عمرہ کمیٹی سے متعلق سوالات

عمرہ کمیٹی سے متعلق سوالات

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حطیم کعبہ عمرہ کمیٹی کے متعلق جس کی تفصیل ذیل میں مذکور ہے:
کمیٹی کی تفصیل:

  • کمیٹی کل مدت (۳۰)ماہ ہوگی اور کم از کم (۳۰) افراد پر مشتمل ہوگی۔
  • ماہانہ کمیٹی کی قسط سات ہزار ہوگی۔
  • ایک کمیٹی سے حاصل شدہ کل رقم دو لاکھ دس ہزار ہوگی۔
  • کمیٹی کے کل ممبروں کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر گروپ کم از کم چھ افراد پر مشتمل ہوگا۔ پہلے گروپ کی قرعہ اندازی کمیٹی شروع ہونے کے چھ ماہ بعد ہوگی، پھر ہر چہ ماہ بعد ایک گروپ کو بذریعہ قرعہ اندازی بھیجا جائے گا۔
  • بذریعہ قرعہ اندازی نام نکلنے والے گروپ کو قرعہ اندازی کے بعد تین ماہ کے اندر اندر عمرہ کے لیے روانہ کردیا جائے گا۔
  • بذریعہ قرعہ اندازی نام نکلنے والوں کو ۲۰شعبان تا ۵ شوال نہیں بھیجا جائے گا۔
  • عمرہ پیکچ(۲۸)دن ،ویزا،ٹکٹ،سعودی ٹرانسپورٹ، رہائش ۶۰۰ تا ۹۰۰ کلومیٹر ۔
  • ملتان ،پشاور ،اسلام آباد ،لاہور سے روانگی ہوگی۔

ممبر کی شرائط:

    • قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کے لیے ۲ عدد ضامن اور اسٹام پیپر اور چیک لازمی ہوگا۔
    • ۳قسطیں شارٹ کرنے والے کا نام قرعہ اندازی میں شامل نہیں ہوگا۔
    • کمیٹی کی رقم سے صرف عمرہ کے لیے بھیجا جائے گا ،اگر کوئی ممبر دوران کمیٹی اس معاملہ کو ختم کرنا چاہے گا ،تو یہ معاملہ کمیٹی کے اختتام پر ختم (فسخ) کیا جائے گا اور اس ممبر کو کمیٹی کے اختتام پر اس کی رقم ادا کی جائے گی۔
    • مذکورہ بالا شرائط وضوابط میں اگر کوئی نکتہ قابل اشکال ہو، تو شرعی حل کی طرف رہنمائی فرمادیں۔

وضاحت:پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اگر ٹکٹ وغیرہ سستا ہوگیا، توممبر کو اس کی بقیہ رقم واپس کردی جائے گی، اگر مہنگا ہوگیا،تو زائد رقم کمیٹی اپنی طرف سے لگائے گی۔

جواب

صورت مسئولہ میں کمیٹی اور ممبر کا جو معاملہ ہے یہ اجارہ ہے، اور اس میں اجرت متعین نہ ہونے کی وجہ سے فاسد ہے، اس لیے یہ کمیٹی درست نہیں، بالفرض اگر اس کو قرض پر بھی محمول کریں  تب بھی یہ معاملہ درست نہیں، اس لیے کہ ٹکٹ وغیرہ مہنگا ہونے کی صورت میں جو کمپنی اپنی طرف سے ادا کرے گی ،یہ قرض پر مشروط نفع ہے جو کہ حرام ہے۔
لما في ملتقی الأبحر:
’’ھي بیع منفعۃ معلومۃ بعوض معلوم دین أو عین‘‘.
وفي مجمع الأنہر:
’’(معلوم) قدرا أو صفۃ في غیر العروض؛ لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعۃ‘‘. (کتاب الإجارۃ:511/3، غفاریۃ).
وفي الدر المختار:
’’وشرطھا: کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین ؛لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعۃ‘‘. (کتاب الإجارۃ: 9/9،رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/275