ڈیلیوری کے بغیر شیئرزکو آگے فروخت کرنے کا حکم

ڈیلیوری کے بغیر شیئرزکو آگے فروخت کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میں شیئر کا کاروبار کرتا ہوں، میں جب ایک شیئر خریدتا ہوں تو وہ تین دن بعد میرے کھاتے میں منتقل ہوتا ہے، اس کو ہم کاروباری اصطلاح میں ”ڈیلیوری” کہتے ہیں، کاروباری طریقے کے مطابق میں اس شیئر کوخریدتا ہوں(اس کی ڈیلیوری کے بغیر)اور آگے بیچنے کا مجاز ہوں،خریدوفروخت کی رقم کا جو بھی فرق ہے،وہ بھی میرے کھاتے میں ظاہر ہوجائے گا، کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟

جواب

شیئرز کی فروخت بغیر ”ڈلیوری، کے آگے کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں پہلے ایک اصول سمجھ لیں، اس کے بعد مسئلہ سمجھنا آسان ہوگا۔
اصول یہ ہے کہ جس چیز کو آپ نے خریدا ہے، اس چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں،لیکن قبضے کے اندر ہمیشہ ”حسی” قبضہ ضروری نہیں ہوتا بلکہ کبھی ”حکمی” قبضہ بھی ہوتا ہے، یعنی وہ چیز ہمارے ضمان(رسک)میں آجائے تو اس کے بعد بھی اس چیز کو آگے فروخت کرنا جائز ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر شیئرز خریدتے وقت اس کا رسک(ضمان)منتقل ہوجاتا ہے تو اس صورت میں اس شیئر کو آگے فروخت کرنا جائز ہے ورنہ نہیں۔

بہرحال احتیاط کا تقاضا پھر بھی یہی ہے کہ جب تک اس ”شیئر” کی  ”ڈلیوری” منتقل (ٹرانسفر) نہ ہو اس وقت تک اس ”شیئر” کوآگے فروخت نہ کیا جائے۔

''عن ابن عباس - رضي اﷲ عنہما - قال :قال رسول اﷲ- صلی اﷲ علیہ وسلم -:من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یقبضہ، قال ابن عباس: وأحسب کل شيء بمنرلۃ الطعام''.(الصحیح لمسلم، کتاب البیوع، باب بطلان البیع قبل القبض: ٢/٥، قدیمی)

''قولہ: وأحسب کل شيء مثلہ: یعني مثل الطعام وفي بطلان البیع قبل قبضہ ، فیحرم بیع کل شيء قبل قبضہ طعاماً کان أو غیرہ''.(تکملۃ فتح الملھم:١/٣٥٠، دارالعلوم کراتشي)

''القبض إئما حقیقي أو حکمي وھو التمکن من القبض بحیث لو مدّ یدہ یقبضہ من غیر واسطۃ فعلی آخر مدّ الید ولواحتاج إلی المشي لم یکن قابضا وإن وجدت التخلیۃ''. (فتاوی أنقرویۃ:١/٢٥٤، دار الإشاعت العربیۃ قندھار)

''وحاصلہ: أن التخلیۃ قبض حکما أو مع القدرۃ علیہ بلا کلفۃ لکن ذلک یختلف بحسب حال المبیع، ففي نحو حنطۃ في بیت مثلاً فدفع المفتاح إذا أمکنہ الفتح بلا کلفۃ قبض، وفي نحو دار فالقدرۃ علی إغلاقھا قبض أي بان تکون في البلد فیما یظھر، وفي نحو بقرفي مرعی فکونہ حیث یری ویشار إلیہ قبض وفي نحو ثوب، فکونہ بحیث لو مدّ یدہ تصل إلیہ قبض''. (رد المحتار، کتاب البیوع، مطلب في شروط التخلیۃ: ٤/٥٦٢، سعید)

(و)تصح (بقبض بلا إذن في المجلس) فإنہ ہنا کالقبول فاختص بالمجلس (وبعدہ) أي بعد المجلس بالإذن ۔۔۔(والتمکن من القبض کالقبض فلو وہب لرجل ثیابًا في صندوق مقفل ودفع إلیہ الصندوق لم یکن قبضًا)''.(تنویر الأبصار مع الدر المختار، کتاب الہبۃ: ٥/٦٩٠، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی