پنکھوں کی مد میں رقم لے کر مدرسے کے دوسرے مصارف میں خرچ کرنے کا حکم

پنکھوں کی مد میں رقم لے کر مدرسے کے دوسرے مصارف میں خرچ  کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے اپنے مدرسہ کے لیے پنکھوں کی ضرورت تھی، ایک دکان دار کے پاس میں گیا، اس کو پیسے دے دیے اور کہا کہ یہ پنکھے بل بنا کر میرے مدرسہ بھیج دینا، دکان دار نے اپنے آس پاس کے دکان داروں سے بات کی اور پنکھوں کی رقم جمع کی، چندہ کی رقم سے وہ پنکھے خریدے اور میری رقم مجھے واپس کردی، اور آگے صورت حال ایسی ہوئی کہ میرے ایک دوست کو معلوم ہوا کہ مدرسہ کے لیے پنکھوں کی ضرورت ہے، اس نے کہا! بل میرے پاس بھیج دو میں مکمل رقم ادا کردیتا ہوں، اب میرے لیے دوسری جگہ سے رقم لینا جائز ہے پنکھوں کی مد میں، کہ اس رقم کو مدرسہ کی دوسری ضروریات میں خرچ کردوں یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں چوں کہ مدرسہ کے پنکھوں کی ضرورت پوری ہوچکی ہے، اس لیے آپ کے لیے اپنے دوست کو بتائے بغیر اس سے پنکھوں کی مد میں رقم لے کر مدرسہ کی دوسری ضروریات میں خرج کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر پنکھوں کی ضرورت پوری ہونے کا بتانے کے بعد بھی وہ رقم دے دے تو پھر اس رقم کو مدرسے کی دیگر ضروریات میں خرچ کرنا جائز اور درست ہے۔

لما في رد المحتار:

إذا ذكر للوقف مصرفا لا بد أن يكون فيهم تنصيص على الحاجة حقيقة. (كتاب الوقف، مطلب: متى ذكر للوقف مصرفا: 6/559، رشيدية)

وفي الأشباه:

شرط الواقف يجب اتباعه لقولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي: في وجوب العمل به وفي المفهوم والدلالة. (الفن الثاني: الفوائد،كتاب الوقف، ص: 194، فاروقية)

وفي الشامية:

على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصا ...... وفي الأشباه في قاعدة العادة محكمة أن ألفاظ الواقفين تبنى على عرفهم كما في وقف فتح القدير.(كتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة: 6/683، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 170/136