توبہ کی ضرورت اور اہمیت

idara letterhead universal2c

توبہ کی ضرورت اور اہمیت

حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی صاحب 

رجوع الی اللہ اور توبہ کی اہمیت وفضیلت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جلّ شانہ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں (میرے بارے میں جو گمان کرتا ہے ویسا ہی کروں گا) اور میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرتا ہو، نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! اس میں شک نہیں کہ اپنے بندہ کی توبہ سے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں، جب تم میں سے کسی کا سامان سواری وغیرہ جنگل، میں بیابان میں گم ہو جائے اور پھر اس کو پالے۔ (نیز اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ) جو شخص میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور جو شخص میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس کی طرف چار ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میری طرف متوجہ ہو کر (معمولی چال سے) چلتا ہوا آتا ہے تو اس کی طرف دوڑتے ہوئے متوجہ ہو جاتا ہوں۔(بخاری ومسلم)

اہل ایمان کے لیے چند بشارتیں

اس حدیث میں اہل ایمان کے لیے چند بشارتیں ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ میں بندہ کے گمان کے ساتھ ہوں، لہٰذا جب وہ یہ گمان کرے گا اور امید رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور معاف فرما دیں گے اور دنیاوی آفتوں اور مصیبتوں سے اور آخرت کے عذابوں سے محفوظ فرما دیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کی امید اور گمان کے مطابق ضرور معاملہ فرمائیں گے، بندہ کی امید اور گمان کو ضائع نہ فرمائیں گے۔ درحقیقت یہ بہت بڑی بشارت ہے، امید باندھنے اور اچھا گمان رکھنے میں تو کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ بہت بڑے مہربان ہیں۔ امید اور گمان پر کتنی بڑی عنایت اور مہربانی کی خوش خبری دی ہے، کوئی ہو تو سہی جو اللہ کی طرف بڑھے۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ محض امید سے کام نہ چلائے، نیکیاں کرتا رہے اور گناہوں سے بچتا رہے، کیوں کہ دوسری حدیث میں وارد ہوتا ہے کہ: بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو اس کی خواہش کے پیچھے لگائے رکھے اور اللہ تعالیٰ سے امیدیں رکھتا ہے“۔ (ترمذی شریف)

دوسری بشارت جو اس حدیث میں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ میں بندہ کے ساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے، اللہ کی معیت بہت بڑی دولت ہے اور اس کا کیف وہی بندے محسوس کرتے ہیں جو زبان سے اور دل سے اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں، اللہ کا ساتھ ہونا کتنی بڑی نعمت ہے ذرا اس پر غور کرو۔ دنیا میں اگر کسی کے ساتھ پولیس کا کوئی معمولی عہدے دار بھی ہو تو وہ اپنے دل میں کتنی قوت محسوس کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ کسی آدمی کی طرف سے اگر مجھے تکلیف پہنچے گی تو یہ میری مدد کرے گا، اللہ کی معیت کا مزہ ان لوگوں سے پوچھو جن کو ذکر کی حضوری حاصل ہے اور جو اپنے احوال واشغال میں اللہ پاک کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔

تیسری بشارت دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اللہ پاک کی طرف تھوڑا سا بھی بڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف اس سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتے ہیں، یعنی اپنی آغوش رحمت میں لے لیتے ہیں۔ سمجھانے کے لیے بالشت اور ہاتھ اور چار ہاتھ کی مثال ذکر فرمائی ہے۔

چوتھی بشارت یوں دی کہ اللہ جل شانہ کی طرف کوئی معمولی رفتار سے چلے تو اللہ جل شانہ اس کی طرف دوڑ کر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ بھی بطور مثال ہے، اللہ پاک کی مہربانی اور توجہ اور شان کریمی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا۔ بلا مثال اس کو یوں سمجھ لو جیسے کوئی بچہ ہو، اس نے نیا نیا چلنا شروع کیا ہو اور گرتا پڑتا چلتا ہو، اس کو کوئی اپنی طرف بلائے اور وہ دو چار قدم چلے تو بلانے والا جلدی دوڑ کر اسے اپنی گود میں لے لیتا ہے اور شاباشی دیتا ہے۔

پس اے مومنو! اللہ کی طرف بڑھو، اس کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہو، توبہ کرتے رہو، استغفار میں لگے رہو اور برابر ذکر اللہ میں لگے رہو۔ حدیث بالا میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ کو بندہ کے توبہ کرنے سے اس شخص کی خوشی سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جو لق ودق جنگل بیابان میں ہو، اس کی سواری اور کھانے پینے کا سب سامان گم ہو جائے اور ہر طرف دیکھ بھال کر کے ناامید ہو کر یہ سمجھ کر لیٹ جائے کہ اب تو مرنا ہی ہے اور ایسے میں اچانک اس کی سواری سامان کے ساتھ اس کے پاس پہنچ جائے، اس شخص کو جو خوشی ہوگی وہ بیان سے باہر ہے۔ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ جل شانہ کو اس شخص کی خوشی سے بڑھ کر خوشی ہوتی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص شانِ کریمی ہے۔

توبہ کی حقیقت اور اس کا طریقہ

حضرت عبداللہ بن معقل فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا، ان سے میرے والد نے دریافت کیا کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نادم ہو جانا توبہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں، میں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ (مستدرک حاکم)

تشریح: گناہ بندوں سے ہو جایا کرتے ہیں اور گناہ ہو جانا مومن سے بعید نہیں ہے، لیکن گناہ ہو جائے تو ندامت سے پانی پانی ہو جائے اور بندہ دل سے پشیمان اور شرمندہ ہو کہ ہائے یہ کیا ہوا؟ یہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور یہ توبہ کا جزءِ اعظم ہے۔ انسان اپنی حقیر ذات پر نظر کرے اور یہ سوچے کہ اللہ میرا خالق اور مالک ہے، اس نے مجھے وجود بخشا، طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا، اعضاء و جوارح دیے، مال عطا فرمایا، پھر میں نے اس کی نعمتوں کو فرماں برداری کی بجائے گناہوں میں لگا دیا، یہ کتنی بڑی ناشکری، ناسپاسی اور احسان فراموشی ہے۔

بار بار اللہ کی عظمت وکبریائی کا مراقبہ کرے اور اپنی ذات کو بھی سوچے کہ میں کیا ہوں اور کس چیز سے پیدا ہوا ہوں۔ اپنے خالق ومالک کی سرکشی اور نافرمانی مجھے کسی طرح زیبا نہیں۔ ہائے مجھ حقیر وذلیل سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی، میں گناہ میں ملوث ہوگیا، بار بار سوچے اور دل میں شرمندہ اور پشیمان ہو۔

ندامت اور پشیمانی توبہ کا جزءِ اعظم اس لیے ہے کہ جب سچی ندامت ہوگی تو اس کے اثرات بھی ظاہر ہوں گے اور توبہ کے باقی جو دو جز ہیں ان پر بھی بہ آسانی عمل ہو سکے گا۔ ندامت کے ساتھ، نہایت پختہ ارادہ کے ساتھ یہ طے کر لے کہ آئندہ گناہ نہ کروں گا اور جو کچھ ہو چکا ہے، یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ضائع کیے ہیں ان کی تلافی کروں گا اور زیادہ حق تلفی ہوئی ہو تو بقدر امکان تلافی شروع کر دے اور ادائیگی ہونے تک تلافی میں لگا رہے تو یہ حقیقی توبہ ہے۔ صرف زبان سے توبہ توبہ کرنے سے توبہ نہیں ہو جاتی۔ خوب سمجھ لیں۔

نماز پڑھ کر دعا مانگنے سے اللہ بخش دے گا

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور سچ بیان کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی شخص کوئی گناہ کر بیٹھے، پھر خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرے (یعنی صحیح طریقے پر وضو کرے اور غسل فرض ہو تو غسل بھی کر لے)، پھر نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو بخش دے گا اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی… ﴿والذین اذا فعلوا فاحشة﴾ الآیة․ (ترمذی وابن ماجہ)

تشریح:۔ توبہ کے اصلی جز تو وہی تین ہیں جو گزشتہ حدیث کے ذیل میں گزر چکے، یعنی :
1۔ جو گناہ ہو چکے ان پر سچے دل سے شرمندگی اور ندامت
2۔ آئندہ کو گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد
3۔ جو حقوق اللہ وحقوق العباد تلف کیے ہیں ان کی تلافی کرنا

اس طرح توبہ کر لی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے، لیکن اگر ان امور کے ساتھ بعض اور چیزیں بھی ملالی جائیں تو توبہ اور زیادہ اقرب الی القبول ہو جاتی ہے۔ مثلا نیکیوں کی کثرت کرنے لگے یا کسی بڑی نیکی کا اہتمام ز یادہ کرے۔

حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے بہت بڑا گناہ کر لیا، کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ آپ نے فرمایا: کیا تیری والدہ موجود ہے؟ عرض کیا: نہیں! فرمایا: تیری کوئی خالہ ہے؟ عرض کیا: ہاں خالہ ہے! فرمایا: بس تو اس کے ساتھ حسن سلوک کر۔(ترمذی شریف)

اس سے معلوم ہوا کہ والدہ اور خالہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو توبہ قبول کرانے میں بہت دخل ہے۔ نماز پڑھ کر توبہ کرنے کی جو تعلیم فرمائی وہ بھی اسی لیے ہے کہ نماز بہت بڑی چیز ہے، دو چار رکعت پڑھ کر توبہ کی جائے تو زیادہ لائق قبول ہوگی (اگرچہ توبہ کے نفلوں کے بغیر بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے)
حدیث بالا میں جو آیت کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے وہ سورہ آل عمران کی آیت ہے، پوری آیت اس طرح سے ہے:
﴿والذین اذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسہم ذکروا اللّٰہ فاستغفروا لذنوبہم ومن یغفر الذنوب الا اللّٰہ ولم یصروا علی ما فعلوا وہم یعلمون﴾

ترجمہ: اور ایسے لوگ کہ جب کوئی ایسا کام کر گزرتے ہیں جس میں زیادتی ہو یا اپنی ذات پر نقصان اُٹھاتے ہیں تو اللہ کو یاد کر لیتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور ہے کون جو گناہوں کو بخشتا ہو اور وہ لوگ اپنے فعل پر اصرار نہیں کرتے اور وہ جانتے ہیں۔
اس کے بعد ان حضرات کا اجر وثواب بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

﴿اولئک جزاؤہم مغفرة من ربہم وجنات تجری من تحتہا الأنہار خالدین فیہا ونعم أجر العٰملین﴾

ترجمہ: ان لوگوں کی جزا بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور یہ اچھا بدلہ ہے ان کام کرنے والوں کا۔
اس آیتِ کریمہ میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ ﴿ومن یغفر الذنوب الا اللّٰہ﴾ (اور کون ہے اللہ کے سوا جو گناہوں کوبخشتا ہو) اس میں نصاریٰ کی واضح تردید ہے، جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پادری کے معاف کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

آیتِ بالا میں یہ بھی فرمایا کہ ﴿ولم یصروا علی ما فعلوا وہم یعلمون﴾ (اور وہ لوگ اپنے فعل پر اصرار نہیں کرتے اور وہ جانتے ہیں) اس میں اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ گناہ پر اصرار کرنا، یعنی بار بار گناہ کرنا سخت مؤاخذہ کی بات ہے۔ استغفار اور توبہ کرنا، لیکن گناہ کو نہ چھوڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ توبہ سچی نہیں ہے۔ سچی توبہ میں یہ شامل ہے کہ پختہ ارادہ ہو کہ اب گناہ کبھی ہرگز نہ کروں گا۔ توبہ کرنے کے بعد پوری ہمت کے ساتھ گناہوں سے پرہیز کرے۔

اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ جس طرح توبہ کے بھروسے پر گناہ کرنا حرام ہے، اسی طرح یہ سمجھ کر توبہ میں دیر لگانا کہ چوں کہ مجھ سے پکی توبہ نہیں ہوتی، اس لیے ابھی گناہ کرتا رہوں، پھر بڑھاپے میں توبہ کروں گا، یہ اپنے نفس پر بہت بڑا ظلم ہے۔ نفس اپنے مزہ کے لیے اور شیطان اپنی دشمنی کی وجہ سے توبہ کرنے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ توبہ کر لینا۔ ان دونوں دشمنوں کی بات کبھی نہ مانے اور آئندہ کا کیا پتہ ہے کہ کتنی زندگی ہے، موت کب آ جائے۔ بے توبہ مر گیا تو عذاب میں مبتلا ہونا پڑے گا، یہاں کے معمولی مزے کو نہ دیکھے، نفس کو آخرت کے عذاب کا مراقبہ کرائے اور وہاں کی آگ اور دوسرے عذابوں کا یقین دلائے اور جلدی سے توبہ کر لے۔

توبہ تو پختہ ہی ہو، ہاں! بالفرض اگر پھر گناہ ہو جائے تو پھر توبہ کر لے اور اس مرتبہ بھی یہی توبہ ہو۔ اگر چند بار ایسا ہوا تو انشاء اللہ تعالیٰ گناہ بالکل ہی چھوٹ جائیں گے۔

گناہ پر ندامت اور سچے دل سے پشیمانی اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور ارادہ، یہی توبہ ہے اور اس کے لوازم میں سے یہ بھی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تلافی کرے۔

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تلافی

جو چیزیں حقوق اللہ یا حقوق العباد میں سے اپنے ذمہ لازم ہوں، ان کی تلافی کرنا بھی توبہ کا ایک اہم جز ہے۔ بہت سے لوگ توبہ کر لیتے ہیں، لیکن اس جز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، حالاں کہ اس کے بغیر توبہ، حقیقی توبہ نہیں ہوتی۔ حقوق ادا نہ کرنا اور توبہ زبانی کر کے مطمئن ہو جانا اپنے نفس پر ظلم ہے اور آخرت کے عذاب سے نڈر ہونا ہے۔ حقوق کی تلافی کی تفصیل اور طریق کار ہم ذیل میں لکھتے ہیں:

حقوق اللہ کی ادائیگی

حقوق اللہ کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے جن فرائض کو ترک کیا ہو اور جن واجبات کو چھوڑا ہو، ان کی ادائیگی کی جائے۔ نماز، روزہ، زکوٰة، حج وغیرہ سب کی تلافی کرنا لازم ہے۔

قضا نمازیں

زندگی میں جو نمازیں قصداً یا سہواً چھوٹ گئی ہوں یا مرض اور سفر وغیرہ میں رہ گئی ہوں (حالاں کہ نماز کسی بھی حال میں چھوڑنا سخت گناہ ہے) ان سب کو اہتمام سے ادا کرنا لازم ہے اور ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ یوں حساب لگائے کہ جب سے میں بالغ ہوا ہوں میری کتنی نمازیں چھوٹی ہوں گی؟

ان نمازوں کا اس قدر اندازہ لگائے کہ دل گواہی دے دے کہ اس سے زیادہ نہیں ہوں گی، پھر ان سب نمازوں کی قضا پڑھے۔ عوام میں یہ جو مشہور ہے کہ جمعة الوداع یا کسی اور دن یا رات میں قضا عمری کے نام سے دو رکعت پڑھنے سے سب چھوٹی ہوئی نمازیں ادا ہو جاتی ہیں بالکل غلط ہے۔

قضا نماز کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، بس یہ دیکھ لے کہ سورج نکلتا چھپتا نہ ہو اور زوال کا وقت نہ ہو، سورج نکل کر جب ایک نیزہ بلند ہو جائے تو قضا نمازیں اور نوافل سب پڑھنا جائز ہو جاتا ہے اور نماز فجر کے بعد اور نماز عصر کے بعد بھی قضا پڑھنا درست ہے۔ البتہ جب سورج غروب ہونے سے پہلے آفتاب میں زردی آجائے اس وقت قضا نہ پڑھے۔

ہر ایک دن کی پانچ فرض نمازیں اور تین رکعت نماز وتر یعنی کل بیس رکعت بطور قضا پڑھ لے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ لمبے سفر میں (جو کم از کم اڑتالیس میل کا ہو) جو چار رکعت والی نمازیں قضا ہوئی ہوں ان کی قضا دو ہی رکعت ہے، جیسا کہ سفر میں دو ہی رکعت واجب تھیں اگرچہ گھر میں ادا کر رہا ہو۔

اور یہ بھی سمجھ لیں کہ ضروری نہیں کہ جو نمازیں قضا ہوئی ہوں تعداد میں سب برابر ہوں، کیوں کہ بعض لوگ نمازیں پڑھتے بھی رہتے ہیں، چھوڑتے بھی رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ سفر میں نماز نہیں پڑھتے، عام حالات میں پڑھ لیتے ہیں اور بہت سے لوگ مرض میں نماز چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی فجر کی نماز زیادہ قضا ہو جاتی ہے، کچھ لوگ عصر کی نمازیں زیادہ قضا کر دیتے ہیں۔ پس جو نماز جس قدر قضا ہوئی ہو اس کا زیادہ سے زیادہ اندازہ لگا کر وہ نماز پڑھ لی جائے۔

عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ ظہر کی قضا نماز ظہر ہی میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز عصر ہی میں پڑھی جائے، یہ درست نہیں ہے۔ جس وقت چاہیں ادا کر سکتے ہیں اور ایک دن میں کئی کئی دن کی نمازیں بھی ادا ہو سکتی ہیں۔ اگر قضا نمازیں پانچ سے زیادہ ہو جائیں تو ترتیب واجب نہیں رہتی، جونسی نماز پہلے پڑھ لی درست ہو جائے گی، مثلاً اگر عصر کی نماز پہلے پڑھ لی اور ظہر کی بعد میں پڑھی تو اس طرح بھی ادائیگی ہو جائے گی۔

بہت سے لوگ نفلوں کا اہتمام کرتے ہیں اور برس ہا برس کی قضا نمازیں ان کے ذمہ ہیں، ان کو ادا نہیں کرتے، یہ بہت بڑی بھول ہے۔ نفلوں اور غیر موٴکدہ سنتوں کی جگہ بھی قضا نمازیں ہی پڑھ لیا کریں اور ان کے علاوہ بھی قضا نمازوں کے لیے وقت نکالیں، اگر پوری قضا نمازوں کے ادا کیے بغیر موت آگئی تو مواخذہ کا سخت خطرہ ہے۔

جب نمازوں کی تعداد کا بہت احتیاط کے ساتھ اندازہ لگا لیا تو چوں کہ ہر نماز کثیر تعداد میں ہے اور دن تاریخ یاد نہیں، اس لیے حضرات فقہائے کرام نے آسانی کے لیے یہ طریقہ بتایا ہے کہ جب بھی کوئی نماز پڑھنے لگے تو یوں نیت کر لیا کرے کہ میرے ذمہ (مثلاً) ظہر کی جو سب سے پہلی فرض نماز ہے اس کو اللہ کے لیے ادا کرتا ہوں، جب بھی نماز ظہر ادا کرنے لگے اسی طرح نیت کر لیا کرے اور دیگر نمازوں میں بھی اسی طرح نیت کرے۔ ایسا کرنے سے ترتیب قائم رہے گی، کیوں کہ اگر کسی کے ذمہ ظہر کی ایک ہزار نمازیں قضا تھیں تو ہزارویں نماز (ابتدا کی جانب) سب سے پہلی نماز تھی اور اس کو پڑھنے کے بعد اس کے بعد والی سب سے پہلی ہوگی۔ اور جب تیسری بھی پڑھ لی جائے گی تو اس کے بعد والی سب سے پہلی ہوگی۔ اس کو خوب سمجھ لو۔

زکوة کی ادائیگی

اسی طرح زکوة کے بارے میں خوب غور کریں کہ مجھ پر کتنی زکوة فرض ہے یا نہیں؟ اور اگر فرض ہوئی ہے تو ہر سال پوری ادا ہوئی ہے یا نہیں؟ جتنے سال کی زکوة لگائے کہ دل گواہی دے دے کہ اس سے زیادہ مال زکوة کی ادائیگی مجھ پر واجب نہیں ہے، پھر اسی قدر مال زکوة مستحقین زکوة کو دے دے۔ خواہ ایک ہی دن میں دے دے، خواہ تھوڑا تھوڑا کر کے دے دے، اگر مقدور ہو تو جلد سے جلد سب کی ادائیگی کردے، ورنہ جس قدر ممکن ہو ادا کرتا رہے اور پختہ نیت رکھے کہ پوری ادائیگی زندگی بھر کردوں گا اور جب بھی مال میسر آجائے ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے اور دیر نہ لگائے۔ صدقہ فطر بھی واجب ہے اور جو کوئی نذر مان لے تو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے۔ ان میں سے جس کی بھی ادائیگی نہ کی ہو اس کی ادائیگی کرے۔

واضح رہے کہ گناہ کی نذر ماننا گناہ ہے اور اس کا پورا کرنا بھی گناہ ہے۔ اگر ایسا کوئی واقعہ ہو تو علما سے اس کا حکم معلوم کرلیں۔

روزوں کی قضا

اس طرح روزوں کا حساب کرے کہ بالغ ہونے کے بعد سے فرض روزے جو چھوڑے ہیں یا سفر یا مرض کی وجہ سے چھوٹے ہیں ان سب روزوں کا حساب کر کے سب کی قضا رکھے (قضا رکھنے کے مسائل علما سے معلوم کرلیں)۔ عورتوں کے ساتھ ہر مہینے والی مجبوری لگی ہوئی ہے۔ اس مجبوری کے زمانہ کو عام طور سے ماہواری کے دن کہتے ہیں۔ ان دنوں میں شرعاً نماز پڑھنا، روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ شریعت نے ان دنوں کی نمازیں بالکل ہی معاف کر دی ہیں، لیکن ان دنوں میں جو فرض روزے چھوڑ دیے جاتے ہیں بعد میں ان کی قضا رکھنا فرض ہے، لیکن بہت سی عورتیں اس میں کم زوری دکھاتی ہیں اور بعد میں مذکورہ روزوں کی قضا نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے بہت سی عورتوں پر کئی کئی سال کے روزوں کی قضا لازم ہو جاتی ہے۔ خوب صحیح اندازہ کر کے جس سے یقین ہو جائے کہ زیادہ سے زیادہ اتنے روزے ہوں گے ان سب کی قضا رکھ لیں۔ بالغ ہونے کے بعد سے اب تک جتنے بھی روزے فرض، خواہ کسی بھی وجہ سے رہ گئے ہوں سب کی قضا رکھے۔ مرد ہو یا عورت، سب کو ان کی ادائیگی لازم ہے۔

حج بیت اللہ کی ادائیگی

حج بھی بہت سے مردوں اور عورتوں پر فرض ہو جاتا ہے، لیکن حج نہیں کرتے، جن پر حج فرض ہو یا پہلے کبھی ہو چکا تھا اور مال کو دوسرے کاموں میں لگا دیا وہ حج کرنے کی فکر کریں، جس طرح ممکن ہو اس فریضے کا بوجھ اپنے ذمہ سے ساقط کردیں۔

اگر کسی پر حج فرض ہوا اور اس نے حج نہیں کیا اور اتنی زیادہ عمر ہوگئی کہ سخت مرض یا بہت زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے حج کے سفر سے عاجز ہو اور موت تک سفر کے قابل ہونے کی امید نہ ہو تو ایسا شخص کسی کو بھیج کر اپنی طرف سے حج بدل کرا دے۔

اگر زندگی میں نہ کرا سکے تو وارثوں کو وصیت کردے کہ اس کے مال سے حج کرائیں، لیکن اصول شریعت کے مطابق وصیت صرف 3/1 (ایک بٹاتین) مال میں جاری ہو سکتی ہے۔ ہاں! اگر بالغ ورثا اپنے حصہ میں سے بخوشی مزید دینا گوارا کریں تو ان کو اختیار ہے۔

حقوق العباد کی تفصیل اور ان کی ادائیگی کا اہتمام

توبہ کے لوازم میں سے یہ بھی ہے کہ حقوق العباد کی تلافی کرے اور حقوق العباد کی تلافی کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کے جو حقوق واجب ہوں ان سب کی ادائیگی کرے اور یہ حقوق دو قسم کے ہیں:
اول: مالی حقوق ، دوسرے: آبرو کے حقوق۔

مالی حقوق

مالی حقوق کا مطلب یہ ہے کہ جس کسی کا تھوڑا بہت مال ناحق قبضہ میں آگیا ہو، اسے پتہ ہو یا نہ ہو، وہ سب واپس کر دیں۔ مثلاً کسی کا مال چرایا ہو، ڈاکہ ڈالا ہو یا قرض لے کر مار لیا ہو (قرض دینے والے کو یاد ہو یا نہ ہو) یا کسی سے رشوت لی ہو یا کسی کے مال میں خیانت کی ہو یا کسی کی کوئی چیز مذاق میں لے کر رکھ لی ہو (جب کہ وہ اس کے دینے پر اپنے نفس کی خوشی سے راضی نہ ہو) یا کسی سے سود لیا ہو تو اس طرح کے سب اموال واپس کردے۔ واپس کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ میں نے آپ کی خیانت کی تھی، ہدیہ کے نام سے دینے سے ہی ادائیگی ہو جائے گی۔

آبرو کے حقوق

آبرو کے حقوق کی تلافی کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو ناحق مارا ہو یا کسی کی غیبت کی ہو یا غیبت سنی ہو، گالی دی ہو، تہمت لگائی ہو یا کسی بھی طرح سے کوئی جسمانی یا روحانی یا قلبی تکلیف پہنچائی ہو تو اس سے معافی مانگ لے۔ اگر وہ دور ہو تو اس کو عذر نہ سمجھے، بلکہ خود جا کر یا خط بھیج کر معافی طلب کرے اور جس طرح ممکن ہو اس سے معافی مانگ کر اس کو راضی کرے۔ اگر ناحق مار پیٹ کا بدلہ مار پیٹ کے ذریعے دینا پڑے تو اسے بھی گوارا کرلے۔ البتہ غیبت کے بارے میں اکابر نے یہ لکھا ہے کہ اگر اس کو غیبت کی اطلاع پہنچ چکی ہو تو اس سے معافی مانگے، ورنہ اس کے لیے بہت زیادہ مغفرت کی دعا کرے۔ جس سے یقین ہو جائے کہ جتنی غیبت کی تھی یا غیبت سنی تھی اس کے بدلہ اس کے لیے اتنی دعا ہو چکی ہے کہ اس دعا کو دیکھتے ہوئے وہ ضرور خوش ہو جائے گا اور غیبت کو معاف کردے گا۔

یہ بات دل میں بٹھا لینا چاہیے کہ حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے ہیں اور یہ بھی سمجھ لیں کہ نابالغی میں نماز روزہ تو فرض نہیں ہے، لیکن حقوق العباد نابالغی میں بھی معاف نہیں۔ اگر کسی لڑکے یا لڑکی نے کسی کا مالی نقصان کر دیا تو وارث پر لازم ہے کہ بحیثیت ولی خود لڑکے یا لڑکی کے مال سے اس کی تلافی کرے۔ اگرچہ صاحب حق کو معلوم بھی نہ ہو۔ اگر ولی نے ادائیگی نہیں کی تو بالغ ہو کر خود ادا کریں یا معافی مانگیں۔

صرف ظاہری دین داری کافی نہیں

بہت سے لوگ ظاہری دین داری بھی اختیار کرلیتے ہیں، زبانی توبہ بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن گناہ نہیں چھوڑتے، حرام کمائی سے باز نہیں آتے اور لوگوں کی غیبت کو شیر مادر سمجھتے ہیں اور ذرا بھی دل میں احساس نہیں ہوتا کہ ہم غیبتیں کر رہے ہیں۔ بس اب دین داری کرتہ، ٹوپی اور ڈاڑھی اور نماز پڑھنے کی حد تک رہ گئی ہے۔ صرف زبانی توبہ کرنا اور گناہ نہ چھوڑنا اور حقوق اللہ وحقوق العباد کی تلافی نہ کرنا یہ کوئی توبہ نہیں۔ جو لوگ رشوت لیتے ہیں یا سود لیتے ہیں یا کاروبار میں فریب دے کرنا جائز طور پر پیسہ کھینچ لیتے ہیں ایسے لوگوں کا معاملہ بہت کٹھن ہے۔ کس کس کے حق کی تلافی کرنا ہے اس کو یاد رکھنا اور تلافی کرنا اور حقوق والوں کو تلاش کرکے پہنچانا پہاڑ کھودنے سے بھی زیادہ سخت ہے، لیکن جن کے دل میں آخرت کی فکر اچھی طرح جاگزیں ہو جائے وہ بہرحال حقوق والوں کے حقوق کسی نہ کسی طرح پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔

ایک تحصیل دار کا واقعہ

ہمارے ایک استاد ایک تحصیل دار کا قصہ سناتے تھے کہ جب وہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی a سے مرید ہوئے اور دینی حالت سدھرنے لگی اور آخرت کی فکر نے ادائیگی حقوق کی طرف متوجہ کیا تو انہوں نے اپنی زمانہ تعیناتی میں جو رشوتیں لی تھیں ان کو یاد کیا اور حساب لگایا۔ عموماً متحدہ پنجاب کی تحصیلوں میں وہ تحصیل داری پر مامور رہے تھے اور جن لوگوں سے رشوتیں لی تھیں ان میں زیادہ تر سکھ قوم کے لوگ تھے، انہوں نے تحصیلوں میں جاکر مقدمات کی فائلیں نکلوائیں اور ان کے ذریعے مقدمات لانے والوں کے پتے لیے۔ پھر گاؤں گاؤں ان کے گھر پہنچے اور بہت سوں سے معافی مانگی اور بہت سوں کو نقد رقم دے کر سبک دوشی حاصل کی۔

