کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ فریق اول فریق ثانی سے معاہدہ ایسے کرے کہ فریق اول پندرہ لاکھ کے عوض 5سال تک مکان میں رہے گا اور کرایہ ادا نہیں کرے گا،5 سال بعد معاہدہ دوبارہ کیا جائے گا ،اگر فریق اول مکان چھوڑنا چاہے تو نفع کے ساتھ پندرہ لاکھ واپس کیا جائے اور اس صورت کے مطابق 5 سال کا کرایہ وصول کیا جائے گا، ایسا معاہدہ کرنا شریعت کی رو سے کیسا ہے؟
پندرہ لاکھ منافع کے ساتھ واپس ہوں گے، نفع متعین نہیں ہے، مکان چھوڑتے وقت جو قیمت ہوگی اسی اعتبار سے منافع ہوگا، پانچ سال بعد اگر مکان کی قیمت بیس لاکھ ہوجاتی ہے، تو بیس لاکھ واپس ہوں گے، پھر اسی بیس لاکھ میں سے کرایہ بھی کٹے گا جو کہ ابھی متعین نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں ذکر کردہ معاملہ جائز نہیں۔لما في الھدایۃ:
’’قال: الإجارۃ تفسدھا الشروط کما تفسد البیع ؛لأنہ بمنزلتہ، ألا تریٰ أنہ عقد یقال ویفسخ، ومن استأجر دارا کل شھر بدرھم فالعقد صحیح في شھر واحد فاسد في بقیۃ الشھور، إلا أن یسمي جملۃ شھور معلومۃ... ولو سمی جملۃ شھور معلومۃ جاز؛ لأن المدۃ صارت معلومۃ‘‘. (باب الإجارۃ الفاسدۃ: 291/6، البشریٰ)
وفي الدر المختار:
’’وشرطھا کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعۃ‘‘. (کتاب الإجارۃ: 9/9، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/204