معاشرے میں صلہ رحمی کی اہمیت وضرورت

idara letterhead universal2c

معاشرے میں صلہ رحمی کی اہمیت وضرورت

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق واتحاد سے رہنا، دکھ، درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ وخیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگ دست اور کم زور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے، صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ، پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ، یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں، اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے، جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہلاتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔ قر آن پاک میں ارشاد ہے، ترجمہ: قرابت والے کو مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو، یہ بات ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کام یاب ہوں گے۔ (سورہ روم آیت 38) ترجمہ: نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔( النساء: 1) علا وہ ازیں اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں: ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرو گے، لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے، نماز کو قائم کرو گے اور زکوٰة دیتے رہو گے۔(البقرة: 83) حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاطع رحم جنت میں داخل نہ ہو گا“۔ (رواہ البخاری، 5984) رشتہ ناطہ توڑ دینا یا رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بے حد مبغوض ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن رحم (جو رشتہ داری اور تعلق کی بنیاد ہے) عرش ِالٰہی پکڑ کر کہے گا کہ جس نے مجھے دنیا میں جوڑے رکھا، آج اللہ تعالی بھی اسے جوڑے گا (یعنی اسے انعام واکرام عطا کرے گا) اور جس نے مجھے(دنیا میں) کاٹا اسے آج اللہ بھی کاٹ کر رکھ دے گا، یعنی سزا دے گا۔ (رواہ البخاری5989) احادیث سے ثابت ہے کہ دنیا میں دو گناہ ایسے ہیں جن کی آخرت کی سزا کے ساتھ دنیا میں بھی سزا ملے گی، ایک ظلم اور دوسرے قطع رحمی۔ (ابن ماجہ، 4211) صلہ رحمی کرنے والے کو دنیا وآخرت دونوں میں بھلائیاں ملتی ہیں، صلہ رحمی دخول جنت کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نیکی ثواب میں صلہ رحمی سے زیادہ نہیں ہے اور نہ ہی سرکشی اور قطع رحمی کے سوا کوئی گناہ ایسا ہے کہ اللہ اس کے کرنے والے کو دنیا میں جلد سزا دے اور اس کے بعد آخرت کا عذاب بھی ہوگا “۔ (رواہ الترمذی، 2511) ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول، میں نے ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، کیا میری مغفرت ہو سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تیری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اور خالہ ؟ اس نے کہا وہ زندہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس ان سے نیکی کر“۔ (رواہ الترمذی، 1904) اس سے معلوم ہوا کہ بڑے گناہ کا صدور ہو جائے تو بڑی نیکیاں ان کے مٹانے کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور گناہ کے بوجھ میں دبے ہوئے شخص کو صلہ رحمی کے ذریعے مغفرت کی امید دلائی گئی، ماں کی خدمت کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل جائے تو خالہ سے حسن سلوک بھی مغفرت کا ایک دروازہ ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: ”مسکین کو خیرات دینا صدقہ ہے اور رشتہ دار کو دینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی“۔ (سنن النسائی، ابن ماجہ و الترمذی، حدیث حسن) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ ان کی مشرکہ والدہ ان سے ملنے آئیں اور وہ ان سے کچھ مال چاہتی تھیں، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا میں ان سے صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ (رواہ البخاری، 5978؛ سنن ابی داؤد، احمد) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے تو اس کی عمر میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اس کا مال کثیر اور اس کے اہل میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”صلہ رحمی کرو اگرچہ سلام کے ساتھ ہو“۔ (مجمع الزوائد 152-8) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تین قسم کے لوگ اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوں گے، صلہ رحمی کرنے والا، اس کی عمر بھی لمبی کر دی جاتی ہے اور رزق کشادہ کر دیا جاتا ہے،وہ عورت کہ جس کا شوہر یتیم بچے چھوڑ کر مر جائے، پھر وہ ان کی پرورش کرتے کرتے انہیں مال داری تک پہنچا دے یا وہ مر جائیں، وہ شخص جو یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلائے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین صفات ایسی ہیں وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ اس سے آسان حساب لے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے پوچھا: کن (صفات والوں) کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے اسے عطا کر، جو تجھ پر ظلم کرے اسے معاف کر اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے، تو اس سے جوڑ، صحابی نے پوچھا اگر میں ایسا کرو تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ سے آسان حساب لیا جائے گا اور تجھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے گا“۔ (مستدرک علی صحیحین، 3842) حضرت عمروبن شعیب  اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے کچھ قریبی رشتہ دار ہیں، جو میرے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں، میں معاف کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ میں ان سے حسنِ سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بد خوئی کرتے ہیں، کیا میں انہیں اس کا بدلہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تب تو تم سب ایک سے ہو جاؤ گے، لیکن فضیلت حاصل کر اور صلہ رحمی کر، اللہ کی جانب سے تیرا ہمیشہ مدد گار مقرر رہے گا جب تک تو اسی حالت پر رہے گا“ (رواہ مسلم، 2558)۔ صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے، ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے، غمی خوشی میں شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: یہ نافرمان وہ لوگ ہیں جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (البقرة، 2: 27) اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا وآخرت میں نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غریب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھیں۔ اپنے دوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرنے لگیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں صلہ رحمی کا صحیح مفہوم سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اسی میں اتفاق واتحاد ہے اور دنیا وآخرت کی حقیقی کام یابی ہے۔

اسلامی زندگی سے متعلق