عظمت قرآن کانفرنس، خاران

عظمت قرآن کانفرنس، خاران
خطاب شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله خان ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

شیخ الحدیث حضرت اقد س مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم اپنے امراض او راعذار کو بالائے طاق رکھ کر اپنے فضلاء اور اہل علم کی حوصلہ افزائی کے لیے دور دراز کے اسفار سے بھی گریز نہیں کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے تشریف لے جاتے ہیں، چناں چہ گزشتہ دنوں بھی جامعہ کے فاضل مولانا ہدایت الله صاحب کی درخواست پر بلوچستان کے شہر خاران تشریف لے گئے، جہاں پر ”عظمت قرآن“ کے موضوع پر بہت بڑے اجتماع سے حضرت اقدس دامت برکاتہم نے خطاب فرمایا، جس کو نذر قارئین کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد: فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․

﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾․ (سورة الحجر، آیة:9)

وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ﴿خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ﴾․ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب فضائل القرآن، باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، رقم:5027)، سنن الترمذي، أبواب فضائل القرآن، باب ماجاء في تعلیم القرآن، رقم:2907)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: بدأ الاسلام غریباً وسیعود کما بدأ، فطوبیٰ للغرباء․ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان أن الإسلام، بدأ غریباً، رقم:372، وسنن الترمذي، کتاب الإیمان، باب ماجاء أن الإسلام بدأ غریباً، رقم:2629)
صدق الله مولانا العظیم وصدق رسولہ النبي الکریم․

میں اپنے دلی جذبات کے اظہار پر قادر نہیں ہوں، آپ حضرات سے ملاقات، آپ حضرات کی زیارت، آپ کے اس خطے میں آنا، میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ میرے لیے یہ کتنی بڑی بڑی سعادتوں کا مجموعہ ہے۔

میں سب سے پہلے تو الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ الله تعالیٰ نے مجھے محض اپنے فضل، اپنے کرم سے توفیق عنایت فرمائی، جو حضرات مجھ سے قریب ہیں اور میرے احوال سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں 2020ء سے بیمار ہوں اور ان دو سالوں میں پہلے چھ ماہ ایسے گزرے ہیں کہ میں صاحب فراش تھا، بستر سے اٹھ نہیں سکتا تھا۔ لیکن الحمدلله ثم الحمدلله الله تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور اپنے کرم اور آپ حضرات کی دعاؤں کے نتیجے میں بتدریج صحت عطا فرمائی۔

میں حضرت مولانا ہدایت الله صاحب زید مجدہ مہتمم مدرسہ فاروقیہ، خاران کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ فرزندان جامعہ فاروقیہ میں تو ہیں ہی، انہوں نے آگے بڑھ کر فرمایا کہ میں یہاں حاضر ہوں، میری دلی تمنا تھی کہ میں اس خطے میں آؤں ، الله تعالیٰ نے عافیت فرمائی، خیریت فرمائی اور میں آپ حضرات کے پاس حاضر ہو گیا، میں مدرسہ فاروقیہ، خاران کے تمام اساتذہ کا بھی ممنون ومشکور ہوں کہ انہوں نے حضرت مولانا ہدایت الله صاحب کے اشراف ،ان کی زیر سرپرستی یہ نہایت عظیم الشان اجتماع منظم کیا، میں اسٹیج پر موجود علاقے کے اکابر علماء کا بھی ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے شفقت فرمائی، سرپرستی فرمائی اوراس اجتماع میں تشریف لائے۔

معززین علاقہ کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے اس اجتماع کے حوالے سے اپنی خدمات بھی پیش فرمائیں اور اس میں تعاون بھی فرمایا، یہاں جو دور دراز سے آئے ہوئے علماء ہیں، بالخصوص فضلاء جامعہ فاروقیہ کراچی ان کا بھی ممنون ہوں، احسان مند ہوں، کہ وہ دور سے تشریف لائے اور یہ میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ میں ان شاء الله ان کی زیارت سے مشرف ہوں گا، آپ سب جانتے ہیں کہ آج کا یہ اجتماع خالص اور خالص روحانی اجتماع ہے اور وہ محسوس ہو رہا ہے، یہاں جو حضرات آئے ہیں وہ الله کے نام کی نسبت پر آئے ہیں ، الله کے کلام کی نسبت پر آئے ہیں، یہ معمولی بات نہیں ہے یہ بہت بڑی بات ہے او رگھنٹوں سے وہ جم کر بیٹھے ہوئے ہیں اور علماء کے بیانات کو توجہ اورا نہماک سے سن رہے ہیں، یہ بہت بڑی سعادت ہے اس اجتماع کی نسبت ، بہت ہی عظیم الشان نسبت ہے۔