ان تحصیل دار صاحب سے ہمارے استاد موصوف کی خود ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے اپنا یہ واقعہ ان کو خود سنایا تھا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کا واقعہ

حضرت شیخ الحدیث صاحب قدس سرہ نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ کے والد کی دو بیویاں تھیں، اپنے والد کی وفات کے بعد انہیں خیال آیا کہ ان بیویوں کے مہر ادا نہیں ہوئے تھے، دونوں بیویاں بھی وفات پاچکی تھی، حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے ان کے رشتہ داروں کا پتہ چلایا اور ان میں سے جس جس کو میراث پہنچتی تھی سب کو ان کا حق پہنچایا ان میں جو وفات پاگئے تھے ان کی اولاد کو تلاش کیا اور حق دیا۔ ان میں سے ایک بیوی کاند ھلہ کی تھیں، ان کے کسی عزیز کے حساب میں دو پیسے نکلتے تھے، حضرت والا نے مجھے (یعنی حضرت شیخ کو) وکیل بنایا، تاکہ ان کا حق پہنچاؤں اور حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کا ایک واقعہ یاد آگیا، وہ سفر میں کہیں تشریف لے جارہے تھے، ساتھ میں سامان بھی تھا۔ آپ نے ریل کا ٹکٹ تو خرید لیا لیکن اسٹیشن کے اسٹاف سے کہا یہ سامان بھی میرے ساتھ ہے اس کو تول دو۔ انہوں نے کہا لے جائیے، فکر نہ کیجیے، فرمایا تم چھوڑ دو گے، آگے کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا آگے جہاں آپ کو اترنا ہوگا ہمارا یہ ٹکٹ چیکر آپ کو گیٹ سے نکال دے گا، فرمایا اس کے بعد کیا ہو گا؟ کہنے لگے اس کے بعد اور کیا ہے؟ فرمایا اس کے بعد آخرت ہے، اس خیانت کی گرفت سے وہاں کون چھڑائے گا، وہاں کے گیٹ سے کون پار کرائے گا؟

حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا ایک قصہ اور یاد آیا، ایک مرتبہ کسی اسٹیشن پر رات کو (غالباً گاڑی کے انتظار میں ٹھہرنا پڑگیا) اسٹیشن ماسٹر نے جس کمرہ میں ٹھہرنے کو کہا اس میں اندھیرے سے وحشت ہوئی، جی چاہا کہ روشنی ہو، لیکن یہ خطرہ ہوا کہ یہ شخص ناجائز طور پر ریلوے کا لالٹین نہ لے آئے، خطرہ گزرا ہی تھا کہ اس نے ملازم سے کہا کہ بھئی! ان کے لیے ہمارے گھر سے لالٹین جلاؤ۔ بات یہ ہے کہ جب فکر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہوتی ہے۔

ایک سوال اور اس کا جواب

ممکن ہے بعض حضرات یہ سوال کریں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے حقوق تو مار لیے اور جو ہونا تھا ہوچکا اب ان کے پاس پیسے نہیں، لہٰذا حقوق کس طرح ادا کریں اور بہت سے لوگوں کے پاس پیسے تو ہیں لیکن اصحاب حقوق یاد نہیں اور تلاش کرنے سے بھی نہیں مل سکتے۔ ان کو پہنچانے کا کوئی راستہ نہیں، اب یہ لوگ کیا کریں؟

اس کے بارے میں عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت میں اس کا حل بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ جو اصحاب حقوق معلوم ہیں ان سے جاکر یا بذریعہ خطوط معافی مانگیں اور ان کو بالکل خوش کر دیں کہ جس سے اندازہ ہوجائے کہ انہوں نے حقوق معاف کردیے ہیں۔ اگر وہ معاف نہ کریں تو ان سے مہلت لے لیں۔ اور تھوڑا تھوڑا کما کر اور آمدنی میں سے بچا کر ادا کریں اور اگر ادائیگی سے پہلے ان میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اس کی اولاد کو ہی باقی ماندہ حق پہنچادیں۔

اہل حقوق میں سے جو لوگ زندہ ہوں، لیکن ان کا پتہ معلوم نہ ہو تو ان کی طرف سے ان کے حقوق کے بقدر مسکینوں کو صدقہ دے دیں، جب تک ادائیگی نہ ہو صدقہ کرتے رہیں اور تمام حقوق والوں کے لیے، خواہ مالی حقوق ہوں اور خواہ آبرو کے حقوق ہوں، بہر حال دعائے خیر اور استغفار ہمیشہ پابندی سے کریں۔

آخرت میں حقوق العباد کا حساب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو اسے مفلس سمجھتے ہیں جس کے پاس درہم (درہم اس زمانہ میں ایک سکہ تھا جو چاندی کا ہوتا تھا اس کا وزن پاؤ تولہ یعنی تقریبا تین گرام یا تین ماشہ کے قریب تھا۔) نہ ہو اور مال نہ ہو۔ یہ سن کر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ میری امت کا (حقیقی) مفلس وہ ہو گا جو قیامت کے روز نماز اور روزے اور زکوٰة لے کر آئے گا (یعنی اس نے نمازیں پڑھی ہوں گی اور روزے بھی رکھے ہوں گے، زکوٰة بھی ادا کی ہوگی) اور (ان سب کے باوجود) اس حال میں (میدان حشر میں) آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی کو تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا ناحق مال کھایا ہو گا اور کسی کا ناحق خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہوگا (اور چوں کہ قیامت کا دن فیصلے کا دن ہو گا) اس لیے اس شخص کا فیصلہ اس طرح کیا جائے گا کہ جس جس کو اس نے ستایا تھا اور جس جس کی حق تلفی کی تھی سب کو اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ کچھ اس کی نیکیاں اس حق دار کو دی جائیں گی اور کچھ اس حق دار کو دے دی جائیں گی۔ پھر اگر حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو حق داروں کے گناہ اس کے سر ڈال دیے جائیں گے، پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم شریف)

دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کر رکھا ہو کہ اس کی بے آبروئی کی ہو یا اور کچھ حق تلفی کی ہو تو آج ہی اس کا حق ادا کر کے یا معافی مانگ کر اس دن سے پہلے حلال کرائے جس روز نہ دینار ہوگا نہ درہم ہوگا۔ (پھر فرمایا کہ) اگر اس کے کچھ اچھے عمل ہوں گے تو بقدر ظلم اس سے لے لیے جائیں گے اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہو ئیں تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس ظالم کے سر کردی جائیں گی۔ (بخاری شریف)

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ صرف پیسہ کوڑی دبا لینا ہی ظلم نہیں ہے، بلکہ گالی دینا، تہمت لگانا، بے جا مارنا، بے آبروئی کرنا بھی ظلم اور حق تلفی ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم دین دار ہیں، مگر ان باتوں سے ذرا نہیں بچتے۔ یہ یاد رکھو کہ خدا اپنے حقوق کو توبہ واستغفار سے معاف فرمادیتا ہے، مگر بندوں کے حقوق جب ہی معاف ہوں گے جب کہ ان کو ادا کر دے یا اس سے معافی مانگ لے۔

اور یہ بھی واضح رہے کہ معافی وہ معتبر ہے جو معاف کرنے والا بالکل رضا و رغبت کے ساتھ، اپنے نفس کی خوشی سے معاف کردے۔ دل کے اوپر اوپر کی معافی جو مروت میں کر دی جائے یا یہ سمجھتے ہوئے کوئی شخص معاف کر دے کہ ان کو دینا تو ہے ہی نہیں، چلو ظاہری طور پر معاف ہی کردیں، تاکہ تعلقات خراب نہ ہوں تو ایسی معافی کا کچھ اعتبار نہیں۔

احقر سے دہلی میں ایک صاحب نے دریافت کیا کہ میرے ذمہ بعض عزیزوں کا قرضہ تھا، وہ انہوں نے معاف کر دیا۔ تو کیا معاف ہوگیا؟

میں نے کہا جب انہوں نے معاف کر دیا تو آپ کے دل میں تردد کیوں ہے؟ آپ کے دل میں تردد کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے خوشی سے معاف نہیں کیا۔

پھر میں نے ان سے پوچھا کہ معاف کرنے کے بعد انہوں نے کسی سے اس بات کی شکایت تو نہیں کی کہ ہمارے پیسے فلاں شخص نے دبالیے؟ کہنے لگے ہاں! ایسا تو ہوا ہے۔ میں نے کہا معاف کر دینے کے بعد شکایت کیوں کی؟! معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یوں ہی اوپر اوپر سے معافی کے الفاظ کہہ دیے تھے۔ نفس کی خوشی سے معاف نہیں کیا اور اس طرح کی معافی معتبر نہیں ہے، لہٰذا آپ ان کا قرضہ ادا کرنیکے لیے فکر کریں۔

حقوق العباد کے بارے میں چند تنبیہات

1- جس کسی نے اپنا مال، تھوڑا ہو یا زیادہ، خواہ کسی بھی جنس سے ہو، کسی کے پاس حفاظت کے لیے رکھ دیا، یہ مال اس کے پاس امانت ہے۔ اسے خوب اچھی طرح حفاظت سے رکھے اور امانت رکھنے والا جب مانگے تو دے دے۔ اگر دینے سے انکار کر دیا اور وہ ہلاک ہو گئی تو اس کا ضمان لازم ہوگا۔

2- امانت کی چیز اگر خرچ کر لے یا ہلاک کر دے تب بھی ضمان لازم ہو گا۔

3- اگر کوئی چیز کسی سے عاریتاً (مانگے کے طور پر) لی، پھر ہلاک کر دی تو اس کا بھی ضمان لازم ہو گا۔

4- اگر کوئی مہمان یا گاہک گھر یا دکان پر اپنی کوئی چیز بھول جائے تو وہ امانت ہے، اس کا خرچ کر لینا جائز نہیں۔ صاحب مال کے آنے کا انتظار کرے اور آنے جانے والوں سے بھی تلاش کروائے اور پتہ چلوائے کہ یہ شخص کہاں ہے؟ جب ناامیدی ہو جائے تو اس کی طرف سے صدقہ کرے، لیکن اگر وہ بھی آ گیا اور صدقہ پر راضی نہ ہوا تو اس کی قیمت ادا کرنا واجب ہوگا اور صدقہ اپنی طرف سے ہوجائے گا۔

5- اگر کوئی شخص کوئی گری پڑی چیز پالے تو مالک کو پہنچانے کی نیت سے اٹھا سکتا ہے اور اگر ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اٹھانا واجب ہے، اٹھا لینے کے بعد اعلان کرے کہ کسی کی کوئی چیز گری پڑی ہو تو لے لے، جس جگہ چیز ملی ہے اس کے قریب جو آبادیاں ہوں ان میں اعلان کرے اور اتنا عرصہ اعلان کرے کہ یقین ہو جائے کہ اب مالک نہیں آئے گا۔ اس کے بعد مالک کی طرف سے مستحقین زکوٰة کو صدقہ کر دے، اگر خود صاحب نصاب نہیں تو اپنے اوپر بھی خرچ کر سکتا ہے، لیکن ہر صورت میں اگر صاحب مال آ گیا تو مال کی قیمت ادا کرنا لازم ہو گا اور صدقہ کا ثواب صدقہ کرنے والے کو مل جائے گا۔ جب کوئی چیز اٹھائے تو گواہ بنالے کہ حفاظت کرنے کے لیے اور مالک تک پہنچانے کے لیے اٹھا رہا ہوں، اگر اس جگہ گواہ نہ ملیں تو آبادی میں پہنچ کر گواہ بنالے کہ یہ چیز میں مالک تک پہنچانے کے لیے اٹھا لایا ہوں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ چوری کرنے یا غصب کرنے کی تہمت نہ رکھیں گے۔ اگر کوئی ایسی چیز پڑی ملی یا کوئی شخص دکان یا گھر پر چھوڑ کر چلا گیا، جو زیادہ دیر باقی نہیں رہ سکتی۔ جب خراب ہونے لگے تو اس کو صدقہ کردے، زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں، البتہ اس سے پہلے اعلان جاری رکھے۔

6- اگر کوئی شخص قرض دے کر بھول جائے یا لحاظ کی وجہ سے طلب نہ کرے یا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے دعوی نہ کر سکے یا کسی بھی طرح کسی کی کوئی چیز اپنے قبضہ میں آجائے اور صاحب مال کو اس کا علم ہو تب بھی اس کا پہنچانا اور ادا کرنا واجب ہے۔

7- حکومتوں کے قانون کی آڑ لے کر کسی کا حصہ میراث دبالینا حرام ہے۔ نیز جسے شرعا حصہ نہ پہنچتا ہو اس کو کسی حکومت کے قانون کی وجہ سے حصہ لینا بھی حرام ہے (مثلا پوتے کو چچا کی موجودگی میں دادا کی میراث شرعا نہیں پہنچتی، مگر جو حکومتیں شریعت کے خلاف چلتی ہیں وہ دلادیتی ہیں) ان کے دلا دینے سے لے لینا حلال نہ ہو گا۔

8- اور کوئی شخص وفات پا گیا اور اس کا کوئی قرض کسی کی طرف ہے یا مرنے والے کا اور کوئی مال کسی طرح قبضہ میں آیا ہوا ہے۔ مثلا اس نے امانت رکھی تھی یا چوری کر کے اس کا مال لے لیا تھا یا غصب کرکے لیا تھا تو اس کے وارثوں تک اس کا پہنچانا فرض ہے (جیسا کہ اس کی زندگی میں خود اس کو دینا فرض تھا)۔

9- اوقاف کے مال اور عمارات سب امانت ہوتے ہیں۔ وقف کرنے والوں کی شرطوں کے خلاف تصرف کرنا خیانت ہے، بہت سے لوگ جن کا اوقاف پر قبضہ ہوتا ہے ایسے لوگوں پر بھی اوقاف کا مال خرچ کردیتے ہیں جن پر واقف کی شرائط کے اعتبار سے خرچ کرنا جائز نہیں ہوتا یا اپنے ملنے والوں کو شرائط کے خلاف، اوقاف کی عمارتوں میں ٹھہرا دیتے ہیں یا ان کومختصر سے کرایہ پر دے دیتے ہیں، یہ سب حرام ہے اور خیانت ہے۔

10- بعض لوگوں کے پاس وقف کا مکان کرایہ پر ہوتا ہے اور وہ پرانا کرایہ ہی دیتے رہتے ہیں، حالاں کہ ہر دور میں وہی کرایہ دینا لازم ہے جو مکان کے مناسب حال ہو۔ اگر وقف کا ذمہ دار اس میں رعایت دے یا چشم پوشی کرے تب بھی کم کرایہ پر اکتفا کرنا حلال نہیں ہے، یہ دیکھ لیں کہ اس طرح کا مکان اگر کسی کی ملکیت میں ہوتا تو وہ کتنے کرایہ پر ملتا؟ اس کے موافق کرایہ پر دیں اور یہ بھی واضح رہے کہ ایک سال سے زیادہ کے لیے وقف کی زمین کرایہ پر دینا جائز نہیں۔ (تلک عشرة کاملة)

یہ چند مثالیں لکھ دی ہیں، غور کرنے سے اور بھی بہت سی صورتیں ایسی نکل آئیں گی، جن میں امانت داری کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ان میں عامة الناس مبتلا ہیں۔

ایک بہت بڑی خیانت

ایک بہت بڑی خیانت ٹیلیفون کے محکمہ میں کام کرنے والوں کی طرف سے شروع ہو گئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے گھروں اور دکانوں میں ٹیلیفون ہیں، خاص کر وہ لوگ جو شہر سے باہر یا ملک سے باہر ٹیلیفون کرنا چاہتے ہیں، ان سے آپریٹر کہہ دیتا ہے کہ آپ ماہانہ اتنی رقم دیں، پھر جتنی جگہ فون کریں یا جتنی بار کریں آپ کو آزادی رہے گی اور کلی اختیار رہے گا، اس میں سراپا خیانت ہے، بہت بڑی خیانت ہے، آپریٹر اور ٹیلیفون کرنے والے سب خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں اور محکمہ کی بڑی بڑی رقوم ہضم کر جاتے ہیں۔ ان کو موت کے بعد کا کوئی خیال نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ عام طور پر آخرت کی فکر ہی نہیں رہی، دل کی لگی بری ہوتی ہے۔ اگر فکر ہو جائے جسے واقعی فکر کہتے ہیں اور دوزخ کی آگ کا یقین ہو جائے تو نیند ہی نہ آئے جب تک کہ حقوق العباد ادا نہ کردے۔ فکر تو بعد کی بات ہے، یقین ہی کچا ہے، جو یقین کہنے کے لائق ہی نہیں، اس لیے حقوق کی ادائیگی اور ادائیگی فرائض وواجبات اور اجتناب محرمات کی طرف توجہ نہیں۔

لوگ مال و دولت کو اور حکومت وسلطنت کو کام یابی سمجھتے ہیں۔ دنیا کے عہدے حاصل ہو جانے کو کام یابی جانتے ہیں اور بڑے بڑے گناہوں میں ملوث ہو کر یہ چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ جو چیزیں گناہوں سے حاصل ہوں گی ان میں خیر کہاں؟ وہ تو مزید گناہوں کا ذریعہ بنیں گی۔ گناہوں کی گٹھڑی لے کر قیامت میں حاضر ہونا کوئی سمجھ داری نہیں ہے۔ گزشتہ گناہوں سے توبہ کرو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تلافی کرو اور آئندہ کو گناہوں سے بچو۔

اللہ جل شانہ ہم سب کو گناہوں سے محفوظ فرمائے اور اعمال صالحہ کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے۔

اسلامی زندگی سے متعلق