خواتین کا بیوٹی پارلر کاکام کرنا کیسا ہے؟

خواتین کا بیوٹی پارلر کاکام کرنا کیسا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک خاتون جن کا ذریعہ معاش اور کوئی نہیں ہے اور وہ پارلر کا کام کرتی ہیں تو اگر وہ کسی جگہ جاب کرتی ہیں تو وہاں پر آئی برو بھی بنانا پڑے گی اور اس کا تو حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہے تو وہ کیا کرے؟ پارلر میں سب کام کرے یہ نہ کرے؟

جواب

واضح رہے کہ آئی برو (بھنویں) کاٹ کر باریک کرنا جائز نہیں، البتہ اگر بھنووں کے بال حد سے بڑھ گئے ہوں اور بدنُما لگ رہے ہوں، تو بقدر ضرورت انہیں کاٹ سکتے ہیں۔
اگر بیوٹی پارلر میں کوئی غیر شرعی امر نہیں ہے، جیسے دانتوں کو باریک کرنا یان ان میں فاصلہ پیدا کرنا، جسم گودنا، انسانی بالوں سے پیوند کاری کرنا، سر کے بال کاٹنا، اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط، گانے، وغیرہ او رمعاش کی واقعی ضرورت ہو، تو ایسے بیوٹی پارلر جانا درست ہے، اور اگر مذکورہ اشیاء یا کوئی اور غیر شرعی امر کا ارتکاب ہوتا ہے، تو کوئی اور جائز ذریعہ معاش، جیسے کپڑوں کی سلائی وغیرہ اختیار کیا جائے۔
لما في الرد:
’’لا بأس بأخذ أطراف اللحیۃ إذا طالت..... ولا بالأخذ من حاجبیہ..........ما لم یشبہ فعل المخنثین.(کتاب الصوم، مطلب في الفرق بین قصد الجمال والزینۃ:456/3: رشیدیۃ)
وفي الھندیۃ:
’’عن أبي یوسف رحمہ اللہ: لا بأس بأخذ الحاجبین وشعر وجھہ ما لم یتشبہ بالمخنث‘‘.(کتاب الکراھیۃ، الباب التاسع والعشرون:414/5: دار الفکر).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/144