چیک یا بل کو کم قیمت پر فروخت کرنا

چیک یا بل کو کم قیمت پر فروخت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک زمیندار کسان ہے اور گنے کا کاشتکار ہے، آج کل گنے کی کٹائی شروع ہے، جب مل کو گنا دیا جاتا ہے تو اس کا وزن کر کے زمیندار کو ایک رسید (جسے سی، پی ،آر کہتے ہیں) دے دی جاتی ہے،جس پر گنے کی رقم درج ہوتی ہے، یہ ایک قسم کا چیک یا بل ہوتا ہے جسے دکھا کر مل یا بینک سے رقم وصول کی جاتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مل رقم کی ادائیگی بروقت نہیں کرتی بوجہ مجبوری اور کسان کو رقم کی اشد ضرورت ہے، یہاں کچھ لوگ ان سی ،پی ،آر کی خریدوفروخت کا کاروبار کرتے ہیں اور کسان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مل دئیے گئے فی من ریٹ پر 5 سے 12 روپے کٹوتی کرتے ہوئے کسان سے سی،پی،آر لے لیتے ہیں اور پیسے دے دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی کا 400 من گنا ہے اور مل اسے 70 روپے من کے حساب سے خریدتی ہے، جس کی قیمت =/28000 روپے بنتی ہے، سی،پی،آر کی خریدوفروخت کرنے والے اس کے بدلے کٹوتی کرتے ہوئے =/26000 روپے دیتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ کیا سی پی آر کی یہ خریدوفروخت جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ چیک یا بل کی فروختگی کم قیمت پر جائز نہیں، اس لیے کہ چیک اور بل خود کوئی مال نہیں، صرف گنے کی قیمت وصول کرنے کی رسید ہے، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ معاملہ جائز نہیں ہے، دونوں(خریدنے والا، بیچنے والا) گنہگار ہوں گے، البتہ اس کے جواز کی صورت اس طرح ممکن ہے کہ زمین دار دوسرے(سی ،پی،آر لینے والے) سے اس قدر رقم قرض لے جس قدر رقم چیک پر لکھی گئی ہے او رپھر اپنے چیک کے وصول کرنے کا اسے وکیل بنادے اور اس وکالت پر اس شخص کے لیے اجرت بھی طے کرلے، نیز یہ بھی اسے اختیار دے کہ اس رقم کو میرے قرض میں منہا کرلینا، اس طرح یہ معاملہ درست ہوسکتا ہے۔
لما في التنزیل العزیز:
’’وأحل اللہ البیع وحرم الربوا‘‘.(سورۃ البقرۃ:285)
وفي الدر مع الرد:
’’وأفتی المصنف ببطلان بیع الجامکیۃ، لما في الأشباہ بیع الدین إنما یجوز من المدیون‘‘.
’’قولہ: (وأفتی المصنف إلخ) تأیید لکلام النھر، وعبارۃ المصنف في فتاواہ سئل عن بیع الجامکیۃ: وھو أن یکون لرجل جامکیۃ في بیت المال ویحتاج إلی دراھم معجلۃ قبل أن تخرج الجامکیۃ فیقول لہ رجل: بعتني جامکیتک التي قدرھا کذا بکذا، أنقص من حقہ في الجامکیۃ، فیقول لہ: بعتک فھل البیع المذکور صحیح أم لا لکونہ بیع الدین بنقد أجاب إذا باع الدین من غیر من ھو علیہ کما ذکر لایصح قال: مولانا في فوائدہ: وبیع الدین لایجوز ولو باعہ من المدیون أو وھبہ جاز‘‘.(کتاب البیوع، مطلب في بیع الجامکیۃ:31/7، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/121