کتوں کی خریدو فروخت کرنے کا حکم

کتوں کی خریدو فروخت  کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک کاروبار ادارے میں شریک ہوں،جس کا تعلق کتوں کی تجارت سے ہے، یعنی پاکستان میں کتوں کی افزائشِ نسل او ران کی پرورش بعد ازاں اس کی غیر ممالک میں برآمد، غیر ممالک کے نمائندے کے توسط سے اس کاروبار کی پیش کش وصول ہوتی ہے،کیا از روئے شریعت اس کاروبار کے کرنے اور اس میں شریک ہونے کی اجازت ہے؟

جواب

صورت مسؤلہ میں تفصیل یہ ہے کہ عام کتوں کی خریدوفروخت ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ شریعت میں جن کتوں کی خرید وفروخت اور کرنےکی اجازت ہے ،وہ صرف ان کتوں سے متعلق ہے کہ کوئی شخص شکار یا گھر کی حفاظت کے لیے رکھنا چاہتا ہے،لیکن فی زمانہ عام طور پر نمائش اور زیب وزینت کے لیے رکھے جاتے ہیں اور کاروبار بھی صرف انہیں کتوں کا ہوتا ہے، جنہیں گھروں کی نمائش اور سفر میں گاڑیوں کی نمائش کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

حدیث شریف میں صراحتاً اس کی ممانعت آئی ہے کہ جس گھر میں کتا موجود ہو، اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے،لہٰذا ایسے کاروبار میں کسی مسلمان کے لیے شرکت کرنا درست نہیں، تجارت کی او ربہت جائز صورتیں ہیں جنہیں اختیار کیاجاسکتا ہے۔

''وقال الحنفیۃ:الکلاب التي ینتفع بھا یجوز بیعھا ویباح ثمنھا۔۔۔وروي عن أبي حنیفۃ- رحمہ اﷲ- أن الکلاب العقورلا یجوز بیعہ ولا یباح ثمنہ''.(تکملۃ فتح الملھم، باب تحریم ثمن الکلب وحلوان الکاہن: ١/٥٢٦، مکتبۃ دار العلوم کراچی)

''(یصح بیع الکلب والفہد وسائر السباع علمت) الکلب والفہد والسباع (أو لا) عندنا لحصول الانتفاع بہم حراسۃ أو اصطیادا وعن أبي یوسف لا یصح بیع الکلب العقور؛لأنہ لاینتفع بہ حراسۃ کالہوام المؤذیۃ، وذکر في المبسوط أنہ لا یجوز بیع الکلب العقور الذي لا یقبل التعلیم، وقال ہذا ہو الصحیح من المذہبِ''.(مجمع الأنھر،مسائل شتی:٢/١٠٧، دار إحیاء التراث العربي)

''عَن أبی طَلْحَۃ-رضي اللّٰہ عنہ - قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیہِ کَلْبٌ وَلَا تصاویر''.(مشکوٰۃ المصابیح،باب التصاویر،الفصل الأول:٢/٣٨٥، قدیمی).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی