ڈسکاؤئنٹنگ میں کٹوتی کا حکم

ڈسکاؤئنٹنگ میں کٹوتی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کمپنی امپورٹ کرتی ہے، مگر اس کے پاس کیش موجود نہیں، وہ سپلائر کو چیک دیتی ہے اور ساتھ یہ شرط طے ہوتی ہے کہ سپلائر کو کیش کی ضرورت پڑے تو کسی مالیاتی ادارے سے ڈسکاؤنٹنگ کروالے، اس صورت میں جو کٹوتی ہوگی وہ امپورٹر برداشت کرے گا، چاہے سپلائر تھوڑے دنوں کی ڈسکاؤنٹنگ کروائے اور تھوڑی کٹوتی کروائے، چاہے زیادہ دنوں کی ڈسکاؤنٹنگ کروا کر زیادہ کٹوتی کروالے، ہر حال میں اس کو امپورٹ کمپنی برداشت کرے گی، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
وضاحت:ڈسکاؤنٹنگ کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً :زید نے کمپنی کے ساتھ باقاعدہ معاملہ کرلیا، پیمنٹ دوماہ بعد ملنی تھی، کمپنی نے زید کو توثیق کے لیے ایک رسید حوالہ کردی، حامل رسید کو دوماہ بعد پیمنٹ مل جائے گی، زید کو نقدی کی فی الحال ضرورت ہے، دو ماہ تک انتظار نہیں کرسکتا، مخصوص مالیتی ادارے سے رجوع کرتا ہے، مالیاتی ادارہ اصل رقم سے کچھ کٹوتی کر کے زید کو نقد دے دیتا ہے، اور رسید اپنے پاس رکھ کر دوماہ بعد پیمنٹ وصول کرتا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں امپورٹر مالیاتی ادارے کا مقروض بن جائے گا، اور مالیاتی ادارے نے اگر کٹوتی کی، تو قرض پر جو نفع ہوگا، جو کہ سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہٰذا مذکورہ معاملہ شرعاً درست نہیں۔
اگر امپورٹر کے پاس کیش نہیں ہے، تو ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپس کی رضامندی سے ادائیگی کی کوئی اگلی تاریخ طے کر کے قیمت بڑھا لی جائے، اور متعینہ تاریخ کو ادائیگی کی کوئی صورت اختیار کرلی جائے۔
لمافي اعلاء السنن:
’’عن علي رضي اللہ عنہ مرفوعا، قال: کل قرض جر منفعۃ فھو ربا، وکل قرض شرط فیہ الزیادۃ فھو حرام‘‘. (باب کل قرض جر منفعۃ فھو ربا: 499/4، إدارۃ القرآن)
وفي الدر مع الرد:
’’قولہ: (کل قرض جر نفعاً حرام) أي :إذا کان مشروطا‘‘.(کتاب البیوع، فصل في القرض: 512/14،رشیدیۃ)
وفي البدائع:
’’وأما الذي یرجع إلی نفس القرض، فھو أن لایکون فیہ جر منفعۃ ......؛ لما روي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :أنہ نہی عن قرض جر نفعاً؛ ولأن الزیادۃ المشروطۃ تشبہ الربا؛ لأنھا لایقابلہ عوض، والتحرز عن حقیقۃ الربا، وعن شبھۃ الربا واجب‘‘.(کتاب القرض:597/10، دارالکتب العلمیۃ بیروت).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:67/ 177