الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادی لہ، ونشھد ان سیدنا وسندنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ، ارسلہ الله الی کافة الناس بیشیرا ونذیراً، وداعیا الیہ باذنہ وسراجاً منیرا، وصلی الله تعالیٰ علیہ وعلیٰ الہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیماً کثیراً کثیراً․ اما بعد!
بزرگان محترم!
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی دو حصوں میں تقسیم ہے، مکی زندگی او رمدنی زندگی، مکی زندگی تیرہ برس کی ہے اور مدنی زندگی دس (برس) کی ہے۔
مکی زندگی
مکی زندگی تکالیف، مشکلات، پریشانیوں اور کلفتوں کی ایک طویل صبر آزما زندگی ہے۔ خود نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کسی نبی کو اپنی قوم سے وہ ایذا ئیں اور تکلیفیں نہیں پہنچیں جو مجھ کو میری قوم سے پہنچی ہیں… لیکن ان تمام تکالیف کے بعد بھی آپ صلی الله علیہ وسلم دین کی تبلیغ واشاعت کا کام انتہائی انہماک اور لگن سے کرتے رہے، مشرکین کے ایمان نہ لانے سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے دل میں جو ضیق وتنگی پیدا ہوئی تھی اس پر خود الله تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ اپنے دل کو ان پر نہ کڑائیے، بلکہ اپنے کام میں لگے رہیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم خدا کے حکم پر عمل کرتے رہے اور اس کی حمد وتعریف اور اس کے بھیجے ہوئے مذہب کی تبلیغ میں لگے رہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کو مجنوں، کاہن، جادوگر اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پر پتھر پھینکے گئے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو زہردیا گیا۔ کوئی نازیبا حرکت نہ تھی جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نہ کی گئی ہو، لیکن ان سب کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ انتہائی صبر وثبات کے ساتھ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے سعی وکوشش کرتے رہے ،خدا کی طرف سے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو یہی حکم ملا کہ:﴿فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ﴾ ﴿فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیلًا﴾
آپ صبر کیجیے، جیسا کہ آپ سے قبل دوسرے الو العزم وصاحب ہمت لوگوں نے صبر کیا۔ صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑئیے اور اگر اس پر بھی یہ جاہل اعتراض کریں تو آپ ان پر اپنے دل کو نہ کڑائیے﴿لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ﴾
آپ ان پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجے گئے ہیں۔
جہاد کبیر
یہ بات اسلام کے منافی معلوم ہوتی ہے کہ پٹتے رہنے اور مصائب وتکالیف برداشت کرنے کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا، بات یہ نہیں بلکہ خدا کا یہ حکم تھا کہ ہر قسم کی تکالیف ومصائب کو برداشت کرو اور زبان سے اُف بھی نہ کرو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جواب نہ دیا جائے، جواب دیا جائے او راس سے بھی سخت دیا جائے، اگر تلوار سے جسم پر حملہ کیا جائے تو اس کا جواب زبان سے روح پر حملہ کرکے دیا جائے۔ اگر تکلیف پہنچائی جائے تو دین کی بات انہیں پہنچا کر تکلیف پہنچائی جائے۔ عربی شاعر نے کیا خوب کہا: جراحات السنان لھا التیامُ
ولا یلتام ما جرح اللسان
یعنی نیزوں کے لگے زخم تو بھر جاتے ہیں، لیکن زبان کے لگے زخم ہمیشہ ہرے رہتے ہیں۔ ان کا اِندمال نہیں، یہ زبان کا جہاد بڑا جہاد ہے، اسے جہاد کبیر کہا گیا ہے، کیوں کہ وہ جہاد جو تلوار لے کر کیا جاتا ہے، اس میں منٹوں کے قصہ ہوتا ہے اور تکلیف بھی تھوڑی دیر کی، لیکن دین کی دعوت کا جو جہاد زبان سے کیا جاتا ہے وہ اذیت وتکلیف کے لحاظ سے زیادہ سخت ہے، اس میں تکلیفیں اور اذیتیں اٹھانا اور ہر لمحہ قتل ہونا ہے ایک مرتبہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیا بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب د یا کہ جو حملہ کرکے قتل کر دے، حضور انور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، جو اپنے نفس کو قتل کر دے۔ یہ دعوت کا کام جہاد کبیر ہے، اس میں انسان طعنے سنتا، گالیاں کھاتا، تکلیفیں اٹھاتا، مصیبتیں جھیلتا اور اذیتیں برداشت کرتا ہے اورمیدان کار زار میں آدمی جاکر جنگ کرتا ہے ،پھر یا تو قتل کرتا یا قتل ہو جاتا ہے۔
انقلاب عظیم
اسلام نے اپنے متبعین کو صبر وتحمل کی تعلیم دے کر جُبن وبزدلی کی دعوت نہیں دی ، بلکہ بہادری اور اُولو العزمی کی طرف بُلایا ہے اور اپنے مشن کے لیے ہر قسم کی تکلیف ومصیبت برداشت کرنے کے لیے آمادہ کیا ہے اوربتلا دیا ہے کہ کام یابی وکام رانی شدائد ومصائب پراچھی طرح صبر وتحمل کرنے سے ملتی ہے۔ مکہ کی زندگی کو دیکھیے، تیرہ آدمی مسلمان ہوئے، یہ سب حضرات ارقم کے گھر میں بند رہتے، زنجیریں چڑھائے رکھتے، عدد کے اعتبار سے بھی کم، شوکت وسطوت بھی ندارد، لیکن دین کی تبلیغ میں لگے رہے، حق کی طرف بُلاتے رہے، تکلیفیں اور مصائب جھیلتے رہے او راپنی زبان سے کفار کے قلب وجگر پر نشتر زنی کرتے رہے۔
بالآخر ان کی پیہم سعی اور مسلسل کوشش سے ایک عظیم انقلاب آیا، اقلیت اکثریت میں بدل گئی، ذلّت وخواری کی جگہ عظمت ورفعت نے لے لی، یہ تبدیلی تلوار کے جہاد سے رونما ہوئی، اس طرح ہوئی کہ وہ لوگ مصائب کو جھیلا کیے، مگر حوصلہ نہیں چھوڑا۔
آج کی ہماری زندگی مشابہ ہے مکہّ کی زندگی سے، بالکل وہ حال تو نہیں جو وہاں تھا، یہاں ہماری جائیدادیں ہیں،ہمیں قانونی حقوق حاصل ہیں، ہم جو پیشہ چاہیں اختیار کرسکتے ہیں، لیکن اسلام کی شوکت اور اسلام کا حکم نہیں ہے۔ تمدن وتہذیب کی ہر بات تسلیم کر لی جاتی ہے ،لیکن وہی بات خدا کے نام پر نہیں مانی جاتی، خدا کا نام لے کر کچھ نہیں منوایا جاسکتا ،تمدن وتہذیب کے نام پر ہر بات منوائی جاسکتی ہے ۔﴿وَمَا نَقَمُوا مِنْہُمْ إِلَّا أَن یُؤْمِنُوا بِاللَّہِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ﴾
سارا غصہ ، سارا شکوہ صرف اس وجہ سے ہے کہ خدا کا نام لیا جاتا ہے، یہاں مادہ پرستی ہے، وطن پرستی ہے، لیکن خدا پرستی نہیں ہے، اس زندگی کا اقتضا یہ ہے کہ آج ہم اور آپ تلوار سے طاقت پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ صرف خدا کی طرف دعوت دے کر طاقت وقوت پیدا کرسکتے ہیں، آج ہماری کام یابی وکام رانی اور فلاح دعوتی کام میں مضمر ہے، دعوت وتبلیغ کا یہ کام ہماری زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب لاسکتا ہے اور ہم میں وہ قوت پیدا کرسکتا ہے کہ جو ہم سے ٹکرائے پاش پاش ہو جائے۔
ہماری نجات کا ذریعہ
حق بات کو دوسروں تک پہنچانا اور دین کی تبلیغ واشاعت کا کام انتہائی امانت اور دیانت سے کرنا خدا کا حکم ہے اور خدا کا کام کرنے والا خدا کی نگرانی میں ہے، اگر دل میں یہ تصور جاگ اٹھے کہ خدا کی مدد ہمارے ساتھ ہے تو پھر کس بات کا ڈر او رکس کا خوف؟ گورنمنٹ کا ایک ادنی ملازم جب سرکاری کام پر ہوتا ہے تو وہ کتنا جری ہوتا ہے؟! اس کی تمام جرأت صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ سرکاری ملازم ہے۔ اگر اس پر کوئی حملہ کرے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس نے سرکار پر حملہ کیا، یہی تصور دین کا کام کرتے وقت ہمارے دل میں ہونا چاہیے۔ ہم اس ملک میں اور ان حالات میں اگر اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں تو صرف مذہب کے نام سے، اس کے علاوہ ہماری نجات کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
الله تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:﴿ وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِی خُسْرٍ،إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾
․
قسم ہے زمانے کی، زمانہ چلا آرہا ہے اور چلا جائے گا، زمانہ مکانیات پر چھا گیا ہے، مکان اپنی جگہ قائم ہے اور زمانہ پیہم گردش میں ہے سب سے زیادہ وسیع محرف زمانہ ہے، ازل سے قبل ہے او رانتہا کا علم نہیں، زمانہ کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ زمانہ کی قسم کھاتا ہے اور قسم گواہ کے قائم مقام ہے، یعنی خدا تعالیٰ زمانہ کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ انسان ٹوٹے اورگھاٹے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، نیک اعمال کیے، ایمان لانے والے اور عمل ِصالح کرنے والوں کے علاوہ تمام لوگ خسارہ و نقصان میں ہیں۔
قوتِ ایمان
تاریخ دیکھ جائیے، آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک فتح ان ہی قوتوں کو ہوئی جو ایمان والے تھے او رجن لوگوں نے ایمان والوں کی مخالفت کی، ان کو تکلیفیں دیں، ایذائیں پہنچائیں وہ ذلیل وخوار ہوئے، فرعون ، ہامان، شداد ، ابوجہل، ابولہب اور ان جیسے تمام مال ودولت والے، جنہوں نے اپنے اپنے وقتوں میں ایمان والوں کو ستایا، پریشان کیا اور ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کی ،لیکن انجام کار خود ہی ذلّت وخواری سے دو چار ہوئے۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب
اگر کام یابی حاصل کرنا ہے تو ایمان والا بننا پڑے گا ،قرآن پاک نے صاف الفاظ میں فرما دیا ہے:﴿لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَیٰ﴾
یعنی انسان کو اس کی سعی وکوشش ہی کام دے گی، کسی دوسرے کی سعی کام نہ آئے گی لیکن اس کے برخلاف حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر ثواب دوسروں کو پہنچایا جائے تو ثواب دوسروں کو پہنچ جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک کی سعی دوسرے کے کام آتی ہے، اس طرح حدیث وقرآن میں تعارض واقع ہوتا ہے۔
مفتی عزیز الرحمن صاحب جو ایک خدا ترس عالم تھے، انہوں نے ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ میں نے جلالین میں قرآن کی یہ آیت پڑھی اور حدیث کی ایک کتاب میں ایصال ثواب کی یہ حدیث دیکھی، دونوں میں تعارض نظر آیا، بہت سوچا، کتابیں دیکھیں، لیکن کسی طرح اس کا حل سمجھ نہ آسکا رات کو سونے کے لیے گھر گیا اور سونے کے لیے لیٹ گیا، لیکن معاً یہ خیال آیا کہ اگر رات کو موت آگئی تو دو صورتوں میں سے ایک یقینی ہے یا تو حدیث کا انکار لازم آتا ہے یا پھر قرآن کا او ران دو صورتوں میں ایمان کی سلامتی نہیں، یہ خیال آتے ہی بستر چھوڑ دیا اور پیدل گنگوہ کا سفر کیا۔ 22کوس کا سفر رات بھر میں کرکے، صبح تڑکے گنگوہ پہنچا۔ مولانا گنگوہی ،جو کہ ضعیف ہوچکے تھے۔ بینائی جاچکی تھی، اس وقت وضو فرمارہے تھے، فرمایا کہ کیوں آئے؟ میں نے عرض کیا کہ اس آیت او رحدیث میں تعارض واقع ہو گیا ہے او را س کا حل سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، مولانا گنگوہی نے فرمایا: قرآن کی اس آیت:﴿لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَیٰ…﴾
سے نفس ایمان مراد ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص ایمان نہیں لائے تو کسی دوسرے کا ایمان اس کے کام نہیں آئے گا اور حدیث سے عمل ہے۔ ایمان کسی کو نہیں بخشا جاسکتا ،عمل بخشا جاسکتا ہے۔
عام تبلیغ ہر شخص پر ضروری ہے
الله تعالیٰ نے زمانہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان خسارہ میں ہے ،مگر صرف اہل ایمان اور وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں، جو ایک دوسرے کو حق وصبر کی وصیت کریں اور دوسروں کو صالح ونیکوکار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین کی تبلیغ واشاعت کا کام اسی لیے شروع کیا گیا۔ کیوں کہ عام طور پر یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ یہ کام صرف علما سے متعلق ہے، وہ مسائل جن میں اختلاف ہو اُنہیں نہ بیان کیا جائے، بلکہ علماء اس کو بوقت ضرورت بیان کریں اور عام تبلیغ ہر شخص پر لازم ہے ،اُمت محمدیہ کے ہر فرد سے اس ذمہ داری کو لازم ٹھہرایا گیا ہے، ارشاد ہے:﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ﴾․
اس آیت میں اس اُمت کو مخاطب بنایا گیا ہے اور ﴿لِلنَّاس﴾ کہا گیا ہے۔﴿للمسلمین﴾ نہیں کہا گیا۔
تبلیغ کے لیے جماعتوں کا طریقہ
ہندوستان میں اس وقت دعوت وتبلیغ کے کام کو چند سال قبل حضرت مولانا محمد الیاس نے شروع کیا، خدا تعالیٰ نے ان کے قلب ومبارک پر اس کاالقاء کیا۔ انہوں نے تبلیغ کے لیے جماعتوں کا طریقہ اختیار کیا۔ کیوں کہ دستور ہے کہ جب کچھ لوگ مل کر ایک بات کہتے ہیں یا کوئی کام کرتے ہیں تو اس کا اثر خاص طور پر پڑتا ہے، ایک ہی بات کو جب مختلف لوگ مختلف وقتوں میں کہتے ہیں تو اس کا اثر کبھی نہ کبھی تو ہوتا ہے، حق تعالیٰ نے سورہٴ یسین میں ارشاد فرمایا:﴿إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَیْکُم مُّرْسَلُونَ﴾․
جب ہم نے ان کے پاس دو رسول بھیجے تو انہوں نے ان کی تکذیب کی تو ہم نے تیسرا رسول بھیج کر ان کو سرفراز کیا، انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔
مولانا محمد الیاس صاحب رحمة الله علیہ نے اسی وجہ سے دعوت کے کام میں جماعتی طریقہ اپنایا۔ کیوں کہ انہوں نے محسوس کیا کہ آج کا دور اجتماعی دور ہے، کھیل کود، صنعت وتجارت، زراعت… غرض ہر چیز میں اجتماعیت پائی جاتی ہے، ہر مسئلہ میں وفود جاتے ہیں، میٹنگیں ہوتی ہیں، ہر جگہ جماعتی رنگ دکھلائی دیتا ہے۔ اس جماعتی ماحول میں انفرادی بات کا زیادہ اثر نہیں ہوتا، یہی کچھ سوچ سمجھ کر مولانا مرحوم نے اس جماعتی کام کو جماعتی ڈھنگ سے شروع کیا، جب جماعت بنا کر کچھ لوگ کسی آدمی کے پاس جاتے ہیں اور اس حال میں کہ کاندھوں پر بستر لدے ہوئے پیدل چل کر آرہے ہیں، محنت ومشقت کے آثار چہرے سے ظاہر ہیں، لا محالہ وہ آدمی سوچتا ہے کہ یہ لوگ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟ انہیں مجھ سے کوئی غرض ومطلب نہیں، پھر کیا چیز ہے جو انہیں اس تکلیف کو برداشت کرنے پر آمادہ کر رہی ہے؟! ضرور جو یہ لوگ کہتے ہیں وہ صحیح ہو گا۔ یہ چیز اسے بہت متاثر کرتی ہے۔
تبلیغی جماعت او رانقلاب عظیم
میں نے شاید کہیں لکھا ہے کہ تبلیغ کو الله تعالیٰ نے مولانا محمد الیاس صاحب کے دل پر بطور فن کے القاء کیا، اس میں تعلیم وتربیت، سیر وسیاحت، روح کی دلچسپی، بدن کی ورزش ہر ایک چیز موجو دہے۔ آج کے دورمیں یہ کام بڑا ہی مفید اور لازمی ہے۔اسی وجہ سے یہ کام تیزی سے پھیل رہا ہے او راس تبلیغ سے ایک عظیم انقلاب آرہا ہے، ہندوستان کے ہر حصے میں او رہندوستان سے باہر جہاں بھی میں گیا وہاں میں نے تبلیغی جماعتیں اور تبلیغی مراکز دیکھے، رسمی انداز میں اس عالم گیر طریقہ پر کام نہیں ہوسکتا اوراس کے ساتھ نہ فتنہ وفساد ہے اور نہ واویلا اور شور، آپ نے کہیں نہیں سنا ہو گا کہ ان جماعتی لوگوں نے کہیں غدر کیا، کہیں فساد برپا کیا۔ یہ ایک خاموش تبلیغ ہے، جو عالم گیر طریقہ سے ساری دنیا میں پھیلتی جارہی ہے او راس کی مقبولیت روز بروز بڑھتی چلی آرہی ہے۔
تبلیغ میں باہر نکلنے کا فائدہ
تبلیغ کے کام میں آدمی کو اس کے گھر سے نکالا جاتا ہے ، وہ گھر کے ماحول سے نکل کر خدا کے گھر میں پہنچتا ہے، وہاں اسے دوسرا ماحول ملتا ہے، گھر کے ماحول میں اور اس ماحول میں بڑا فرق ہوتا ہے، یہاں اُسے داعی اور عامل دونوں بننا پڑتا ہے، وہ داعی بن کر آتا ہے او رعامل بن کر جاتا ہے۔
مقصد تبلیغ
حضرت سفیان ثوری نے ایک مرتبہ فرمایا کہ:” ہم نے علم حاصل کیا تھا غیر الله کے لیے، مگر جب علم آگیا تو اس نے کہا کہ میں تو خدا کے لیے ہوں“ اسی تبلیغی کام کا ایک نظام ہے اور اوقات نکالنے کا ایک اصول ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ قلب کی صفائی ہو ،وہ تمام دنیوی آلودگیوں سے پاک ہو، تزکیہٴ نفس ہو۔ انشراح قلبی او رروحانی قوتوں کو جلا ہو، شیطانی قوتیں دبیں اور مغلوب ہو جائیں۔
بے لو ث خدمت
آج کے دور میں بہت سی تحرکیں چل رہی ہیں، لیکن یہ تحریک اپنی مثال آپ ہے،اس میں نہ عہدے ہیں، نہ منصب ہیں، نہ کرسیاں اور نہ سیٹیں ہیں، بلکہ اپنے ہی مال کاخرچ ہے، اپنی جیب پر بار ہے، یہ تحریک موجودہ دور میں دین کے تحفظ کے لیے ایک بڑی پناہ گاہ ہے ،کسی ریاست کی بنیاد ہوتی ہے، توہمات اور تنازع للبقاء پر، لیکن یہاں اس کے برعکس ہے، یہاں تنازع للبقاء کی جگہ فنا للبقاء ہے اور توہمات کی جگہ محبت والفت ہے، ریاست کے لیے پارٹیاں بنائی جاتی ہیں اور یہاں خود بخود پارٹیاں بن جاتی ہیں۔
دو پناہ گاہیں
آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس دور میں مسلمانوں کے لیے صرف دو پناہ گاہیں ہیں، ایک دینی مدرسے اور دوسرے یہ تبلیغی کام۔ تعلیم والے باہر سے لوگوں کو لا کر ایک جگہ جمع کرتے ہیں اور پھر اپنی تعلیم دیتے ہیں اوریہ تبلیغی کام والے جمع شدہ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔
دعوت شرکت
تبلیغی کام ایک ٹھوس او ربنیادی کام ہے، اس پر قوموں کے عروج وزوال کی بنیاد ہے، جو لوگ اس تبلیغی کام میں لگے ہوئے ہیں او راپنے وقتوں کو لگاتے ہیں، وہ مزید اس کام میں لگیں۔ اگر پہلے کم وقت لگاتے تھے تو اب اورزیادہ وقت لگائیں اور اس کام کو محنت اور جاں فشانی سے کریں، جو کہیں اس پر خو دعامل ہوں اور عمل کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ سب سے بڑی دلیل عمل ہے او رعمل کے بڑے اثرات پڑتے ہیں۔
حضرت امام مالک نے فرمایا کہ دنیا میں ہر شخص اپنی بات کو خوش نما کرکے پیش کرتا ہے، لیکن اگر اس کا یہ قول عمل کے مطابق ہے تو ٹھیک، ورنہ اس کے لیے ہلاکت وتباہی ہے، اسی طرح ہر کام کے کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور اس کی کچھ حدیں ہوتی ہیں، کام کو اس طرح کریں کہ دوسرے کے حقوق پامال نہ ہوں:”ان لنفسک علیک حقا“
انسان پر اس کے نفس کا، اس کی جان کا، اس کی بیوی کا، بچوں کا ، آنکھوں کا، ہر ایک کا حق ہے، اگر ایک انسان ایک حق کو ادا کرے اور اس حق کے ادا کرنے میں دوسرے بہت سے حقوق پامال ہوں تو یہ خیر کی بات نہیں، خیر کی بات تو یہ ہے کہ حق بھی ادا ہوجائے اور دوسرے حقوق کی پامالی بھی نہ ہو، کھاؤ بھی کہ یہ نفس کا حق ہے اور روزہ بھی رکھو کہ خدا کا حق بھی ادا ہو جائے۔
دعوتی کام کا نفع
آج دنیا میں او رخصوصاً ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے راہ نجات اور فلاح وکام رانی کی راہ یہی دعوتی کام ہے۔ اس کام نے قوموں کو بنایا اور سنوارا ہے، یہی کام کرنے والے پنپے ہیں اور یہی کام کرنے والے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے گئے!
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا-اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ،و آخر دعوانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِین․