قرض خواہ کا مقروض سے مزید رقم (جو اس کو تلاش کرنے میں رقم لگی)کا مطالبہ کرنا

قرض خواہ کا مقروض سے مزید رقم(جو اس کو تلاش کرنے میں رقم لگی)کا مطالبہ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے خالد سے قرض لیا اور پھر مقروض شہر چھوڑ کے بھاگ گیا، اب خالد دوسرے شہر جا کر زید کو تلاش کرے گا، پوچھنا یہ ہے کہ اس دوران خالد سے زید کو تلاش کرنے پر جو رقم خرچ ہوگی، کیا خالد کے لیے اتنی رقم مزید مقروض (زید)سے لینا جائز ہے؟

جواب

اگر زید (قرض دار) قرضہ ادا کرنے پر قادر ہےپھر بھی ادا نہیں کررہا، ٹال مٹول کررہا ہے، تو احادیث مبارکہ میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعید آئی ہے، البتہ قرض خواہ کے لئے مقروض سے مزید رقم  (جو مقروض کو دوسرے شہر جاکر تلاش کرنے میں لگے) لینا جائز نہیں۔
لما في صحيح البخاري:
’’عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مطل الغني ظلم‘‘.(باب الحوالة، رقم الحديث: 2278، دار طوق النجاة)
لما في الدر مع الرد:
’’فإن لم يظهر له مال خلاه.... (ولم يمنع غرماءه غنه) على الظاهر، أي: ظاهر الرواية وهو الصحيح، بحر. فيلازمونه نهارا، ويستأجر للمرأة مرأة تلازمها. منية)‘‘.(كتاب القضاء: 8/76، رشيدية)
وفیہ أیضاً:
’’أجرة السجن والسجان في زماننا يحب أن تكون على رب الدين...؛ لأنه محبوس لأجله‘‘.(كتاب الإجارة: 74/9، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/94