سودی بینک کو جگہ کرائے پر دینا مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی؟

سودی بینک کو جگہ کرائے پر دینا مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ جمہور فقہاء احناف کے ہاں مفتیٰ بہ قول کے مطابق سودی بینک کو کرائے پر جگہ دینا مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی؟ بعض حضرات نے بینک وغیرہ کو جگہ کرایہ پر دینے کو مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے۔
اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ جمہور فقہاء احناف کے نزدیک مفتیٰ بہ قول کونسا ہے؟ مکروہ تنزیہی والا یا تحریمی والا؟ تحقیقی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں بینک کو کرائے پر جگہ دینا ناجائز اور مکروہ تحریمی ہے اور سودی بینک سے اجرت اس پر اجرت لینا بھی ناجائز ہے۔
لما في التنزیل:
«وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان». (سورۃ المائدۃ:02)
وفي تفسیر ابن کثیر:
’’یأمر تعالیٰ عبادہ المؤمنین بالمعاونۃ علی فعل الخیرات وھو البر، وترک المنکرات وھو التقویٰ وینھاھم عن التناصر علی الباطل والتعاون علی المآثم والمحارم‘‘. (سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ:02/10، دارالسلام).
وفي البحر:
’’قال رحمہ اللہ: (وإجارۃ بیت لیتخذ بیت نار أو بیعۃ أو کنیسۃ أو یباع فیہ خمرا بالسواد) یعني جاز إجارۃ البیت لکافر لیتخذ معبدا أو بیت نار للمجوس أو یباع فیہ خمرا في السواد وھذا قول الإمام. وقالا: یکرہ کل ذلک لقولہٖ تعالٰی: «وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان». ولہ: أن الإجارۃ علی منفعۃ البیت ولھذا تجب الأجرۃ بمجرد التسلیم ولا معصیۃ فیہ، وإنما المعصیۃ بفعل المستأجر وھو مختار فیہ فقطع نسبۃ ذلک إلی المؤجر وصار کبیع الجاریۃ لمن لا یستبرئھا أو یأتیھا في دبرھا أو بیع الغلام ممن یلوط بہ، والدلیل علیہ أنہ لو أجرہ للسکنی جاز ولا بد فیہ من عبادتہ‘‘. (کتاب الکراھیۃ، فصل في البیع:371/8، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/311