گندم کٹائی کے بدلے میں تین بوری گندم لینا

 گندم کٹائی کے بدلے میں تین بوری گندم لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقوں میں چند دیہات ہیں، وہاں کے آدمی گندم کٹائی کرنے جاتے ہیں، جو مالک ہے بیج، عمل(کام کرنا)، بقر (جانور)اور ارض(زمین) سب اس کے ہیں، اب یہ آدمی گندم کٹائی کرتے ہیں اور اس کے عوض شرط لگاتے ہیں، شرط یہ ہے کہ ایک بوری کی مقدار کٹائی کے بدلے میں دو یا تین بوری لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
یعنی اگر پوری زمین میں ایک بوری بیج ڈالا ہو ،تو اس پوری زمین کی فصل کی کٹائی کی تین بوری لیتے ہیں۔

جواب

اجارہ کی مذکورہ صورت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
۱…جس زمین کی فصل کی کٹائی کے بارے میں عقد اجارہ ہوا ہے اس کی حدود متعین ہوں، اگر حدود متعین نہ ہوں، تو اجارہ کی یہ صورت فاسد ہوگی۔

۲…شروع میں یہ شرط نہ لگائی گئی ہوکہ اجرت میں جو تین بوری گندم ملے گا، وہ اسی زمین کی پیداوار میں سے دینی ہوگی، چاہے بعد میں اسی زمین کی پیداوار میں سے دے یا کسی اور زمین کی پیداوار میں سے دے۔
لما في البدائع:
’’منھا: أن یکون المعقود علیہ وھو المنفعۃ معلوما علما یمنع من المنازعۃ فإن کان مجھولا ینظر إن کانت تلک الجھالۃ مفضیۃ إلی المنازعۃ تمنع صحۃ العقد وإلا فلا‘‘.(کتاب الإجارۃ، فصل في شرائط الرکن: ٥/ ٥٣٨:رشیدیۃ)
وفي الھندیۃ:
’’ومنھا:أن یکون المعقود علیہ وھو المنفعۃ معلوما علما یمنع المنازعۃ فإن کان مجھولا جھالۃ مفضیۃ إلی المنازعۃ یمنع صحۃ العقد وإلا فلا‘‘.(کتاب الإجارۃ، فصل في شرائط الرکن: ٥/ ٥٣٨:رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
صورۃ قفیز الطحان أن یستأجر الرجل من آخر ثورا لیطحن بہ الحنطۃ علی أن یکون لصاحبھا قفیز من دقیقھا أو یستأجر إنسانا لیطحن لہ الحنطۃ بنصف دقیقھا أو ثلثہ أو ما اشبہ ذلک فذلک فاسد والحیلۃ في ذلک لمن أراد الجواز أن یشترط صاحب الحنطۃ قفیزا من الدقیق الجید ولم یقل من ھذہ الحنطۃ أو یشترط ربع ھذہ الحنطۃ من الدقیق الجید لأن الدقیق إذا لم یکن مضافا إلی حنطۃ بعینھا یجب في الذمۃ والأجر کما یجوز أن یکون مشارا إلیہ یجوز أن یکون دینا في الذمۃ‘‘.(کتاب الإجارۃ، الفصل الثالث في قفیز الطحان: ٤/ ٤٨٠:دار الفکر).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/287