گائے اور بیل کی شرمگاہ کی تجارت کا حکم

گائے اور بیل کی شرمگاہ کی تجارت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی بیل اور گائے کی شرمگاہ کی تجارت کرتا ہے، پاکستان سے چین لے کر جاتا ہے اور وہاں فروخت کرتا ہے، تو معلوم کرنا تھا کہ اسلامی رو سے یہ تجارت درست ہے یا نہیں؟ اس کی کمائی کا کیا حکم ہے؟
وضاحت:چائنہ کے لوگ اسے بطورِ علاج استعمال کرتےہیں،یا بطورِ خوراک یہ بات معلوم نہیں ،لہٰذا اگر ہر تقدیر جواب دیا جائے تو مہربانی ہوگی۔

جواب

واضح رہے کہ حلال جانور کے کپوروں اور خصیتین کی بیع بطورِ تداوی اور علاج کے اس وقت درست ہے، جب کہ ماہر طبیب کہے کہ اسی میں شفاء ہے اور کوئی مباح دواء اس کے متبادل نہ ہو ،لہٰذا بغیر تداوی اور علاج کی ضرورت کے ان (شرمگاہ)کی بیع کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

لما في الدر:
’’قال في النھایۃ وفي التھذیب:یجوز للعلیل شرب البول والدم والمیتۃ للتداوي اذ اخبرہ طبیب،مسلم أن فیہ شفاءہ ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ‘‘.(کتاب البیوع،مطلب في التداوي بالمحرم:۵۰۸/۷،رشیدیۃ).
وفي الشامیۃ:
’’(قولہ:کرہ تحریما)وقیل:تنزیھا،والأول أوجہ(من الشاۃ سبع:الحیاء والخصیۃ والغدۃ والمثانۃ والمدارۃ والدم المسفوح والذکر) للاثر الوارد في کراھۃ ذلک،وجمعھا بعضھم في بیت واحد فقال:

فقـل ذکـر والانثیـان مثانۃ
کذاک دم ثم المدارۃوالغدد

ولما روي الأوزاعي عن واصل بن أبي جمیلۃ عن مجاھد قال: کرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الشاۃ الذکر والأنثیین والقبل والغدۃ والمدارۃ والمثانۃوالدم‘‘.(کتاب الخنثیٰ،مسائل شتیٰ:۵۱۲/۱۰،رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:165/ 174

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی