
لباس کا معمول مبارک
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ کریمہ لباس شریف میں وسعت اور ترکِ تکلف تھی۔ مطلب یہ ہے کہ جو پاتے زیب تن فرماتے اور تعیین کی تنگی اختیار نہ فرماتے اور کسی خاص قسم کی جستجو نہ فرماتے اور کسی حال میں عمدہ نفیس کی خواہش نہ فرماتے اور نہ ادنیٰ وحقیر کا تکلف فرماتے، جو کچھ موجود ومیسر ہوتا پہن لیتے اور جو لباس ضرورت کو پورا کردے اسی پر اکتفا فرماتے۔
اکثر حالتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس چادر اور ازار (یعنی تہہ بند) ہوتا، جو کچھ سخت اور موٹے کپڑے کا ہوتا اور کبھی پشمینہ بھی پہنا ہے۔
منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر شریف میں متعدد پیوند لگے ہوئے تھے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھا کرتے تھے اور فرماتے: میں بندہ ہی ہوں اور بندوں ہی جیسا لباس پہنتا ہوں۔ (شیخین نے روایت کیا ہے)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک موٴمن کی تمام خوبیوں میں لباس کا ستھرا رکھنا اور کم پر راضی ہونا پسندیدہ ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میلے اور گندے کپڑوں کو مکروہ اور ناپسند جانتے تھے۔ (مدارج النبوة)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تہہ بند کو سامنے کی جانب لٹکاتے اور عقب میں اونچا رکھتے۔ (مدارج النبوة)
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تکبر وغرور کی مذمت فرماتے تو صحابہ رضی اللہ عنہم عرض کرتے کہ یا رسول اللہ! آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتیاں عمدہ ہوں۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ، یُحِبُّ الْجَمَالَ) ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے“۔
ایک اور حدیث شریف میں ہے: (اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ یُحِبُّ اللَّطَافَةَ) ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ لطیف ہے اور لطافت کو پسند کرتا ہے“۔
چناں چہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفود کے آنے پر ان کے لیے تجمل فرماتے اور جمعہ وعیدین کے لیے بھی آرائش فرماتے اور مستقل جدا لباس محفوظ رکھتے تھے۔ (مدارج النبوة)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین لباس قمیص (کُرتا) تھی، اگر چہ تہہ بند اور چادر شریف بھی بکثرت زیب تن فرماتے تھے، لیکن قیص کا پہننا زیادہ پسند تھا۔ (شمائل ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرہن مبارک سوتی اور تنگ دامن وآستین والا ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص مبارک میں گھنڈیاں لگی ہوئی تھیں اور قمیص مبارک میں سینہ کے مقام پر گریبان تھا اور یہی قمیص کی سنت ہے۔ (مدارج النبوة)
ایک صحابی فرماتے ہیں کہ حضور eنے مجھے اس حال میں دیکھا کہ میرے جسم پر کم قیمت کے کپڑے تھے تو فرمایا کیا تیرے پاس از قسم مال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں! اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کے مال ودولت سے نوازا ہے۔ پھر فرمایا: خدا کی نعمت اور اس کی بخشش کو تمہارے جسم سے ظاہر ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ تونگری کی حالت کے مناسب کپڑے پہنو اور خدا تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرو۔
اور ایک الجھے ہوئے بالوں والے پریشان حال سے فرمایا کہ کیا شخص کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے سر کو تسکین دے۔ (یعنی بالوں کو کنگھا کرے) اور ایسے شخص کو دیکھا جس پر میلے اور غلیظ کپڑے تھے، فرمایا کہ یہ شخص کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے کپڑوں کو دھولے (یعنی صابن وغیرہ)۔ (مدارج النبوة)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفید لباس پہنے کو پسند فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ حسین ترین لباس سفید کپڑوں کا ہے، چاہیے کہ تم میں سے زندہ لوگ بھی پہنیں اور اپنے مُردوں کو بھی سفید کفن دیں۔ (مدارج النبوة، شمائل ترمذی)
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کالی کملی اوڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صبح کے وقت باہر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر ایک سیاہ بالوں کی چادر تھی۔ (شمائل ترمذی)
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔(مدارج النبوة)
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پشمینہ یعنی اونی کپڑے بھی پہنے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر چادر لپیٹاکرتے تھے۔ (مدارج النبوة)
چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں طیب والطف تھے، اس لیے اس کی علامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک میں ظاہر تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے لگنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میلے نہ ہوتے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس مبارک میں جُوں پڑتی تھی اور نہ کپڑوں پراور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر مکھی بیٹھتی تھی۔ (مدارج النبوة)
حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کے موزے پہنے ہیں اور ان پر مسح فرمایا ہے۔ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔(مدارج النبوة)
لباس میں سب سے بہترین طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جو مسنون ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے یا ترغیب دی اور خود اس پر مسلسل عمل فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ(سنت) لباس یہ ہے کہ کپاس کا بنا ہوا یا صوف کا بنا ہوا کوئی سا بھی ہو اور جو بھی لباس میسر آئے پہن لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنی چادریں، جبہ، قبا، قمیص، پاجامہ، تہہ بند، چادر (سادہ) موزہ، جوتا ہر چیز استعمال فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشان زدہ سیاہ کپڑا (سیاہ دھاری دار) اور سیاہ کپڑا بھی پہنا ہے اور سادہ کپڑا بھی پہنا ہے۔ سیاہ لباس اور سبز ریشم کی آستین والا لبادہ بھی پہنا ہے۔ (زاد المعاد)
پاجامہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پاجامہ بھی خریدا ہے اور ظاہر ہے کہ پہننے ہی کے لیے خریدا ہو گا۔ اوراصحاب کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے پہنا بھی کرتے تھے۔(زاد المعاد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح روایات میں ہے کہ انہوں نے ایک پرانا کمبل اور موٹے سوت کی ایک چادر نکالی اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کپڑوں میں رحلت فرمائی۔ (زاد المعاد)
قمیص مبارک
ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے دمیاطی سے نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کُرتا (قمیص) سوت کا بنا ہوا تھا، جو زیادہ لمبا نہ تھا اور اس کی آستین بھی زیادہ لمبی نہ تھی۔ بیجوری رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آپ e کے پاس صرف ایک ہی کُرتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول صبح کے کھانے میں سے شام کے لیے بچا کر رکھنے کا نہ تھا۔ نہ شام کے کھانے میں سے صبح کے لیے بچانے کا تھا۔ اور کوئی کپڑا، کرتا، چادر یا لنگی یا جوتا دو عدد نہ تھے۔ مناوی نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کُرتہ (قمیص) زیادہ لمبا نہ ہوتا تھا، نہ اس کی آستین لمبی ہوتی تھی۔ دوسری حدیثوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتا ٹخنوں سے اُونچا ہوتا تھا۔ (علامہ شامی نے لکھا ہے کہ نصف پنڈلی تک ہونا چاہیے) (شمائل ترمذی، خصائل نبوی)
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کُرتے کی آستین پہنچے تک ہوتی تھی۔ (شمائل ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قمیص (کُرتے) کی آستین نہ اتنی تنگ رکھتے اور نہ بہت کشادہ بلکہ درمیانی ہوتی اور آستین ہاتھ کے گٹے تک رکھتے اور چوغہ وغیرہ نیچے تک، مگر انگلیوں سے متجاوز نہ ہوتی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کا کرتا (قمیص) وطن کے کرتے سے دامن اور آستین میں کسی قدر چھوٹا ہوتا تھا۔ (زاد المعاد)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کا گریبان سینہ پر ہوتا تھا، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کرتے کا گریبان کھول لیا کرتے اور سینہ اطہر صاف نظر آتا اور اسی حالت میں نماز پڑھ لیتے۔ (شمائل ترمذی)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قمیص زیب تن فرماتے تو پہلے سیدھا ہا تھ سیدھی آستین میں ڈالتے اور پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں۔ (زاد المعاد)
ایاس بن جعفر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک رومال تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے تو اسی سے پونچھ لیتے۔ (ابن سعد)
عمامہ
عمامہ کا باندھنا سنت ومستحب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ باندھنے کا حکم بھی نقل کیا گیا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے کہ عمامہ باندھا کرو، اس سے حلم میں بڑھ جاؤ گے۔ (فتح الباری) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کیا عمامہ باندھنا سنت ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں: سنت ہے۔ (عینی)
مسلم شریف اور نسائی شریف میں ہے کہ عمرو بن حُریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ منظر گویا اس وقت میرے سامنے ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے، سیاہ عمامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر تھا اور اس کا شملہ دونوں شانوں کے درمیان تھا۔ (خصائل نبوی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تھے تو (شملہ) دونوں شانوں کے درمیان چھوڑ لیتے تھے۔ اور کبھی بے شملہ عمامہ باندھتے تھے۔ (نشر الطیب، شمائل ترمذی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کا شملہ ایک بالشت کے قریب چھوڑتے، شملہ کی مقدار ایک ہاتھ سے زیادہ بھی ثابت ہے، عمامہ تقریبا سات گز کا ہوتا تھا۔ (خصائل نبوی) صافہ کے نیچے ٹوپی رکھنا سنت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفید کپڑے کی چِپٹی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ (السراج المنیر)
آپe نے سوزنی نما سلے ہوئے کپڑے کی گاڑھی ٹوپی بھی اوڑھی ہے۔ (السراج المنیر)
تہہ بند اور پاجامہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ لنگی باندھنے کی تھی۔ پاجامہ پہننا مختلف فیہ ہے۔ بعض احادیث سے اس کا پہننا ثابت ہے اور اپنے اصحاب کو پہنے دیکھا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ پاجامہ پہنتے ہیں؟ تو فرمایا کہ پہنتا ہوں۔ مجھے بدن کے ڈھانکنے کا حکم ہے، اس سے زیادہ پردہ اور چیزوں میں نہیں ہے۔(خصائل نبوی)(زاد المعاد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہہ بند چار ہاتھ اور ایک بالشت لمبی تھی اور تین ہاتھ ایک بالشت چوڑی تھی۔ (شمائل ترمذی)
بعض احادیث میں ہے کہ چادر چار ہاتھ لمبی اور اڑھائی ہاتھ چوڑی اور تہہ بند چار ہاتھ اور ایک بالشت لمبی اور دو ہاتھ چوڑی، تہہ بند ہمیشہ نصف پنڈلی سے اونچا رکھتے، تہہ بند کا اگلا حصہ پچھلے حصہ سے قدرے نیچارہتا۔ (خصائل نبوی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کی لنگی آدھی پنڈلی تک ہونا چاہیے اور اس کے نیچے ٹخنوں تک بھی کچھ مضائقہ نہیں، لیکن ٹخنوں سے نیچے جتنے حصہ پر لنگی لٹکے گی وہ آگ میں جلے گا اور جو شخص متکبرانہ کپڑے کو لٹکائے گا قیامت میں حق تعالی شانہ اس کی طرف نظر نہیں کریں گے۔ (ابوداود، ابن ماجہ، زاد المعاد)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یمنی منقش چادر کپڑوں میں زیادہ پسندیدہ تھی۔ (شمائل ترمذی)
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم چادر کو اس طرح اوڑھتے کہ چادر کو سیدھی بغل سے نکال کر اُلٹے کا ندھے پر ڈال لیتے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا لباس پہنتے تو جمعہ کے دن پہنتے۔ سفید لباس تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھا، مگر رنگین لباس میں سبز رنگ کالباس طبیعت پاک کو بہت زیادہ پسند تھا۔ (زاد المعاد)
خالص وگہرا سرخ رنگ طبیعت پاک کو بہت زیادہ نا پسند تھا۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیالباس زیب تن فرماتے تو کپڑے کا نام لے کر، خدا تعالیٰ کا شکران الفاظ میں ادا فرماتے: اللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا کَسَوْتَنِیْہِ، أَسْأَلُکَ خَیْرَہُ وَخَیْرَ مَا صُنعَ لَہُ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنعَ لَہُ․
ترجمہ: ”اے اللہ! تیرے ہی لیے سب تعریف ہے جیسا کہ تو نے یہ کپڑا مجھے پہنایا، میں تجھ سے اس کی بھلائی کا اور اس چیز کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اور میں تجھ سے اس کی برائی اور اس چیز کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے“۔
نیز یہ دعا بھی فرماتے: الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی کَسَانِی مَا اُوَارِیْ بِہِ عَوْرَتِی، وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِی حَیَاتِیْ․ (زاد المعاد)
ترجمہ: ”سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے، جس نے مجھے کپڑا پہنایا، جس سے میں اپنی شرم کی چیز چھپاتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعہ خوب صورتی حاصل کرتا ہوں“۔
اور جو کپڑا پرانا ہو جاتا اسے خیرات کر دیتے۔ (زاد المعاد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات سوتی لباس زیب تن فرماتے، کبھی کبھی صوف اور کتان کا لباس بھی پہنا ہے۔ (زاد المعاد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھنے میں بہت اہتمام فرماتے تھے کہ بدن ظاہر نہ ہو، غالباً لیٹنے کی حالت میں یہ معمول تھا۔
ابور مثہکہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسبز چادریں اوڑھے ہوئے دیکھا ہے۔ (شمائل ترندی)
نعلین شریف
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چپل نما یا کھڑاؤں نما جوتا پہنا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ چرمی موزے بھی پہنے اور ان پر وضو میں مسح فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک میں انگلیوں میں پہننے کے دو دو تسمے تھے۔ (ایک انگوٹھے اور سبابہ کے درمیان میں اور ایک وسطی اور اس کے پاس والی کے درمیان میں) اور ایک پشت پر کا تسمہ بھی دو ہرا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نعلین پاک ایک بالشت دو انگل لمبا تھا اورسات انگل چوڑا تھا اور دونوں تسموں کے درمیان نیچے سے دو انگل کا فاصلہ تھا۔
بالوں سے صاف کٹے ہوئے چمڑے کے نعلین پہنتے تھے اور وضو کر کے ان میں پاؤں بھی رکھ لیتے تھے۔ روایت کیا اس کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اور آپ eنعلین میں نماز بھی پڑھ لیتے تھے (کیوں کہ وہ پاک ہوتے تھے اور ایسی بناوٹ کے ہوتے تھے جن میں انگلیاں زمین سے لگ جاتی تھیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر بالوں کے چمڑے کا جوتا بھی پہنا ہے۔(مشکوة شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص تم میں سے جوتا پہنے تو دا ہنی طرف سے ابتدا کرنا چاہیے اور جب نکالے تو بائیں پیر سے پہلے نکالے۔ دایاں پاؤں جوتا پہننے میں مقدم ہونا چاہیے اور نکالنے میں مؤخر۔ (شامل ترمذی) جوتا کبھی کھڑے ہو کر پہنتے اور کبھی بیٹھ کر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا جوتا اٹھاتے تو الٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے پاس والی انگلی سے اُٹھاتے۔ (شمائل ترمذی)
عادات برگزیدہ خوش بو کے بارے میں
آپ خوش بو کی چیز اور خوش بو کو بہت پسند فرماتے تھے اور کثرت سے اس کا استعمال فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔(نشر الطیب) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخرشب میں بھی خوش بو لگایا کرتے تھے۔
سونے سے بیدار ہوتے تو قضائے حاجت سے فراغت کے بعد وضو کرتے اور پھر خوش بو لباس پر لگاتے۔
خدمت اقدس میں خوش بو اگر ہدیتہ پیش کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ضرور قبول فرماتے، خوش بو کی چیز واپس کرنے کو نا پسند فرماتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
ریحان کی خوش بو کو بہت پسند فرماتے، اس کے رد کرنے کو منع فرماتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
مہندی کے پھول کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بہت محبوب رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مشک اور عود کی خوش بو کو تمام خوشبوؤں سے زیادہ محبوب رکھتے۔ (زاد المعاد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش بو سر مبارک پر بھی لگایا کرتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں نہ لوٹانا چاہئیں: تکیہ، تیل خوش بو اور دودھ۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردانہ خوش بو وہ ہے جس کی خوش بو پھیلتی ہو اور رنگ غیر محسوس ہو، جیسے گلاب اور کیوڑہ۔ اور زنانہ خوش بو وہ ہے جس کا رنگ غالب ہو اور خوش بو مغلوب ہو، جیسے حنا، زعفران۔ (شمائل ترمذی)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سکہ (عطردان یا عطر کا مرکب) تھا، اس میں سے خوش بو استعمال فرماتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
سرمہ لگانا
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سرمہ دانی تھی، جس سے آپ e سوتے وقت ہر آنکھ میں تین مرتبہ سُرمہ لگاتے تھے۔ (ابن سعد، شمائل ترمذی)
عمران بن ابی انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داہنی آنکھ میں تین مرتبہ سرمہ لگاتے اور بائیں میں دو مرتبہ۔ (ابن سعد)
ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اثمد استعمال کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ نظر کو تیز کرتا ہے، بال اُگاتا ہے اور آنکھ روشن کرنے والی چیزوں میں سے بہترین ہے۔ (شمائل ترمذی)
سَر کے موئے مبارک
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بالوں کی لمبائی کانوں کے درمیان تک اور دوسری روایت میں کانوں تک اور ایک تیسری روایت میں کانوں کی لَو تک تھی، ان کے علاوہ کندھوں تک یا کندھوں کے قریب تک کی روایتیں بھی ہیں۔ (شمائل ترمذی) ان سب روایتوں میں باہمی مطابقت اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تیل لگاتے یا کنگھی فرماتے تو بال دراز ہو جاتے، ورنہ اس کے برعکس رہتے یا پھر تر شوانے سے پہلے اور بعد میں ان میں اختصار و طول ہوتا رہتا تھا۔
مواہب لدنیہ میں اور اس کے موافق ”مجمع البحار“ میں یہ مذکور ہے کہ جب بالوں کو ترشوانے میں طویل وقفہ ہو جاتا تو بال لمبے ہو جاتے اور جب تر شواتے تو چھوٹے ہو جاتے تھے۔ اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالوں کو تر شواتے تھے، منڈواتے نہ تھے، لیکن حلق (منڈوانے) کے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ آپ حج وعمرہ کے دو موقعوں کے سوا بال نہیں منڈواتے تھے۔ واللہ اعلم۔ (مدارج النبوة)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بالوں میں کثرت سے کنگھی کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کسی کے پراگندہ اور بکھرے ہوئے بال دیکھتے تو کراہت سے فرماتے کہ تم میں سے کسی کو وہ نظر آیا ہے؟ یہ اشارہ شیطان کی طرف ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ بننے سنورنے اور لمبے بالوں سے بھی کراہت فرماتے، اعتدال اور میانہ روی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھی۔ (مدارج النبوة)
عادات پسندیدہ کنگھا کرنے اور تیل لگانے میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت مسواک کرتے، وضو کرتے اور سر کے بالوں اور داڑھی مبارک میں کنگھا کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہوتے یا حضر میں، ہمیشہ بوقت خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے سات چیزیں رکھی رہتیں۔ تیل کی شیشی، کنگھا، سُرمہ دانی، قینچی، مسواک، آئینہ اور ایک لکڑی کی چھوٹی سی سیخ، جوسر کے کھجانے میں کام آتی تھی۔ (زاد المعاد)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے داڑھی مبارک اور سر مبارک میں تیل لگاتے اور پھر کنگھا کرتے۔ ابن جریج سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھی دانت کا کنگھا تھا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنگھا کرتے تھے۔ (ابن سعد)
خالد بن معدان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں کنگھا، آئینہ، تیل، مسواک اور سرمہ لے جاتے تھے۔ (ابن سعد)
انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت سر میں تیل ڈالتے اور داڑھی پانی سے صاف کرتے تھے۔ (ابن سعد)
اعتدال تزئین
حضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں اپنے سر کے بالوں کو بے مانگ نکالے جمع کر لیا کرتے تھے، پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانگ نکالنے لگے تھے۔ (شمائل ترمذی، نشر الطیب) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روزناغہ کر کے کنگھا کیا کرتے تھے۔(نشر الطیب)اور ایک روایت میں حضرت حمید بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ گاہے گا ہے کنگھی کرتے تھے۔ (شمائل ترمذی)
حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نہ بالکل پیچیدہ اور نہ بالکل کھلے ہوئے تھے، بلکہ کچھ گھنگھریالا پن لیے ہوئے تھے، جو کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ (شمائل ترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وضو کرنے میں، کنگھی کرنے میں، جوتا پہننے میں دا ہنی طرف کو مقدم رکھتے تھے۔ (شمائل ترمذی) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانی لگاکر بھی داڑھی مبارک میں کنگھا کیا کرتے تھے۔ آپ جب آئینہ میں چہرہٴ انور کو دیکھتے تو یہ الفاظ زبان مبارک پر ہوتے: ”اللّٰہُمَّ حَسَّنتَ خَلْقِی فَحَسِّنْ خُلْقِی، وَأَوْسِعْ عَلَیَّ فِی رِزْقِی“ ترجمہ: میرے اللہ! تو نے جس طرح میری تخلیق کو بہتر بنایا ایسے ہی میرے خلق (یعنی عادت) کو بہتر بنا اور میرے رزق میں وسعت دے۔ (شمائل ترمذی، زاد المعاد)
سر میں تیل کا استعمال
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر میں تیل لگانے کا قصد فرماتے تو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں تیل رکھتے اور پہلے ابروؤں میں تیل لگاتے، پھر آنکھوں پر، پھر سر میں تیل لگاتے، اسی طرح جب داڑھی میں تیل لگاتے تو پہلے آنکھوں پر لگاتے، پھر داڑھی میں تیل لگاتے۔ (زاد المعاد)
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر مبارک میں اکثر تیل کا استعمال فرماتے تھے اور اپنی داڑھی میں اکثر کنگھی کیا کرتے تھے اور اپنے سر مبارک پر ایک کپڑا ڈال لیا کرتے تھے، جو تیل کے کثرت استعمال سے ایسا ہوتا تھا، جیسے تیلی کا کپڑا ہو۔ (شمائل ترمذی، زاد المعاد)
داڑھی مبارک میں تیل لگاتے تو داڑھی کے اس حصہ سے شروع فرماتے جو گردن سے ملا ہوا ہے۔ سر میں تیل لگاتے تو پہلے پیشانی کے رخ سے شروع فرماتے۔ (زاد المعاد)
ریش مبارک
سردار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک اتنی گہری اور گنجان تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی۔ (شمائل ترمذی)
مدارج النبوة میں مذکور ہے کہ کتاب ”الشفا“ مصنفہ قاضی عیاض میں کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کے بال اس کثرت سے تھے کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک بھر گیا تھا۔
مذہب حنفی میں داڑھی کی حد ایک قبضہ (مٹھی) ہے، یعنی اس سے کم نہ ہو۔ (مدارج النبوة)
موئے بغل
بعض احادیث میں ینتف الابط بھی آیا ہے یعنی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بغل کے بال اکھیڑ ڈالا کرتے تھے۔ واللہ اعلم۔ (مدارج النبوة)
موئے زیر ناف
موئے زیر ناف صاف کرنے کے بارے میں بعض احادیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مونڈتے تھے اور بعض میں آیا ہے کہ نورہ استعمال فرماتے تھے۔ واللہ اعلم (مدارج النبوة)
ناخن کٹوانا
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بعض روایات کے مطابق جمعہ کے دن اور بعض روایات میں جمعرات کے دن ناخن ہائے مبارک ترشوانے کا تھا۔
سر کے بالوں کے متعلق
سر منڈا نے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ یا تو سارا سر مُنڈواتے یا سارے بال رہنے دیتے اور ایسا نہ کرتے کہ کچھ حصہ منڈواتے اور کچھ حصہ رہنے دیتے۔ (زاد المعاد)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مونچھیں تراشتے تھے۔ (زاد المعاد)
متعدد احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی مختلف الفاظ سے وارد ہوا ہے، جس میں داڑھی کے بڑھانے کا حکم ہے اور مونچھوں کے کاٹنے میں مبالغہ کرنے کی تاکید ہے۔ اکثر علماء کی تحقیق یہ ہے کہ مونچھوں کا کترنا سنت ہے، لیکن کتروانے میں ایسا مبالغہ ہو کہ مونڈنے کے قریب ہو جائے۔ (خصائل نبوی )
صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس دن رات نہ گزرنے پائیں کہ تم مونچھیں کٹواؤ، ناخن کٹواؤ۔
صحیحین میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں تر شواؤ۔ (زاد المعاد)
جو شخص بال رکھے اس کو چاہیے کہ ان کو دھو لیا کرے اور صاف رکھے، روزانہ سر اور داڑھی میں کنگھا کرنے کی نسبت بہتر یہ ہے کہ ایک آدھ دن بیچ میں ناغہ کر لیا کرے۔ (ابوداود، زاد المعاد،مشکوٰة)
داڑھی کے سفید بالوں کو مہندی سے خضاب کرنے کی اجازت ہے، البتہ سیاہ خضاب کی ممانعت ہے کہ مکروہ ہے۔ (بہشتی گوہر، خصائل نبوی)
بال، داڑھی اور مونچھوں کے متعلق سنتیں
سنت: (ایک مشت ہو جانے کے بعد) داڑھی کے دائیں بائیں جانب سے بڑھے ہوئے بال لینا، تا کہ خوب صورت ہو جائے داڑھی کوٹھوڑی کے نیچے ایک مٹھی سے ہرگز کم نہ ہونا چاہیے۔ داڑھی منڈوانا یا کٹوانا نا جائز ہے۔ (خصائل نبوی) مونچھوں کو کتر وانا اور کتروانے میں مبالغہ کرنا چاہیے۔ (ترمذی)
حدِّ شرع میں رہ کر خط بنوانا، سر اور داڑھی کے بالوں کو درست کر کے تیل ڈالنا چاہیے۔ (موطا امام مالک)
سر پر یا تو سارے سر کے بال رکھے یا بالکل منڈوا دے، صرف ایک حصہ پر بال رکھنا حرام ہے۔ سر پر سنت کے مطابق پٹے رکھنا چاہیے۔ (مشکوٰة شریف)
زیر ناف، بغل، ناک کے بال لینا چاہییں۔ (بخاری مسلم)
نوٹ: چالیس روز گزر جائیں اور صفائی نہ کرے، تو گنہگار ہوتا ہے، داڑھی کو مہندی کا خضاب کرنا یا سفید رہنے دینا دونوں باتیں جائز ہیں۔ عورتوں کو ناخنوں پر مہندی لگانا چاہیے۔ (ابو داوٴد)
نوٹ: لیکن نیل پالش اگر لگائے تو وضو وغسل کے لیے اس کو صاف کر لے ورنہ وضو وغسل نہ ہوگا۔ (بہشتی زیور)