قرآن کریم کی آیت میں نے آپ حضرات کے سامنے تلاوت کی﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾ علمائے کرام موجود ہیں، طلباء عزیز موجود ہیں، وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ الله تعالیٰ نے اس کلام میں کتنی تاکید فرمائی ہے، تاکید در تاکید در تاکید، بے شک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور بے شک ہم ہی البتہ ضرور بالضرور اس کی حفاظت کریں گے۔
جو اہل علم ہیں او رجنہیں کچھ علمی نور سے وابستگی ہے وہ جانتے ہیں کہ اس پوری کائنات میں الله تعالیٰ کے سوا الله تعالیٰ کے علاوہ جو کچھ ہے وہ مخلوق ہے، ساتوں آسمان مخلوق ہیں، ان ساتوں آسمانوں کے بیچ جو کچھ ہے وہ سب مخلوق ہے، ان ساتوں آسمانوں کے اوپر جو کچھ ہے وہ سب مخلوق ہے، ان ساتوں آسمانوں کے نیچے جوکچھ ہے وہ سب مخلوق ہے، ساتوں زمینیں مخلوق ہیں اور ساتوں زمینوں کے بیچ جو کچھ ہے وہ سب مخلوق ہے، ان ساتوں زمینوں کے نیچے جو کچھ ہے وہ سب بھی مخلوق ہے، سورج بھی مخلوق ہے، چاند، تارے بھی مخلوق ہیں، سب مخلوق ہیں، حتی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی مخلوق ہیں، حضرت میکائیل علیہ السلام، حضرت عزرائیل علیہ السلام بھی مخلوق ہیں، حضرت اسرافیل علیہ السلام بھی مخلوق ہیں، جنت بھی مخلوق ہے، جہنم بھی مخلوق ہے، اور آگے بڑھیے حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام سے لے کر امام الانبیاء سید الرسل ، خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم تک تمام کے تمام انبیاء اور رسل بھی مخلوق ہیں۔

لیکن خوب یاد رکھیے! یہ بچے جنہوں نے قرآن حفظ کیا ہے یہ بطور خاص، ان بچوں کے جوسرپرست اور ذمہ دار یہاں بیٹھے ہوئے ہیں وہ بطور خاص، یہ خوب یاد رکھنا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔ یہ اہل السنة والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے:”فالقرآن کلام الله ووحیہ وتنزیلہ وصفتہ، لیس بخالق ولا مخلوق،… وقال سفیان بن عیینة عن عمرو بن دینار سمعت مشیختنا منذ سبعین سنة، یقولون:القرآن کلام الله لیس بمخلوق․“(شرح السنة للبغوي، کتاب الإیمان، باب الرد علی من قال بخلق القرآن:1/168-164)

وہ قرآن آج ان بچوں کے سینوں کے اندر پہنچ گیا ہے، یہ ماں باپ آج کہہ رہے ہیں کہ یہ بچہ میرا ہے جس کے سینے میں قرآن ہے، آپ سوچیے اس بچے کا کیا مقام ہو گا؟ ! اس بچے کا کیا مرتبہ ہو گا؟!۔

میرے دوستو! بد قسمتی سے یہ جو ہمارا خطہ ہے یہ پہلے متحدہ ہندوستان تھا اور ہماری ہی بد أ عمالیوں کے نتیجے میں ہم پر کفار مسلط ہو گئے، انگریز مسلط ہوگئے، انہوں نے یہاں برطانوی استعمار قائم کیا اور انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس خطے کی زمین پر قبضہ کیا بلکہ ان کی آخری کوشش یہ تھی کہ یہاں سے اسلام کا نام ونشان مٹا دیا جائے، اس کے لیے انہوں نے بھرپور کوشش کی۔ ہزاروں علماء کو پھانسیوں پر لٹکایا، ہزاروں علماء کو کالا پانی جیل بھیج دیا او راہل علم او راہل دین کے لیے زندہ رہنا دو بھر اور مشکل کر دیا، لیکن ابھی آپ نے ترجمہ سنا ہے، ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾ ہم اس کی حفاظت کریں گے، جس کی حفاظت کا وعدہ الله نے فرما دیا، اسے کوئی نہیں مٹا سکتا ، لیکن انہوں نے یہ کوشش کی اور وہ کوشش بہت بڑے پیمانے پر کی اور بڑی بد قسمتی ہے مسلمانوں کی، کہ ہم ان کی کوششوں اورسازشوں کو سمجھ نہیں سکے او رہم میں کچھ لوگ آج بھی ایسے ہیں جو نہیں سمجھتے، میں اس کی چند مثالیں آپ حضرات کو دیتا ہوں۔

انگریز نے حافظ قرآن کو معاشرے میں کئی طرح سے پست بنا کر پیش کیا، یہاں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہو گا، وہ یہ کہ سڑک پر ایک نابینا جارہا ہے، اس کے ہاتھ میں چھڑی ہے،لوگ اس کو کیا کہہ کر پکارتے ہیں،۔حافظ جی، حافظ صاحب، حالاں کہ وہ بیچارہ حافظ نہیں، معاشرے کے اندر یہ زہر داخل کرنے کی کوشش کی گئی، یہ پیغام دیا گیا کہ حافظ قرآن تو ”اندھا“ ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان ریلوے میں ایک زمانے تک آپ نے دیکھا ہو گا کہ ریل میں ایک خاص بوگی ہوتی ہے جس میں کھانے پینے کی چیزیں ہوتی ہیں، وہاں سے پوری ریل ناشتہ، کھانا فراہم کیا جاتا تھا، اس کے لیے خانسامے مقرر تھے، جو پوری ریل کے اندر بھاگتے دوڑتے تھے اور چیزیں لوگوں تک پہنچاتے تھے، ان کو پگڑی پنہائی گئی ، ان کو شیروانی پہنائی گئی، ان کو شلوار پہنائی گئی، ان کو شاہی جوتا پہنایا، تاکہ جب لوگ اس ٹرین میں سفر کریں او ران کے ساتھ ان کے بیوی بچے بھی ہوں تو وہ یہ دیکھیں کہ ٹرین کے اندر جو کھانا فراہم کرنے والا خانساماں ہے وہ کیا پہنتا ہے؟ وہ پگڑی پہنتا ہے، وہ شلوار پہنتا ہے، وہ سلیم شاہی جوتے پہنتا ہے۔

اب اگر گھر ، آکر باپ بیٹے سے کہے کہ بیٹا تم عمامہ باندھو، تم شیروانی پہنو، شلوار پہنو، تو بیٹا کہے گا کہ ابو جب ہم لاہور گئے تھے تو ریل کے اندر خانساماں نے یہ پہنا ہوا تھا، تو کیا آپ مجھے خانساماں بنانا چاہتے ہیں؟!

آپ آج بھی اپنے ملک کے جو فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹل ہیں، وہاں جائیں، وہاں کا دربان ، جو دروازے پر کھڑا ہوتا ہے، آنے جانے والوں کے لیے دروازہ کھولتا ہے، اس کے سر پر عمامہ ہے، شیروانی پہنی ہوئی ہے اس نے سفید شلوار پہنی ہوئی ہے، یہ اچانک نہیں ہوا ، یا یونہی نہیں ہوا بلکہ یہ ایک سازش کے تحت ہوا ہے تاکہ معاشرے کو ایک پیغام دیا جائے کہ یہ مولویوں کی وضع قطع اعلیٰ درجے کے لوگوں کی نہیں ہے۔اعلیٰ درجے کے لوگوں کی وضع قطع کیا ہے؟ تھری پیس سوٹ، ٹائی۔

میرے دوستو! معاشرے میں وہ لوگ موجود ہیں جو اس بات کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کسی گھر کے اندر پانچ بھائی ہیں اورخدانخواستہ خدانخواستہ کوئی ایک بھائی معذور ہے، اپاہج ہے تو سب گھر کے لوگ کیا کہتے ہیں؟ خاندان کے لوگ کیا کہتے ہیں؟ اسے مدرسے میں ڈال دو، یہ جو خدانخواستہ چلنے سے معذور ہے یا خدا نخواستہ نابینا ہے، یا خدانخواستہ اپاہج ہے تو اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کہ اسے مدرسے میں بھیج دو، یہ ان ساری سازشوں کا نتیجہ ہے، معاشرے میں مدرسے اور قرآن کی تعلیم کو بہت پست درجے کی ادنیٰ درجے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔

میرے دوستو! میرے والد صاحب قدس الله تعالیٰ سرہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس میں کوئی مولوی نہیں تھا، کوئی عالم نہیں تھا، دین کا کوئی بڑا چرچا بھی نہیں تھا، الله تعالیٰ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس الله تعالیٰ سرہ کو اپنی شایان شان جزائے خیر عطا فرمائے اوران کے فیوض کو تاقیامت جاری وساری فرمائے او ران کے خلفاء جنہوں نے عظیم الشان خدمات انجام دیں ہیں ان کے فیوض کو عام او رتام فرمائے۔ آمین۔ہم آبائی اعتبار سے ہندوستان کے جس علاقے میں رہتے تھے ، وہاں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ اجل حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کا مدرسہ تھا، ہمارے خاندان کے لوگ جیسے آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں، کہ وہ دین دار نہیں ہوتے، ان کے گھروں کے اندر دین کا کوئی خاص چرچا نہیں ہوتا لیکن ان کے خاندان کا ایک مولوی ہوتا ہے ،دم کروانا ہو تو کہتے ہیں مولوی صاحب کے پاس لے جاؤ، تعویذ لیناہو تو کہتے ہیں مولوی صاحب کے پاس چلے جاؤ اورکوئی اسی طرح کا چھوٹا موٹا کام ہو تو یہ کام مولوی کرتا ہے۔

تو ہمارے خاندان کے بھی مولوی، وہ مولانا مسیح الله خان صاحب رحمہ الله تھے، ان کی نظر ہمارے والد ماجد پر پڑ گئی اور وہ ایسی نظر تھی الله والے کی کہ اس نے ہمارے والد ماجد کو اپنا اسیراور قیدی بنا لیا، انہوں نے ان کی تربیت کی، بہت لوگ دیکھے ہیں ہم نے ، لیکن اپنے والد ماجد جیسے نظروں میں نہیں آتے ، حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے جیسے کہ میں نے ذکر کیا کہ آج معاشرہ کیا کہتا ہے؟ کہ یہ ملا ّہے ۔

ہمارے حضرت والد ماجد نوّرالله مرقدہ فرماتے تھے میں مولانا نہیں ہوں۔ میں مولوی نہیں ہوں، میں ملاّ ہوں، او رمیں نے ملائیت کسی مجبوری میں اختیار نہیں کی ہے کہ میرے پاس کھانے کو نہیں تھا، پینے کو نہیں تھا، رہنے کو نہیں تھا ، نہیں میں نے ملائیت بہت سوچ سمجھ کر اختیار کی، اور مجھے اپنے ملاّ ہونے پر فخر ہے۔وہ ان معاملات میں اتنے سخت تھے، ابھی کسی نے پرویز مشرف کا تذکرہ کیا تھا،جب پرویز مشرف نے ڈکٹیٹرشپ قائم کی ، تو مدارس کا محاسبہ شروع ہو گیا اور مدارس کو عالمی طاغوت کے پریشر کے تحت ، بند کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، حضرت والد ماجد قدس الله سرہ، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر تھے اور وہ کیسے صدر تھے؟ وہ ایسے صدر تھے کہ دس سال پہلے وہ ناظم اعلیٰ رہے اور دس سال نظامت علیا کے بعد پھر ستائیس سال تادم حیات وہ وفاق المدارس کے صدر رہے، اور ان کے بارے میں ہم عام طور پر علماء کرام او راہل مدارس سے سنتے تھے کہ ہم رات کو آرام سے سوتے ہیں اس لیے کہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے حضرت جاگ رہے ہیں۔

پرویز مشرف نے مدارس کو ختم کرنے کی کوشش شروع کی، تنگ کرنا شروع کیا، ناطقہ بند کرنا شروع کیا، تو حضرت رحمة الله علیہ نے کوشش شروع کی کہ اس شخص سے مذاکرات کیے جائیں، بات کی جائے، اسے ہم مدرسے کے بارے میں سمجھائیں کہ مدرسہ کیا ہے؟ تم کیوں مدرسے کے مخالف ہو؟ باوجودبڑی کوشش کے کام یابی نہیں ہوئی، چناں چہ حضرت بہت پریشان تھے، حضرت کا موقف اور خیال یہ تھا کہ ہمیں ابتداءً مزاحمت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ ہمیں ابتداءً مذاکرات کرنے چاہییں، ہمیں اپنی بات سمجھانی چاہیے۔ بہت کوششیں ہوئیں لیکن پرویز مشرف ملاقات کے لیے تیار نہیں ہوئے، چناں چہ پھر حضرت تھانوی رحمہ الله کے خلیفہ ہی کام آئے، حضرت مولانا فقیر محمد صاحب نوّرالله مرقدہ جو ہمارے والدماجد کے شیخ بھی تھے او ران کا قیام پشاور میں تھا اور ان کی صفت” بکاّء“ تھی، بہت زیادہ رونے والے، ہر وقت روتے تھے، چھ ماہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ میں رہتے تھے، چھ ماہ پاکستان میں رہتے تھے، ہر وقت ان پر گریہ طاری رہتا تھا، تو کسی نے ہمارے والد صاحب کو بتایا کہ ان کے جو بیٹے ہیں، ان کا اس زمانے میں جو ڈی جی آئی ایس آئی تھے، ان سے بڑا گہرا تعلق تھا اور گھریلو تعلق تھا، تو حضرت والد صاحب نے حضرت مولانا فقیرمحمد صاحب سے گزار ش کی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے صاحب زادے کا ڈی جی آئی ایس آئی سے تعلق ہے تو آپ ہمارا ان سے رابطہ کرا دیں، حضرت نے فرمایا: کوئی مسئلہ نہیں ہے، چناں چہ حضرت کے صاحب زادے نے والد صاحب سے رابطہ کیا، اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات ہو گئی، بڑی تفصیلی ملاقات ہو ئی اوراطمینان بخش ملاقات ہوئی، ڈی جی آئی ایس آئی نے وعدہ کیا کہ میں آپ کی پرویز مشرف سے ملاقات کرا دیتا ہوں، چناں چہ کچھ دنوں بعد ملاقات ہو گئی۔

جو حضرات علماء یہاں موجود ہیں وہ جانتے ہیں کہ حضرت کا وہ زمانہ معذوری کا زمانہ تھا، حضرت ویل چیئر پر ہوتے تھے او ران کے خادم کے طو رپر میں ان کی ویل چیئر چلاتا تھا، چناں چہ ہم کراچی سے اور ملک بھر کے اور علاقوں سے تقریباً12 علماء حضرت کی قیادت میں پرویز مشرف سے ملاقات کے لیے گئے۔

جو میٹنگ روم تھا، جس میں میٹنگ ہونی تھی، کافی بڑا کمرہ تھا، اس میں ایک بڑی میز تھی اور اس کے ایک طرف12 جرنیل تھے او ران کے بالمقابل ہمارے 12 علماء تھے او رسامنے پرویز مشرف کی کرسی تھی اور علماء والی جو صف تھی اس میں سب سے پہلے حضرت تشریف فرما تھے ، حضرت کے ساتھ میری نشست تھی، میں نے اپنی زندگی میں اتنا تلخ او راتنا سخت ماحول نہیں دیکھا، میں گھبرا گیا کہ الله خیر کرے پتہ نہیں کیا ہو گا؟ اس لیے کہ وہ جو 12 جرنیل بیٹھے تھے اور پرویز مشرف صاحب بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے پورے ملک کے جید اور عظیم علماء کا کسی بھی طرح سے استقبال نہیں کیا، اورچہرے ان کے ایسے جیسے پتھر ہوں، تنے ہوئے، سخت، نہ پرویز مشرف نے کوئی استقبالیہ جملہ کہا کہ آپ حضرات تشریف لائے، یا بہت اچھا ہوا آپ تشریف لائے، اور ہمارے حضرات کے بیٹھنے کے بعد فوراًہی اس نے گفت گو شروع کردی اور تقریباً دس منٹ تک مدارس کے خلاف بات کی اوریہ کہا کہ ہم پر پوری دنیا کا پریشر ہے، دباؤ ہے اور ہم اب ان مدارس کو برداشت نہیں کرسکتے، ہمیں انہیں ختم کرنا ہے، لیکن عجیب بات میں آپ کو بتاؤں کہ دس منٹ تک پرویز مشرف بات کرتا رہا، تو ہمارے حضرت رحمة الله علیہ کے چہرے پر بہت خوب صورت مسکراہٹ تھی، مسکرا کر دیکھ رہے ہیں ان کے چہرے پر کوئی تناؤ نہیں، او رجب پرویز مشرف صاحب نے اپنی بات پوری کر لی، تو حضرت رحمة الله علیہ نے نہایت سہل،آسان، عام فہم انداز میں اوربڑے جامع طریقے سے مدارس کا تعارف کرایا، اس کے جواب میں بھی پرویز مشرف نے کسی قسم کا کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا، بلکہ اس نے یہی کہا کہ ہم فیصلہ کرچکے ہیں ہم مدرسے بند کریں گے۔

اب یہ اگلی بات بڑی اہم ہے کہ حضرت رحمة الله علیہ نے پرویز مشرف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : کہ جنرل صاحب آپ جس کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں کچھ عرصہ پہلے یہاں آپ ہی جیسا آدمی بیٹھتا تھا، وہ بھی یہی کہتا تھا کہ میں مدرسے ختم کردوں گا، لیکن میں نے بھی دیکھا اورساری دنیا نے دیکھاکہ وہ نہیں ہے او رمدرسے ہیں اور جنرل صاحب آپ بھی اچھی طرح کان کھول کر سن لیں کہ آپ بھی نہیں ہوں گے اور یہ مدرسے موجود ہوں گے اور حضرت رحمة الله علیہ نے(حضرت رحمة الله علیہ تو کی عمر بڑی تھی، بیمار تھے، ویل چیئر پر تھے) یوں زور سے میز پر ہاتھ مارا اوراپنے رفقاء کرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کھڑے ہو جاؤ، اب مدرسے رہیں گے یا نہیں رہیں گے اس کا فیصلہ پاکستان کے گلی کوچوں میں ہو گا، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے روکتا ہے اور کیسے مدرسے بند کرتا ہے۔
سامنے جو جنرل بیٹھے ہوئے تھے ان میں ایک جنرل تھے جنرل معین الدین حیدر، وہ اس زمانے میں وزیرداخلہ تھے ، حضرت کا یہ رویہ اورحضرت کا یہ ردعمل دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور یوں گھوم کر حضرت کی کرسی کے پاس آئے اور یوں ہاتھ جوڑے، حضرت خدا کے واسطے آپ تشریف رکھیں، حضرت نے پرویز مشرف کی طرف اشارہ کیا کہ یہ ”غبی“ ہے مجھے اسی(80) سال ہو گئے پڑھاتے ہوئے ،میں مشکل سے مشکل ترین فن کو اپنے طلباء کو یوں چٹکیوں میں سمجھا دیتا ہوں، لیکن اتنی دیر سے میں اس کو سمجھار ہا ہوں او راس کی سمجھ میں نہیں آرہا ، اب اس کو ہم پاکستان کے گلی کوچوں میں سمجھائیں گے کہ مدرسہ کیا ہوتا ہے؟

میرے دوستو! یہ مدرسہ ہے الحمدلله ،وہ سب اکڑی ہوئی گردنیں دم توڑ گئیں اور آج مدرسہ عربیہ فاروقیہ خاران میں موجود ہے، بلوچستان کے چپے چپے پر مدرسہ موجود ہے،KPK کے چپے چپے پر مدرسہ موجود ہے اورپنجاب، سندھ،کشمیر، فاٹا اور آزاد قبائل ہرجگہ مدرسہ موجو دہے اور مدرسے کا فیض پورے عالم کے اندر جاری ہے۔

آپ سب حضرات یہاں بیٹھے ہیں او رگھنٹوں سے بیٹھے ہیں، آپ کسی دنیاوی تقریب میں اس اہتمام کے ساتھ کبھی شریک نہیں ہوسکتے، یہ قرآن کا اعجاز ہے ، یہ دین کا اعجاز ہے، یہ الله رب العزت کا ہم پر فضل اور کرم ہے کہ الله تعالیٰ نے ہمیں مدارس کے ساتھ جوڑا ہے۔

میرے دوستو! میں عرض کر رہا تھا کہ انگریز نے بھرپور سازش کی کہ مدرسے کو غیر اہم قرار دیا جائے، قرآن کی تعلیم کو غیر اہم قرار دیا جائے، دینی تعلیم کو غیراہم قرار دیا جائے، لیکن آپ یاد رکھیں، خوب یاد رکھیں، اگر ہم مسلمان ہیں اور الحمدلله ہم مسلمان ہیں، تو آپ یاد رکھیں کہ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے، مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے، جب قرآن مخلوق نہیں ہے تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اس کا مرتبہ کیا ہے؟ وہ بہت بلند وبالا ہے، اس کا مقام بہت بلند ہے، وہ جس کے سینے میں چلا جائے ، وہ جس کا جزو بدن بن جائے ، وہ جس کی زبان پر صبح شام جاری رہے۔

میرے دوستو! آپ اس کے مقام کا تصور بھی نہیں کرسکتے، یہ تو آپ کے سمجھانے کے لیے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اس کے ماں باپ کے سر پر ایسا ایسا تاج پہنا یا جائے گا:”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من قرء القرآن وعمل بما فیہ ألبس والداہ تاجاً یوم القیامة، ضوء ہ أحسن من ضوء الشمس في بیوت الدنیا لوکانت فیکم فما ظنکم بالذی عمل بھذا․“( سنن أبي داود، أبواب الوتر، باب في ثواب قراء ة القرآن، رقم:1455، المستدرک علی الصحیحین، کتاب فضائل القرآن، رقم:2086)

میرے دوستو! اس کامقام تو بہت اونچا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جو غزوات ہوئے ہیں، اس میں دوسرا غزوہ، غزوہ اُحد ہے، پہلا غزوہ بڑے غزوات میں غزوہ بدر ہے، دوسرا غزوہ، غزوہ اُحد ہے۔

غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے70 سردارمردار ہوئے، غزوہ بدر رمضان2ھ میں ہوا ہے اور غزوہ احد شوال3ھ میں ہوا، صرف ایک سال کا فرق ہے، اس غزوہ اُحد میں 70 صحابہ شہید ہوئے، آپ سوچیے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی کیا کیفیت ہو گی؟ وہ ایک لمبا قصہ ہے میں اس وقت صرف قرآن سے متعلق ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ 70 صحابہ شہید ہوگئے، آپ نے ارشاد فرمایا:کہ انہیں غسل نہیں دیا جائے گا، ان کو کفن نہیں پہنایا جائے گا ان کو اسی لباس میں اور اسی خون کے ساتھ، قبروں کے اندر دفن کیا جائے گا، چناں چہ جو حضرات مدینہ طیبہ تشریف لے گئے ہیں وہاں انہوں نے شہداء احد کے مقام پر ان حضرات صحابہ کی قبریں دیکھی ہوں گی، جب ان کو قبروں میں اتارا جارہا تھا آپ صلی الله علیہ وسلم سامنے موجود ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ایک ایک قبر کے اندر دو دو شہید صحابی اتارے جائیں، جب ان کو قبر میں اتارا جاتا تو اس وقت آپ سوال فرماتے کہ ان دونوں میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد ہے؟ چناں چہ جس کے بارے میں بتایا جاتا کہ اس کو قرآ ن زیادہ یاد تھا، آپ فرماتے کہ اس کو قبلے کی طرف آگے کرو :”عن جابر بن عبدالله رضي الله عنہما قال کان النبي صلی الله علیہ وسلم یجمع بین الرجلین من قتلی أحد في ثوب واحد ثم یقول أیھم أکثر أخذا للقرآن فإذا أشیرلہ إلی أحدھما قدّمہ في اللحد، وقال أنا شھید علی ھؤلاء یوم القیامة وأمر بدفنھم في دمائھم ولم یغسلوا ولم یصل علیھم․ (الجامع الصحیح للبخاري، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الشھید، رقم:1343)
وہ تو شہید ہے اس کا مقام تو بہت بلند ہے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ نہیں جس کی نسبت قرآن کے ساتھ زیادہ ہے قبر میں بھی اور آخرت میں بھی وہ آگے رہے گا، اس کو آگے کرو۔

میرے دوستو! جن بچوں نے قرآن کریم حفظ کیا ہے، جن کے ماں باپ کو یہ سعادت حاصل ہوئی، میری ان سے دست بستہ درخواست ہے وہ ان کو کبھی بھی حقیر نہ سمجھیں، ان کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ کریں، ان کو گھر اورمعاشرے کے اندر غیر اہم نہ سمجھیں، آپ کا اگر کوئی اثاثہ ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو یہی حافظ قرآن ہے، یہی حافظ قرآن ہے جو اپنے خاندان کے ایسے دس افراد جن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی، ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے گا:”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من قرء القرآن فاستظھرہ شفع في عشرة من أھل بیتہ قدوجبت لھم النار․“(مسند الإمام أحمد بن حنبل ،رقم الحدیث:1268)، وسنن الترمذي، کتاب فضائل القرآن، باب فضل قاریٴ القرآن، رقم:2905)

میرے دوستو! ان کا بہت اونچا مقام ہے، بہت بلند مقام ہے، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے اور مفسرین نے لکھا ہے کہ الله رب العزت نے جو یہ ارشاد فرمایا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون﴾ وہ صرف اس کلام الله کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ جو جو چیز اور جو جو اس کلام الله کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑے گا، الله تعالیٰ اس کی اسی طرح حفاظت فرمائیں گے۔

چناں چہ یہ مدرسہ قرآن کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس کی حفاظت الله فرمائے گا، اور وہ حضرات جو ان کی خدمت کر رہے ہیں، خواہ اساتذہ ہوں، فجر کی نماز کے بعد سے عشاء تک استاد ان بچوں کو قرآن حفظ کراتا ہے، پتہ نہیں آپ نے کبھی غور کیایا نہیں کیا؟ ابھی ناظم تعلیمات صاحب فرمارہے تھے کہ فلاں استاد کے پاس 32 طلباء ہیں، فلاں درس گاہ میں 33 طلباء ہیں، تو ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک کلاس ہے، یا دو کلاسیں ہیں، جس میں 32 طلباء ہیں، 33طلباء ہیں، ایسا نہیں ہے۔

دیکھیے سکول ہو یا مدرسہ، وہاں جو کلاس ہوتی ہے اس کلاس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کلاس میں جتنے بچے ہیں ان کا آج یہ سبق ہے، مثلاً اگر ایک بچہ چوتھی جماعت کے اندر ہے، تو اس کلاس کے 20 یا 25 جتنے طلباء ہیں سب کا سبق ایک ہے، اسی طرح مدرسے میں اگر ایک بچہ درجہ ثالثہ میں ہے، رابعہ میں ہے، ثانیہ میں ہے، اولیٰ میں ہے، وہاں نحو میر پڑھ رہا ہے، ہدایة النحو پڑھ رہا ہے، کافیہ پڑھ رہا ہے، کلاس کے اندر استاد آئیں گے تو کافیہ کا جو سبق ہے، وہ سب کا ایک سبق ہے، ایسا نہیں ہے کہ سب کا الگ الگ سبق ہو، لیکن آپ مجھے بتائیں کہ حفظ کی جو کلاس ہوتی ہے اس میں سب کا سبق ایک ہوتا ہے؟ سب کی سبقی ایک ہوتی ہے؟ سب کی منزل ایک ہوتی ہے ؟ نہیں، تو اس کا مطلب کیا ہوا؟ کہ یہ ایک استاد 33 کلاسوں کو پڑھاتا ہے، یہ ایک کلاس نہیں ہے، یہ33 کلاسیں ہیں، یہ 32 کلاسیں ہیں، جس میں ایک استاد پڑھاتا ہے اور فجر سے لے کر عشاء تک، آپ نے دنیا کے اندر کہیں کوئی ایسی درس گاہ کوئی ایسا سکول، کوئی ایسا کالج کوئی ایسی یونی ورسٹی نہیں دیکھی ہوگی جہاں فجر کی نماز کے بعد سے رات عشاء تک پڑھایا جارہا ہو، میں تو کہا کرتا ہوں کہ یہ استاد جس چٹائی پر بیٹھتا ہے اس چٹائی کے اوپر بیٹھ کر یہ بھی چٹائی کا حصہ بن جاتا ہے، تو الله رب العزت اس استاد کی بھی حفاظت فرماتاہے، مدرسے کی بھی حفاظت فرماتا ہے، وہ ماں باپ جنہوں نے فیصلہ کیا کہ آج کے اس خوف ناک دور میں ہم اپنے بچے کو حافظ قرآن بنائیں گے، میرے دوستو! وہ قابل صد مبارک بادہیں، وہ بہت عظیم لوگ ہیں، جنہوں نے یہ فیصلے کیے تھے کہ ہم اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنائیں گے۔ ہم اپنے بچے کو عالم دین بنائیں گے۔

میرے دوستو! الله تعالیٰ ان کی بھی حفاظت فرمائیں گے اور یہ جو ہمارا ملک ہے اس کو ختم کرنے، اس کو تباہ کرنے اس کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے،75 سال سے یہی تماشہ ہو رہا ہے، ہم خودآپس میں بیٹھ کے پورے ملک کے لوگ، کسی بھی صوبے میں چلے جائیں جو آپس کی گفت گو ہے وہ کیا ہے؟ کہ پاکستان کم زور ہو رہا ہے، پاکستان ٹوٹنے والا ہے پاکستان تباہ ہونے والا ہے اور میں آپ سے پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ وہ لوگ جو حکومتوں کے اوپر قابض ہوئے ہیں جو سازشوں کے ذریعے سے نامعلوم کیا کیا کرتوت کرتے ہیں، ان کی ان تمام سازشوں اور کرتوتوں کے باوجود اگر یہ پاکستان بچا ہوا ہے تو یہ انہی حافظ قرآن بچوں کی وجہ سے ہے، آپ کو سن کر خوشی ہو گی کہ صرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت گزشتہ سالانہ امتحان میں کامل الحفظ، کامل الحفظ کہتے ہیں اس طالب علم کو جس نے حفظ کے بعد گردان کی ہو، او رپھر وہ حفظ کے امتحان میں شریک ہوا ہو، کامل الحفظ طلباء کا جو امتحان ہوا وہ ننانوے ہزار(99000) کچھ سو طلباء کا تھا، تقریباً ایک لاکھ طلباء گزشتہ ایک سال میں حافظ قرآن بنے آپ سوچتے ہوں گے کہ ہم مدرسے کو چندہ دیتے ہیں، مدرسہ کیا کرتا ہے؟ تو مدرسہ یہ کرتا ہے کہ مدرسے نے پوری اُمّت مسلمہ کو صرف ایک سال میں اتنے حفاظ دیے، اب اگلا سال آرہا ہے تو اس میں ہمیں پوری امید ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ حافظ قرآن ہوں گے۔ ان شاء الله۔یہ یونہی نہیں ہو جاتا، اس کے لیے اساتذہ قربانیاں دیتے ہیں، تنگیاں او رمشکلات برداشت کرتے ہیں۔

میرے دوستو! گزارش ہے کہ ان بچوں کی قدر کریں،ان کا احترام کریں اور محبت سے ان کو قرآن کے ساتھ جوڑے رکھیں، ہم اپنے گھر میں ایسا ماحول بنائیں کہ بچے قرآن سے جڑے رہیں اور میرے دوستو! جب بات قرآن کی ہو رہی ہے تو یہ قرآن میرا اور آپ کا بھی ہے، یہ تو نہیں کہ جو حافظ ہے وہ قرآن پڑھے گا، ہم میں سے ہر شخص یہ طے کرے آج اس مبارک اجتماع میں کہ میں آئندہ کل سے کوئی دن میرا ایسا نہیں گزرے گا جس میں میں قرآن کی تلاوت نہ کروں، چاہے ایک رکوع تلاوت کرے، آپ ایک پارہ تلاوت نہیں کرسکتے کوئی بات نہیں، آدھا پارہ تلاوت نہیں کرسکتے کوئی بات نہیں، آپ ایک جزء ایک ربع، پاؤ تو تلاوت کرسکتے ہیں، طے کر لیں کہ میرا یہ دن شروع نہیں ہو گا جب تک میں ایک پاؤ قرآن کی تلاوت نہ کر لوں اور آپ سے میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ کل ہی سے پھر آپ دیکھنا کہ الله تعالیٰ کی برکتوں کا نزول کیسے ہوتا ہے، گھروں میں برکت آئے گی، مالوں میں برکت آئے گی، صحت میں برکت آئے گی، عزت میں اضافہ ہو گا، ہر طرف خیر ہی خیر ہوگی۔

سورہ یسٰین کی تلاوت کا روزانہ اہتمام کریں،رات کو سونے سے پہلے سورة الملک کی تلاوت کا اہتمام کریں،جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کا اہتمام کریں۔

میرے دوستو! ہم قرآن سے اپنے آپ کو جوڑیں گے تو الله تعالیٰ خوش ہوں گے، الله تعالیٰ راضی ہوں گے او رجب الله تعالیٰ خوش ہوں گے تو ہمارے درد دور ہوں گے، ہماری مشکلات ختم ہوں گی اور اگر خدانخواستہ پھر خدانخواستہ الله تعالیٰ ناراض ہوں گے تو پھر عذاب آئے گا اور یہ بھی یاد رکھیے، ہمارے حضرت والدماجد فرمایا کرتے تھے: کہ عذاب الہی کی ایک پہچان ہوتی ہے اور عذاب الہٰی کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ جب وہ آتا ہے تو لوگ اس کو عذاب نہیں سمجھتے۔ اس وقت ملک ہمارا کس طرح عذاب الہی کا شکار ہے۔

میرے دوستو! قرآن سے اپنے آپ کو جوڑیں، دین سے اپنے آپ کو جوڑیں، توبہ کا ہتمام کریں، استغفار کا اہتمام کریں، صدقات وخیرات کا اہتمام کریں۔

اور یاد رکھیے کہ صدقے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جب میرے پاس ایک لاکھ ہوں گے تو صدقہ کروں گا، نہیں آپ ایک روپے کا صدقہ کریں آپ پانچ، دس، پچاس روپے کا صدقہ کریں، آپ اور کوئی چیز صدقہ میں دیں، یہ صدقہ کرنا تمام بلاؤں کو دور کرتا ہے، تمام آفات، مصیبتوں کو دور کرتا ہے، برکتیں ہی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔

چناں چہ جب تک زندگی ہے ہمیں یہ کرنا ہے لیکن یہ جو آفات آتی ہیں اس میں توبہ کرنا، اس میں استغفار کرنا، اس میں صدقہ اور خیرات کرنا، یہ اصل علاج ہے، ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے، ہمارے ہاں کوئی آفت آتی ہے، کرونا آیا، تو توبہ، استغفار کا تو کوئی تذکرہ ہی نہیں، ہم کہتے ہیں ڈرنا نہیں ہے لڑنا ہے، بحییثت ایک مسلمان بحییثت ایک الله کے بندے کے ہماری سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے خالق اور مالک کی طرف رجوع ہوں، اپنے گھروں میں ، اپنی بیوی بچوں کو جمع کرکے روئیں الله کے سامنے، یا الله ہم سب توبہ کرتے ہیں، صدقہ اورخیرات کریں، دیکھیں کیسے مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔

میرے دوستو! آپ سب قابل صد مبارک باد ہیں،جامعہ عربیہ فاروقیہ خاران اس کے اساتذہ، طلباء ، صد مبارک باد کے مستحق ہیں، الله تعالیٰ اس ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات سے مالا مال فرمائے اور پورے خطے اورعلاقے میں اس کا فیض عام اور تام فرمائے اور اس کی خدمات جلیلہ کو الله تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
وما علینا إلا البلاغ المبین․