ڈاکٹر کا دوائی والی کمپنی سے کمیشن کا معاہدہ کرنا

ڈاکٹر کا دوائی والی کمپنی سے کمیشن کا معاہدہ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

۱…معیاری دواساز کمپنیاں جن کی دوائیاں مریضوں کے لیے تجویز کرتے ہیں، ان کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹر کو دیے جانے ولاے تحائف،یا کھانے کی دعوتیں،یا کانفرنسز/ میٹنگز میں بیرون ملک اور اندرون ملک دورے کروانا شامل ہیں، کیا یہ سب ڈاکٹرز کے لیے جائز ہے؟
۲…معیاری دواساز کمپنیاں جن کی دوائیاں ڈاکٹرز مریضوں کے لیے کم تجویز کرتے ہیں، یا نہیں کرتے ان کے لیے بھی یہ تمام باتیں جو پہلے سوال میں پوچھی ہیں ،وہ جائز ہیں؟
۳…دوا ساز کمپنیاں خود ڈاکٹرز کو یہ تمام فوائد مہیاکریں، تو دین میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ اور اگر ڈاکٹر خود کمپنیوں سے کہے کہ مجھے یہ فائدہ پہنچاؤ، یا اپنے ذاتی نوعیت کے کام کروائیں،اور ان سے کہیں کہ میں آپ کی دوا تجویز کروں گا ،تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
۴…اگر ایک کمپنی کی سستی دوا مریضوں کو اتنا ہی فائدہ پہنچارہی ہے ،جتنا دوسری کمپنی کی مہنگی دوا پہنچاتی ہے، تو اس صورت میں کیا کرنا جائز ہے؟
وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

تمہید کے طور پر چند باتیں سمجھ لینا ضروری ہے:
طب اور ڈاکٹری ایک ایسا شعبہ ہے کہ جس میں ڈاکٹر کا مریض کی مصلحت اور اس کی خیر خواہی کو مدنظر رکھنا شرعی اور اخلاقی فرض ہے، اس بناء پر ڈاکٹر اور مریض کے معاملے کی ہر وہ صورت جو مریض کی مصلحت اور فائدے کے خلاف ہو، جس میں ڈاکٹر اپنے پیسے کمانے یا کمپنی سے اشیاء وصول کرنے کی لالچ میں یا مریض کے ساتھ کسی قسم کی خیانت، یا بددیانتی کا مرتکب ہو ، وہ درست نہیں ،لہٰذا اگر ڈاکٹر مریض کی مصلحت کو نظر انداز کر کے صرف اپنے مالی فائدے یا کسی قسم کی منفعت ہی ملحوظ رکھتا ہو، تو یہ دیانت کے خلاف ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹر گناہ گار ہوگا۔
اسی طرح ڈاکٹروں کا مریضوں کو معیاری دواساز کمپنیوں کی دوائیوں کو تجویز کرنا دلالی ہے، اگر کمپنی اور ڈاکٹر آپس میں اس طرح معاملہ کرلیں کہ ڈاکٹر کمپنی کی دوا مریضوں کے لیے تجویز کرےگا، اور کمپنی اس کو اس عمل پر اجرت دے گی، تو یہ معاملہ شرعاً درست ہے، بشرطیکہ اجرت متعین ہو، دوائی تجویز کرنے کی مدت یا اس کی تعداد متعین ہو، مجہول نہ ہو، اور اس دوا کی تجویز مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کے لیے ہو، اپنے مفاد کی خاطر ہر ایک مریض کے لیے تجویز نہ کرتا ہو۔
نیز کمپنی ڈاکٹر کو اجرت میں کوئی بھی چیز دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ آلہ معصیت نہ ہو، جیسے :ٹی وی وغیرہ، اور اس بات سے بھی معاملہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس متعین چیز کا تقاضا ڈاکٹر کی طرف سے ہو، یا کمپنی کی طرف سے اس کی پیشکش ہو۔
۱…لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر معیاری دواساز کمپنیوں کا اور ڈاکٹر کا آپس میں اس طرح معاملہ ہوا ہے کہ ڈاکٹر متعین مدت یا متعین تعداد میں دوا تجویز کرے گا اور کمپنی اس کو مذکورہ متعین اشیاء مزدوری میں دے گی، اور وہ دوا مریض کی صحت کے لیے مفید بھی ہو، محض مالی لالچ کی بنیاد پر نہ ہو، تو شرعاً یہ معاملہ درست ہے، اور ڈاکٹروں کے لیے یہ اشیاء جائز ہیں۔
۲…اگر ان ڈاکٹروں کے ساتھ کمپنی کا مذکورہ بالا طریقہ پر معاملہ ہو ا ہے، تو ان کے لیے بھی یہ اشیاء جائز ہیں، اور اگر کوئی معاملہ نہیں ہوا ہے، تو پھر ناجائز ہے۔
۳…مذکورہ معاملہ میں یہ اشیاء اجرت میں کمپنی مقرر کرے گی، یا ڈاکٹر خود مطالبہ کرے، دونوں صورتیں درست ہیں۔
۴…مسلمان مریض کی جانی ومالی دونوں نقصانوں سے حفاظت کومد نظر رکھ کر اس کی صحت کے لیے مفید دوا تجویز کی جائے۔
لما في رد المحتار:
’’وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیھم. وفي الحاوي :سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار ،فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان في الأصل فاسدا، لکثرۃ التعامل وکثیر من ھذا غیر جائز ،فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ‘‘. (کتاب الإجارۃ: مطلب في أجرۃ الدلال: 63/6،سعید)
وفي الدر المختار:
’’وشرطھا کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین، لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعۃ‘‘. (کتاب الإجارۃ:5/6، سعید)
وفي البحر الرائق:
’’قال رحمہ اللہ: (وما صح ثمنا صح أجرۃ) ؛لأن الأجرۃ ثمن المنفعۃ فتعتبر بثمن المبیع ثم إن کانت الأجرۃ عینا جاز‘‘. (کتاب الإجارۃ:5/8، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:198/ 177