مسجد، مرکزِ اسلام اور سرچشمہٴ دین

idara letterhead universal2c

مسجد، مرکزِ اسلام اور سرچشمہٴ دین

مولانا ابوبکر حنفی شیخو پوری

مسجد کی مرکزیت

اہل اسلام کی عبادت گاہ کو مسجد کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقدس ومتبرک مقام ہے جس کا شمار دین اسلام کے شعائر میں ہوتا ہے۔ مسجد کے قیام کا مقصد صرف نماز نہیں ہوتا، بلکہ یہ دین اسلام کے لیے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس سے حفاظتِ دین اور اقامتِ دین کا عظیم فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ چناں چہ سیرت نبوی کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عہدِ رسالت میں مسجد نبوی کو جو مرکزیت حاصل تھی، وہ کسی اور مقام کو حاصل نہیں تھی۔ جہاد کے لیے چندہ اور لشکروں کی روانگی مسجد سے ہی ہوتی تھی۔ یہیں مقدمات کی سماعت خود سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اور ان کے متعلق فیصلے صادر فرماتے تھے۔ تعلیم کے لیے مسجد کا ”صفہ“ نامی چبوترا مختص تھا، جس میں چند فقراء صحابہ مستقلاً قیام پذیر رہ کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سن کر یاد کرتے تھے۔ تزکیہ اور تربیت کے لیے ذکر کے حلقے مسجد میں قائم ہوتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر قرآن کریم میں حکم دیا گیا کہ صبح وشام خدا کا ذکر کرنے والوں کے ساتھ آپ بھی بیٹھا کیجیے۔ معاشرتی اصلاح کے لیے جمعہ کے خطبہ میں زریں اصولوں سے عوامی آگاہی ہوتی تھی۔ زندگی میں مختلف مواقع پر پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے یہ مسجد دار الافتاء کا درجہ رکھتی تھی، جس میں حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی الہٰی کی روشنی میں لوگوں کی دینی راہ نمائی فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ ملاقات کے لیے آنے والے وفود سے ملاقات، غیر ملکی سفراء سے بات چیت، کفار سے معاہدے اور تمام تر سیاسی امور اسی خانہ خدا میں طے کیے جاتے تھے۔

مسجد کے حقوق وآداب

مسجد کی اہمیت اور تقدس کے پیش نظر ہر شخص پر اس کے حقوق کی ادائیگی اور آدب کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن وسنت کے مطالعہ سے مسجد کے چار حقوق اور آداب معلوم ہوتے ہیں۔

(1) مرد مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپس میں تعلق بڑھے گا اور ایک دوسرے کی خیر وعافیت معلوم ہوتی رہے گی۔

(2) اگر مسجد آلودہ ہو جائے تو جھاڑو وغیرہ سے اس کی صفائی کر دینی چاہیے۔

(3) مسجد کی تعظیم کی جائے۔ مسجد کی تعظیم میں یہ داخل ہے کہ اس میں دنیا کی باتیں نہ کرے، معدے میں بدبو پیدا کرنے والی چیزیں، مثلاً پیاز لہسن وغیرہ کھا کر یا حقہ سگریٹ وغیرہ پی کر نہ آئے اور اس کو گزرگاہ نہ بنائے۔ اس طرح کاروبار کی تشہیر بھی مسجد میں نہ کی جائے۔

(4) خطبہ جمعہ، نماز پنجگانہ اور دینی تقریبات کے موقع پر خوش بو، استعمال کی جائے۔ لیکن خوش بو اتنی تیز نہ ہو جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔

مسجد کی تعمیر

جہاں مسجد کی ضرورت ہو، مثلاً آبادی میں کوئی مسجد نہیں اور اہل علاقہ کو نماز پڑھنے کے لیے دور جانا پڑتا ہے یا مجبوراً گھروں میں لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں، تو وہاں مسجد کی تعمیر کی جائے۔ خود مسجد بنائے یا اس کی تعمیر میں مالی تعاون کر دے۔ مکمل مسجد بنوائے یا اس کا کوئی حصہ بنوا دے۔ اگر مسجد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے تو ٹوٹے ہوئے حصے کی مرمت کر دے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں حلال مال لگائے۔ مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا بڑی فضیلت والا عمل ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی اور ان کے موٴمن ہونے کی گواہی دی ہے۔ چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں“۔ (التوبہ) حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائے، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص عبادت کے لیے حلال مال میں سے کوئی عمارت (مسجد) بنائے اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں موتی اور یا قوت کا گھر بنائے گا۔

مسجد آباد کرنا

مسجد کو ذکر دعبادت تسبیح وتلاوت اور نماز کے ذریعے آباد کرنا اسلام کا اہم ترین حکم ہے۔ مسجد کی آبادی پر اللہ تعالی نے گھروں کی آبادی کی بشارت دی ہے۔ لہٰذا یہ ضروری امر ہے کہ مسجد میں کثرت سے حاضری دی جائے۔ جو شخص مسجد میں زیادہ وقت گزارتا ہے، اس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ ”اس کے ایمان دار ہونے کی گواہی دے دو“۔ ایک حدیث میں ہے ”جو شخص رات کی تاریکی میں مسجد کی طرف چلے، اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا“۔ اسی طرح قیامت کے دن کی سختی میں یہ عمل عرش الہٰی کا سایہ فراہم کرے گا، چناں چہ ارشاد نبوی ہے: ”اللہ تعالی قیامت کے دن سات آدمیوں کو اپنے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا“، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہوا ہو۔ مسجد کی طرف اٹھنے والے قدم بھی اللہ کو بہت محبوب ہیں۔ فرمانِ نبوی ہے: ”جو شخص جماعت کی نماز کے لیے مسجد کی طرف چلے، اس کا ہر قدم ایک گناہ کو مٹاتا ہے اور ایک نیکی لکھتا ہے۔ آتے وقت بھی اور جاتے وقت بھی“۔ ایک اور حدیث میں ہے: ”جو شخص مسجد کی طرف جائے اور اس کا ارادہ صرف یہ ہو کہ کوئی اچھی بات سیکھے یا سکھائے، اس کو حج کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا“۔

مسجد میں ممنوع امور

حدیثِ نبوی کی رو سے آٹھ ایسے امور معلوم ہوتے ہیں جو مسجد میں مناسب نہیں۔ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں یہ کام منع ہیں:
(1) اس کو راستہ بنانا۔

(2) اس میں ہتھیار سوتنا، کمان کھینچنا اور تیروں کو بکھیرنا۔

(3) اس میں سے کچا گوشت لے کر گزرنا۔

(4) اس میں حدود وقصاص نافذ کرنا۔

(5) اس کو بازار بنانا (یعنی خرید وفروخت کرنا)۔

(6) اس میں دنیا کی باتیں کرنا۔ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنے والوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید بیان فرمائی کہ اللہ کو ان کی کوئی پروا نہیں۔

(7) پیاز، لہسن یا اس طرح کی منھ میں بدبو پیدا کرنے والی چیز کھا کر آنا۔

(8) اس میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنا۔ ایسے شخص کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے یوں کہو: ”خدا تجھے تیری چیز نہ پہنچائے“۔

اسلامی زندگی سے متعلق