انڈیا سے ہجرت کرنے والوں کا اپنی برادری کے ساتھ پٹھان لگانا

انڈیا سے ہجرت کرنے والوں کا اپنی برادری کے ساتھ پٹھان لگانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے آباؤاجداد ہندوستان(انڈیا) سے ہجرت کر کے 1947ء میں پاکستان آئے اور مختلف شہروں میں سکونت اختیار کی، برادری کی اکثریت نے حیدرآباد سندھ میں رہائش اختیار کی، ہندوستان میں ہماری برادری گدی برادری کے نام سے پہچانی جاتی ہے، ہجرت کے وقت انڈیا کے مختلف علاقوں سے دیگر اسی نام سے مماثلت رکھنے والی برادریاں بھی پاکستان آکر آباد ہوئیں۔ کچھ نے اپنے نام کے ساتھ گدی راجپوت لگایا، کچھ نے اپنی شناخت کے لیے کچھ اور لگالیا، ہمارے بزرگوں نے اپنی ایک الگ شناخت کے لیے اپنی قومیت کے ساتھ شناختی لفظ پٹھان لگایا اور یہاں گدی پٹھان کہلانے لگے۔
اب ہماری برادری کے کچھ افراد اس بات پر بضد ہیں کہ ہمیں صرف گدی کہلوانا چاہیے، جبکہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے ہماری ایک شناخت جو ہمیں دی ہے اور ان 70 سالوں میں ہم نے اپنے تمام تعلیمی ڈومیسائل اور جائیداد کے کاغذات میں لفظ گدی پٹھان لکھوایا ہے، اب ہم اسے سرکاری ریکارڈ اور دیگر حلقہ احباب سے ختم کرنا ممکن نہیں، آپ قابل احترام مفتیان دین علماء کرام سے اس سلسلے میں رہنمائی درکار ہے۔ ہمیں قرآن وحدیث کی روشنی میں اس معاملہ رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہمارے بزرگوں کایہ فیصلہ درست تھا اور کیا ہم اپنی شناخت کو برقرار رکھ کر کسی گناہ کے مرتکب تو نہیں ہورہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ لوگوں کی خاندانی نسبت اگر واقعتاً پٹھان قبیلے سے ہے، تب تو آپ کے آباء واجداد کا پٹھان کی نسبت لگانے میں کوئی حرج نہیں، البتہ اگر آپ کے خاندان کی نسبت پٹھان قبیلے سے نہیں ملتی، تو ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں۔
لما في التنزیل:
یاأیھا الناس إنا خلقناکم من ذکر وأنثیٰ وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا إن اکرمکم عنداللہ أتقاکم إن اللہ علیم خبیر(سورۃ الحجرات:13)
وفي صحیح البخاري:
حدثنا أبو معمر حدثنا عبدالوارث عن الحسین عن عبداللہ ابن بریدۃ قال، حدثني یحي بن یعمر أن أبا الأسود الدیلي حدثہ عن أبي ذر رضي اللہ عنہ : أنہ سمع النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول:’’لیس من رجل ادعی لغیر أبیہ وھو یعلمہ إلا کفر ومن ادعی قوما لیس لہ فیھم نسب فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘. (کتاب المناقب، بابٌ، رقم الحدیث:3508، ص:590، دارالسلام للنشر والتوزیع).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/40