکت کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح قرب قیامت تک چلتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کی بالکل قریبی علامت ظاہر کرنے کا وقت آجائے گا، تو آفتاب کو اپنے مدار پر اگلا دورہ شروع کرنے کے بجائے پیچھے لوٹ جانے کا حکم ہو جائے گا اور وہ پھر مغرب کی طرف سے طلوع ہو جائے گا، اس وقت دروازہ توبہ کا بند ہو جائے گا۔ کسی کا ایمان و توبہ اس وقت مقبول نہیں ہوگا۔ (ملخص من معارف القرآن:7/391-388) یہ تو کائنات کا قصہ ہے۔

الله تعالیٰ تو انسان سے فرمارہا ہے:﴿یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ﴾ اے انسان !تجھے اپنے مہربان کریم رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈالا؟﴿الَّذِی خَلَقَکَ﴾، جس نے تجھے پیدا کیا ہے۔

یہ جو انسان کی تخلیق ہے الله تعالیٰ نے اس انسان میں بے شمار صفات پیدا فرمائی ہیں ،آج کل لوگ متاثرہیں کمپیوٹر سے، سپر کمپیوٹر، نامعلوم کیا کیا چیزیں اس میں جمع ہیں، ایک بٹن دبانے سے بیس سال، چالیس سال پرانی چیزیں فوراً سامنے آجاتی ہیں، کبھی آپ نے غور کیا کہ اس کمپیوٹر کو کس نے بنایا؟ اس کا موجد کون ہے؟ کون لوگ ہیں جو اس کو اپڈیٹ کرر ہے ہیں؟ اس کو آگے کی طرف بڑھا رہے ہیں؟ وہ انسان ہیں او راس انسان کو الله تعالیٰ نے بنایا ہے، اس انسان میں الله تعالیٰ نے وہ صلاحیتیں رکھی ہیں۔

﴿الَّذِی خَلَقَکَ ﴾ وہ مہربان رب جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ﴿فَسَوَّاکَ﴾ عجیب بات ہے ، یہ ناک ہے، توازن کے ساتھ ہے، بعض کم لوگ ہوتے ہیں، ذرہ سی ناک، پیدائشی طور پر ٹیڑھی ہوتی ہے، توازن بگڑ گیا ، تو چہرے کا حسن اور خوب صورتی ہے وہ متاثر ہے، بعض تھوڑے لوگ ہوتے ہیں جن کے انگوٹھے کی شاخ نکلی ہوتی ہے، دو انگوٹھے ہوتے ہیں،، توازن بگڑ گیا، ہاتھ کا جو حسن ہے وہ باقی نہ رہا، ﴿فَسَوَّاکَ﴾ پھر برابر کیا، آپ دیکھیں اپنے ہاتھوں کو، پیروں کو، اپنی انگلیوں کو، اپنے چہرے کو ، ناک، کان، آنکھوں کو، اپنے جسم کے تمام اعضاء وجوارح کو کہ الله تعالیٰ نے صرف پیدا نہیں کیا ،بلکہ اس میں توازن رکھا ہے۔

﴿فَعَدَلَک﴾ پھر الله تعالیٰ نے اس انسان میں ایسا عدل قائم کیا ہے، ایسی صلاحیتیں رکھی ہیں کہ آدمی حیران ہوتا ہے، میٹھا ہے، اس میٹھے میں ایک حد ہے ،اگر وہ حد سے زیادہ میٹھا ہو فوراً اندر سے انکار آجاتا ہے، مرچیں ہیں، اس کی ایک حد ہے، اس حد تک قبول آئے گا، ورنہ انکار، نمک ہے اس کو ایک حد تک آپ برداشت کرسکتے ہیں، اس کے بعد انکار، بے شمار چیزیں ہیں، دوستی ہے، دشمنی ہے، اکرام ہے، تواضع ہے، ہر چیز کے اندریہ جو صفت ہے، صلاحیت ہے، یہ کس نے پیدا کی۔

﴿فِی أَیِّ صُورَةٍ مَّا شَاء َ رَکَّبَکَ﴾ پھر اس کی صورت گری میں جو ترتیب اور ترکیب قائم کی، ایک ماں باپ ہیں، بیس بیٹے اور بیٹیاں ہیں، لیکن ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے، صورت میں بھی الگ ، سیرت میں بھی الگ، پسندناپسند میں بھی الگ ،ترجیحات میں بھی الگ ہے، حالاں کہ ایک باپ چار ماؤں سے پیدا نہیں ہوئے، ایک باپ ایک ماں سے اورپوری دنیا میں جتنے انسان موجو دہیں یا جو دنیا سے جاچکے یا جو دنیا میں آئیں گے سب ایک دوسرے سے الگ، آپ نے دیکھا ہو گا، بائیو میٹرک ہوتا ہے، انگھوٹے کا نشان لگایا جاتا ہے اور یہ جتنے انسان ہیں، پانچ ارب ہیں، ساڑھے پانچ ارب ہیں، سب کے یہ مختلف ہیں، او راس سے آگے کی بات ہے کہ آنکھ ، اب آپ جائیں بیرون ملک، کیمرے لگے ہوتے ہیں، کہتے ہیں اس کی طرف دیکھیں سارے انسان ، آٹھ بھائی ہیں ،سب کی آنکھوں کے اندر کی کیفیت الگ ہے، کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا، یہ کس نے بنایا ہے؟ یہ الله تعالیٰ نے بنایا ہے ۔

اس کا حق کیا تھا اس کا حق یہ تھا کہ ہم اپنے مہربان رب اور اپنے پیدا کرنے والے خالق او رمالک کی طرف رجوع ہوتے، ہم اس کے احکامات پر عمل کرتے، ہم لمحہ بہ لمحہ شکر ادا کرتے کہ اے الله! آپ کا احسان ہے کہ آپ نے مجھے ایسا حسین ، خوب صورت، ایسا طاقت ور، ایسی صفات والا جسم عطا کیا ہے۔

میرے دوستو! خوب یاد رکھیں کہ وہ جو الله نے اس میں صفات رکھی ہیں اور جن صفات کی وجہ سے انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا ہے، اپنے رب کے قریب ہوتا ہے وہ ایمان کی وجہ سے، اس میں ایمان ہے تو ایمان کی وجہ سے یہ انسان دوسرے انسانوں سے بہت مختلف ہو جاتا ہے بدل جاتا ہے۔

چناں چہ انبیا کرام علیہم السلام اس دنیا کے اندر سب سے اعلیٰ ترین انسان تھے او رپھر ان تمام اعلیٰ ترین انسانوں کے جو امام ہیں ان تمام اعلیٰ ترین انسانوں کے جو سردار ہیں وہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں۔

چناں چہ ان کی رہبری ان کی راہ نمائی الله تعالیٰ وحی کے ذریعے سے فرماتے ہیں اور یہی وہ وحی ہے جس کو ہم آپ کے سامنے پڑھ رہے ہیں ﴿یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیمِ، الَّذِی خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَلَکَ، فِی أَیِّ صُورَةٍ مَّا شَاء َ رَکَّبَکَ، کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُونَ بِالدِّینِ﴾

تم انصاف کے دن کا انکار کرتے ہو، کلا، ہر گز ایسا نہ کرو، اگر آدمی کو یہ بات مستحضر ہو کہ میں اس کا بندہ ہوں ، الله میرے خالق ہیں، الله نے میرے اندر یہ خوبیاں پیدا کی ہیں، تو وہ کبھی بھی انصاف کے دن کا انکار نہیں کرے گا، آخرت کا انکار نہیں کرے گا، موت کا انکار نہیں کرے گا۔

اس لیے کہ جو پیدا کرنے پر قادر ہے وہ مارنے پر بھی قادر ہے، اور یہ صبح شام کے واقعات ہیں کہ انسان پیدا بھی ہوتا ہے اور مرتا بھی ہے: ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ، وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِِ﴾(سورة الرحمن، آیت:27-26) الله رب العزت کے سوا کسی کو بقا نہیں، سب کو فنا ہے۔

