پرائز بانڈ کا حکم

پرائز بانڈ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پرائز بانڈ کے حوالے سے پوچھنا تھا کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ آیا مطلقا جائز نہیں یا پریمیم پرائز بانڈ جائز نہیں، اس حوالے سے مسئلہ کی تفصیلاً وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ پرائز بانڈ کی خرید وفروخت جائز نہیں، اور اس پر ملنے والی رقم انعام نہیں، سود ہےجوکہ ناجائز ہے۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(إن شرط المال) في المسابقۃ (من جانب واحد وحرم لو شرط) فیھا (من الجانبین)؛ لأنہ یصیر قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بینھما) بفرس کفء لفرسیھما یتوھم أن یسبقھما، وإلا لم یجز، ثم إذا سبقھما أخذ منھما، وإن سبقاہ لم یعطھما، وفیما بینھما أیھما سبق أخذ من صاحبہ‘‘.
وتحتہ في الرد:
’’(لأنہ یصیر قمارا)؛ لأن القمار من القمر الذي یزداد تارۃ وینقص أخری، وسمي القمار قمارا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذھب مالہ إلی صاحبہ ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وھو حرام بالنص، ولا کذلک إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزیادۃ والنقصان لا تمکن فیھما، بل في أحدھما تمکن الزیادۃ وفي الآخر الانتقاص فقط، فلا تکون مقامرۃ؛ لأنھا مفاعلۃ منہ زیلعي‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع: ٩/ ٦٦٥:رشیدیۃ)
وفي روح المعاني:
«یا أیھا الذین آمنوا إنما الخمر» وھو المسکر المتخذ من عصیر العنب، أو کل ما یخامر العل، ویغطیہ من الأشربۃ وروي ھذا عن ابن عباس رضي اللہ تعالی عنھما «والمیسر» وھو القمار وعدوا من اللہ بالجوز، والکعاب «والأنصاب» وھي الأصنام المنصوبۃ للعبادۃ، وفرق بعضھم بین الأنصاب والأصنام بأن الأنصاب: حجارۃ لم تصور کانوا یتصبونھا للعبادۃ، ویذبحون عندھا والأصنام: ما صور وعبد من دون اللہ عز وجل «والأزلام»وھي القداح، وقد تقدم الکلام في ذلک علی أتم وجہ «رجس» أي: قذر تعاف عنہ العقول، وعن الزجاج الرجس کل ما استقذر من عمل قبیح‘‘.(سورۃ المائدۃ: ٧/ ٣٩٠:مؤسسۃ الرسالۃ).فقط. واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/81