میرے دوستو! اگر اس کا استحضار رہے تو آدمی الله کا شکر ادا کرے گا، آدمی الله کی طرف رجوع ہو گا اور الله تعالیٰ نے اس انسان کے حوالے سے ایسا نظام بنایا ہے کہ الله تعالیٰ نے کراماً کاتبین مقرر فرمائے ہیں، لکھ رہے ہیں ﴿یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ﴾جو کچھ تم کرتے ہو۔

آپ نے بیس سال زندگی گزاری، پچاس سال گزاری، سو سال گزاری، سب لکھا جارہا ہے۔

ایک زمانے میں لوگ کہتے تھے یہ کیسے ہو گا؟ آج سب آسان کر دیا ہے الله تعالیٰ نے، اتنی سیUSB ہوتی ہے آپ کی جیب میں ،آپ دنیا کا سفر کرتے ہیں، آپ اپنے پورے نظام کو اتنی سی چیز میں لے جاتے ہیں وہاں جاتے ہیں، اس کو کمپیوٹر میں لگاتے ہیں، آپ کا پورا نظام آپ کے سامنے ہوتا ہے۔تو جب ایک انسان ہزاروں افراد کی تفصیلات ،اپنے بہت بڑے صنعتی نظام کی تفصیلات اتنی سی چیز میں جمع کرسکتا ہے۔

تو میرے دوستو! الله رب العزت جو اس انسان کی ہر چیز کے خالق ہیں، ان کے لیے اس آدمی کی ہر ہر حرکت کو محفوظ کرنا او رجمع کرنا، خواہ وہ اچھی ہو یا بری:﴿یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ﴾ وہ جو کراما ًکاتبین ہیں، وہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ واقف ہیں، سب جانتے ہیں، سب لکھا جارہا ہے اورجب انصاف کا دن الله تعالیٰ قائم فرمائیں گے اور میدان حشر ہو گا اس وقت ہر ہر چیز انسان کے سامنے پیش کر دی جائے گی، انسان حیران ہو گا کہ اس کے اعمال نامے میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔

میرے دوستو! ہمیں اپنی تخلیق پیش نظر رکھنی چاہیے کہ الله نے ہمیں پیدا فرمایا، الله نے یہ خوبیاں اور صفات ہمارے اندر پیدا فرمائیں، ہمارے ذمے ہے کہ ہم الله تعالیٰ کی بندگی کریں، ہم الله کے سامنے رجوع ہوں، ہم الله تعالیٰ کی صفات کا اقرار اور اعتراف کریں، جتنے دن ہم نے دنیا میں رہنا ہے ہم الله کی بندگی کرکے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرکے ہم زندگی گزاریں، وگرنہ یہ انسان جسے الله تعالیٰ نے کتنی خوبیوں اوربیش بہا صفات سے مالا مال کیا، یہ اگر الله کی طرف رجوع نہیں ہوگا، یہ اگر الله کی بندگی او راس کی اطاعت نہیں کرے گا، الله کے بھیجے ہوئے نبی کی یہ اتباع اور اطاعت نہیں کرے گا، پھر اس آدمی میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔

بہت سارے انسان ہیں جوکھا رہے ہیں پی رہے ہیں، سو رہے ہیں، ہگ رہے ہیں مُوت رہے ہیں، بس یہی کام ہے، جانور بھی یہ کام کر رہے ہیں، یہی کام بیل، گائے، بکرا، بکری بھی کررہے ہیں، ان کے ہاں بھی توالدوتناسل کا سلسلہ ہے، تو پھر انسان اور جانور میں کیا فرق ہوا؟

انسان کو جو صفات الله تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں وہ اس لیے کہ وہ الله تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے، وہ الله تعالیٰ کا قرب حاصل کرے، الله تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کی طرف متوجہ ہو۔

الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
﴿رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ، وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ﴾․